شام: ترکی کی بمباری کے بعد داعش جنگجو جیل سے فرار

قیدی مشرقی شام میں کرد اکثریتی شہر قمیشلی میں واقع جیل سے فرار ہوئے جبکہ داعش سے تعلق رکھنے والی خواتین نے الھول کیمپ میں کرد حفاظتی دستوں پر پتھروں اور ڈنڈوں سے حملہ بھی کیا۔

ترک فورسز کی جانب سے شا م کے علاقے راس العین  میں بمباری کے بعد دھواں اٹھتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔ (اے ایف پی)

شام میں کرد ملیشیا کی سربراہی میں کام کرنے والی سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ قمیشلی میں جیل کے قریب ترکی کی بمباری کے باعث داعش کے پانچ جنگجو فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

ایس ڈی ایف ترجمان مروان قمیشلو کے مطابق یہ قیدی مشرقی شام میں کرد اکثریتی شہر قمیشلی میں واقع جیل سے فرار ہوئے جبکہ داعش سے تعلق رکھنے والی خواتین نے الھول کیمپ میں کرد حفاظتی دستوں پر پتھروں اور ڈنڈوں سے حملہ بھی کیا۔

مروان قمیشلو کا کہنا تھا کہ الھول کیمپ میں ہونے والا یہ واقعہ غیر ملکی قیدیوں والے حصے میں پیش آیا جس میں گزشتہ واقعات کے مقابلے میں زیادہ افراد ملوث تھے۔

ان کے مطابق: ’داعش سے تعلق رکھنے والی خواتین نے الھول کیمپ میں حفاظتی عملے پر حملہ کیا، ان کے خیموں کو آگ لگا دی اور انہیں ڈنڈے اور پتھر مارے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایس ڈی ایف کی جانب سے اس واقعے کی عکس بند کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تقریباً 20 برقع پوش خواتین ایک کھلی جگہ میں بھاگ رہی ہیں جبکہ کچھ مرد انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب داعش نے قوامیشلی میں ہونے والے ایک خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

جمعرات کو ایک کرد عہدیدار نے تنبیہ کی تھی کہ ترکی کے حملے کے بعد داعش کے جنگجوؤں کو قید رکھنے کی کردوں کی اہلیت میں کمی واقع ہوگی کیونکہ وہ ترکی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

کرد جنگجوؤں کے خلاف کیے جانے والے اس آپریشن کے تیسرے دن ترکی کی فوج شام کے علاقے میں داخل ہو چکی ہے۔

عالمی برادری کی جانب سے اس کارروائی پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے جبکہ ہزاروں شہری اس علاقے کو چھوڑ رہے ہیں۔

اس آپریشن میں اب تک ترکی کے نو شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ شام میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کارروائی کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ 

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا