سرکاری عمارتوں کے ناموں  پر’کون اور کیوں‘ کا سوال

نام میں بہت کچھ رکھا ہے، خاص کر جب قومی عمارتوں اور مقامات کے رکھنے ہوں۔ پاکستان میں ایک مرتبہ پھر یہ بحث زبان زد عام ہے کہ ہوائی اڈوں و دیگر اہم عمارتوں کو کس کے نام کے ساتھ منسوب کرنا بہتر رہے گا۔

بےنظیر بھٹو اور باچا خان کے ناموں کے گرد تنازعات: باچا خان بین القوامی ہوائی اڈے کا ایک منظر۔ فوٹو۔سی اے اے

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے اسلام آباد کے نئے بین القوامی ہوائی اڈے کو بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب کرنے کی خبر کے بعد اس تجویز کے حق اور مخالفت میں متضاد رائے سامنے آنا شروع ہوگئی ہے۔

ساتھ ہی یہ خبر بھی گردش میں آئی کہ خیبر پختونخوا میں باچا خان بین الاقوامی ہوائی اڈے کا نام بھی تبدیل کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ یہ فیصلہ محض اس عمارتوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر تمام سرکاری عمارتوں پر بھی اس کا اطلاق ہوگا جو سیاسی شخصیات کے ناموں سے منسوب ہیں۔

رد عمل میں خیبر پختونخوا میں باچا خان کے مداحوں اور پیرو کاروں نے ان تمام عمارتوں کے نام تبدیل کرانے کا مطالبہ کیا ہے جو انگریزوں اور دیگر غیرملکیوں کے ناموں سے منسوب ہیں۔ اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے جب سرکاری ذرائع سے بات کی تو انہوں نے ان خبروں کی تردید کر دی اور کہا کہ صوبائی حکومت فل الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے۔ 

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ خود نہ صرف باچا خان کے پیروکار ہیں بلکہ ان کے سکول میں بھی پڑھے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حاکمِ وقت اور آئندہ آنے والی تمام حکومتوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ باچا خان سیاست سے بالاتر ایک شخصیت ہیں۔ انہوں نے اس ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا، پشتون قوم کی خاطر طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن عدم تشدد کا پرچار کیا۔’تمام دنیا انہیں رول ماڈل کے طور پر دیکھتی ہے۔ پاکستان میں بھی حکومتوں کو چاہیے کہ باچا خان کے نام کو سیاست کے ترازو میں نہ تولیں۔’

سرکاری عمارتوں کے نام تبدیل کرنے کے موضوع پر سوشل میڈیا پر یہ تکرار بھی جاری رہی کہ اگر ان کے سیاسی ہیروز کے نام برداشت نہیں کیے جا رہے ہیں تو ان درجنوں دوسری عمارتوں کے نام بھی تبدیل کیے جائیں جو انگریز اور دوسرے غیرملکیوں کے نام سے منسوب ہیں۔

خیبر پختونخوا کے تاریخ کے ماہر و تجزیہ کار محمد ایاز خان بتاتے ہیں کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تاریخ نہیں پڑھتی ہے۔ ’عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ بطور خاص خیبر پختونخوا میں جن عمارتوں کے نام برطانوی افسران کے نام سے منسوب ہیں اس کی وجہ ان کی بےلوث خدمت ہے۔ جیسا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے لیے لارڈ ریڈنگ کی بیوی ’لیڈی ریڈنگ‘ نے بھاگ دوڑ کی تھی۔ ایڈورڈز سکول، سر ہربرٹ ایڈورڈ نے یتیم پشتون بچوں کے لیے کھولا تھا۔’

انہوں نے کہا کہ پشاور میں روس کیپل ایک لین تھی جس کو ہٹا کر سنگین غلطی کی گئی۔ ’ایسا اس لیے نہیں ہونا چاہئے تھا کہ جارج روس کیپل نے اسلامیہ کالج کے قیام میں سر صاحبزادہ عبدالقیوم کی بہت مدد کی تھی۔ سر کیپل کی مدد کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔’

’پشاور کے لیڈی گرفتھ سکول کا بھی یہی حشر ہوا۔ جس عمارت کے بنانے میں اس کے بانی کی خدمات شامل ہوں اس نام  کو تبدیل کرنا جرم ہے۔ مشہور علی مردان ہاؤس کا نام ’کور ہیڈ کوارٹرز‘ پڑ گیا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح مذہب اور زبان سے اختلاف کی بنیاد پر آپ صدیوں پرانے نام بدل نہیں سکتے ہیں۔ ہنڈ جوکہ ’او ہند‘ سے نکلا ہے، اسے مسلم آباد یا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح گور گٹھڑی کا نام کچھ اور نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ البتہ عمارتوں کے نام متنازعہ سیاسی شخصیات کے نام کرنے پر تنقید ہو سکتی ہے۔ یا ایسے شخصیات جن کی کوئی خدمات نہ ہوں۔’

پاکستان میں ناموں کو لے کر بحث زور و شور سے چھڑ جاتی ہے لیکن اکثر کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم بھی ہو جاتی ہے۔ حکومت ردعمل کے خوف سے متنازع ناموں کو چھڑنے سے کتراتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان