کوئٹہ میں کینسر ہسپتال: ایمن کی آواز سنی گئی

او لیول کی 13 سالہ طالبہ ایمن نے2017 میں کینسر ہسپتال کے قیام کی خاطر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے مہم شروع کی تھی۔

ایمن ضیا  

کوئٹہ میں کم عمر بچی ایمن ضیا کی محنت بالآخر رنگ لے آئی اور بلوچستان حکومت نے کینسر کا علیحدہ ہسپتال قائم کرنے کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں۔

او لیول کی 13 سالہ طالبہ ایمن نے2017 میں کینسر ہسپتال کے قیام کی خاطر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے مہم شروع کی تھی۔

ایمن نے بتایا کہ انہیں اُس وقت کینسر ہسپتال کی ضرورت زیادہ محسوس ہوئی جب انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ بلوچستان کے دو نوجوان شاہ مریداور ریحان رند کینسر کے باعث جان کی بازی ہار گئے۔

 ایمن کے بقول انہوں نے جب کینسر کے مریضوں کے علاج معالجے کے لیے’ کوئٹہ آن لائن‘ نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے جدوجہد شروع کی تو انہیں ایسے مریضوں کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں نے اس کے بعد کینسر کے ہسپتال کے لیے مہم شروع کی اور سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے آواز بلند کی۔‘

ایمن کے مطابق چونکہ کینسر کا علاج مہنگا ہوتا ہے لہذا وہ چاہتی ہیں کہ کوئٹہ میں ہی ہسپتال قائم کیا جائے تاکہ صوبے کے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں نہ جانا پڑے۔ 

کوئٹہ کے شیخ زید ہسپتال میں کینسر کے مریضوں کے لیے دو سو بیڈ پر مشتمل تین فلوز مختص کرنے کی منظوری ہو چکی ہے، جس کا افتتاح رواں ماہ کی 20 تاریخ کو متوقع ہے۔

صوبائی محکمہ صحت کی دستاویزات کے مطابق شیخ زید ہسپتال کوئٹہ کے تین فلورزپر مشتمل 62 ہزار 936 اسکوائر فٹ کے حصے کو کینسر ہسپتال میں تبدیل کیا جائے گا۔

 کوئٹہ آن لائن  ضرورت مندوں کی مدد کرتی ہے جن میں کینسر کے مریض سرفہرست ہیں۔ تنظیم کے بانی ضیا خان کے مطابق چونکہ کینسر کا علاج مہنگا ہے اور یہاں ممکن نہیں تھا اس لیے وہ ایسے مریضوں کی مدد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ’جب ہم نے ایسے مریضوں کی مدد شروع کی تو ہمیں ادراک ہوا کہ مالی مدد کے ساتھ کینسر کا ہسپتال بھی یہاں ہونا چاہیے۔‘

ضیاکے مطابق انہوں نے کینسر ہسپتال کے قیام کے لیے نہ صر ف سوشل میڈیا پر مہم چلائی بلکہ سیمینار زاورپریس کانفرنس کے ذریعے بھی لوگوں کواس کی اہمیت سے آگاہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضیا نے بتایا انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے ہسپتال کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔

محکمہ صحت کے حکام بتاتے ہیں کہ ہسپتال کے قیام کے لیے منصوبہ بندی کو حتمی شکل دے دی گئی ہےاور اس کی منظوری بھی ہوچکی ہے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق فیز ون کے تحت ہسپتال میں ریڈیو تھراپی مشین، سی ٹی سیمولیشن اورپلاننگ رومز اور ریڈی ایشن مشینوں کے لیے بنکر بنائے جائیں گے جبکہ فیز ٹو میں تعمیراتی اور کمروں کی تزہین و آرائش کے ساتھ اوپی ڈی کا شعبہ قائم ہو گا۔

پہلےدونوں فیز مکمل ہونے کے بعد شیخ زید ہسپتال میں جامعہ کینسر کا شعبہ قائم کیاجائے گا جس میں اونکو لوجی سیٹ اپ بھی منتقل کیا جائے گا۔

محکمہ صحت کی دستاویزات کے مطابق ہسپتال کے لیے دو ریڈیو تھراپی مشینوں کی ضرورت ہوگی، جن کی مالیت 200سے 250 ملین روپےہے۔

 واضح رہے کہ بلوچستان میں کینسر کے مریضوں کے لیے  تابکاری اونکولوجی یونٹ 1978 میں قائم کیا گیا ،جسے2000 میں بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔

بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں کینسر وارڈ صرف 10 بستروں پر مشتمل تھا، جسے بعد میں 14 بستروں تک بڑھادیا گیا۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق کینسر کے علاج کے لیے سینار ہسپتال کو بھی اپ گریڈ کرکے’سٹیٹ آف آرٹ ‘ہسپتال بنایا جائے گا۔

بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے شعبہِ سرطان کے ایسوسی ایٹ پروفیسر  ڈاکٹر زاہد محمود سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں کینسر کے مریضوں کی تعدادمیں اضافے کے باعث ایک الگ ہسپتال کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

 محکمہ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق2015 سے 2019 تک بولان میڈکل کمپلیکس میں ڈھائی ہزار مرداور تین ہزار پانچ سو کےقریب خواتین کینسر کے مریضوں کو رجسٹرڈ کیا گیا۔

ڈاکٹر زاہد کے مطابق بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں بلوچستان کےعلاوہ افغانستان سے بھی مریض بھی لائے جاتےہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں وارڈ تو قائم ہے لیکن کینسر کا علیحدہ ہسپتال ہونا چاہیے ۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت