انڈونیشیا میں ایک بندر کو مخصوص پودا بطور دوا استعمال کرتے دیکھا گیا

یہ کسی جنگلی جانور کے زخم کے ارادتاً علاج کے لیے کسی دوا کے استعمال کا پہلا معلوم واقعہ ہے۔ اورنگوٹن (بندر کی ایک قسم) نے درد میں آرام دینے والے پودے کا استعمال کیا۔

کولمبو کے قریب ایک چڑیا گھر میں 13 مئی 2023 کو اورنگوٹن بندر درخت پر موجود (ایشارا ایس کوڈیکارا/ اے ایف پی)

انڈونیشیا میں ایک بندر کو مخصوص پودے کی مدد سے زخم کا علاج کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

یہ کسی جنگلی جانور کے زخم کے ارادتاً علاج کے لیے کسی دوا کے استعمال کا پہلا معلوم واقعہ ہے۔ اورنگوٹن (بندر کی ایک قسم) نے درد میں آرام دینے والے پودے کا استعمال کیا۔

انڈونیشیا میں محققین نے ایک دستاویزی فلم تیار کی ہے جس میں نر سماٹرن اورنگوٹن کو چہرے پر لگانے کے لیے بار بار ایک پودے سے رس نکالتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس پودے میں سوزش اور درد کم کرنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس پودے کو طویل عرصے روائتی دوا کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

بندر نے اپنے زخم پر پودے کے پتوں سے بنی جالی بھی لگائی جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں اور بندروں کے مشترکہ آباؤاجداد دوا کی مدد سے زخموں کا علاج کرتے ہوں گے۔

پودوں کے مخلتف حصے کھا کر اپنے طور پر دوا لینے کا عمل جانوروں کی انواع میں بڑے پیمانے پر دیکھا گیا ہے لیکن کسی مخصوص مؤثر مواد کی مدد سے زخموں کے علاج کو پہلے کبھی دستاویزی شکل  نہیں دی گئی۔

انڈونیشیا کے علاقے سواق بالمبنگ میں معمول کے مشاہدات کے دوران محققین نے دیکھا کہ راکس نامی نر اورنگوٹن کے چہرے پر زخم آیا۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ زخم کسی پڑوسی نر بندر کے ساتھ لڑائی کے دوران لگا۔

کچھ دنوں بعد محققین نے زخمی اورنگوٹن کو آکار کننگ (فائبروریا ٹنکٹوریا) نامی پودے کے پتوں کے ٹکڑے کرنے کے بعد انہیں چباتے اور اس طرح نکلنے والے رس کو کئی منٹ تک بار بار اپنے زخم پر لگاتے ہوئے دیکھا۔

آخر میں اس نے زخم کو چبائے ہوئے پتوں سےمکمل طور پر ڈھانپ دیا۔

آکار کننگ نامی پودا اپنی درد کم کرنے والی خصوصیات کے لیے جانا جاتا ہے اور ملیریا جیسی بیماریوں کے علاج کے لیے روایتی ادویات میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ’پودوں کے کیمیائی مرکبات کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں فیرونوڈیٹرپینوئڈز اور پروٹوبربیرین الکلائڈز موجود ہیں، جن میں اینٹی بیکٹیریل، اینٹی سوزش، اینٹی فنگل، اینٹی آکسیڈنٹ اور دیگر حیاتیاتی خصوصیات شامل ہیں جو زخموں کے علاج میں کام آتی ہیں۔‘

اورنگوٹان کے زخم میں انفیکشن کی کوئی علامت دکھائی نہیں دی اور پانچ دن بعد یہ زخم بھر گیا۔

تحقیق کے مصنفین میں سے ایک ازابیل لومر کے مطابق ’راکس کا رویہ دانستہ معلوم ہوتا ہے کیوں کہ اس نے چہرے کے دائیں جانب اپنے زخم کا ہی علاج کیا اور پودے کے جوس سے جسم کے کسی دوسرے حصے کا علاج نہیں کیا۔ یہ عمل کئی بار دہرایا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محققین نے قیاس کیا ہے کہ دوا کے طور پر استعمال ہونے والے پودے کو کام میں لاتے ہوئے اورنگوٹن کا اپنے زخم کا علاج  کرنا انفرادی جدت طرازی کے نتیجے میں سامنے آیا ہو گا۔

تحقیق کی ایک اور مصنفہ کیرولین شوپلی کا کہنا تھا کہ ’اس جگہ پر اورنگوٹن شاذ و نادر ہی پودے کھاتے ہیں۔ تاہم یہ پودا کھاتے ہوئے حادثاتی طور پر اس کا رس ان کے زخموں پر لگ جاتا ہے اور اس طرح وہ غیر ارادی طور پر یہ رس زخم پر لگا لیتے ہیں۔‘

ڈاکٹر شوپلی نے مزید کہا ’چوں کہ فیبریوریا ٹنکٹوریا میں درد کش اثرات ہوتے ہیں، لہذا اسے استعمال کرنےوالوں کو فوری طور پر درد سے نجات مل سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس عمل کو کئی بار دہراتے ہیں۔‘

یہ طرز عمل بندروں کی بڑی نسل میں حیاتیاتی طور پر مؤثر مادے کے ذریعے  زخم کے علاج کی پہلی رپورٹ ہے جو انسانوں کے قریب ترین رشتہ داروں کے از خود علاج کرنے پر روشنی ڈالتا ہے۔

انسانوں کے معاملے میں زخم کا علاج کے پہلی بار 2200 قبل مسیح کی ایک طبی دستاویز میں کیا گیا۔ رپورٹ میں زخم کو دھونے، اس پر پلاسٹر لگانے اور خصوصی مواد کے ساتھ پٹی کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق ’چوں کہ افریقی اور بڑے ایشیائی بندروں میں زخم کے مؤثر علاج کی شکلیں بھی پائی جا سکتی ہیں، اس لیے یہ ممکن ہے کہ زخموں پر طبی یا عملی خصوصیات والے مادوں کی شناخت اور استعمال کا مشترکہ بنیادی نظام موجود ہو اور یہ کہ ہمارے آخری مشترکہ آباؤ اجداد پہلے ہی مرہم پٹی کے عمل کی ایک جیسی شکلیں ظاہر چکے ہوں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت