بندروں سے مزدوری کروانے والی کمپنی مشکل میں پڑ گئی

تھائی لینڈ میں کوکونٹ مِلک بنانے والی ایک بڑی کمپنی پر الزام ہے کہ وہ درختوں سے ناریل توڑنے کے لیے بندروں سے مشقت کرواتی ہے۔

ایک تھائی ٹرینر سموئی سینٹر میں بندر کو ناریل توڑنے کا طریقہ سکھا رہا ہے (اے ایف پی)

تھائی لینڈ میں کوکونٹ مِلک (ناریل کا دودھ) بنانے والی ایک کمپنی پر الزام ہے کہ وہ بندروں سے بطور مزدور مشقت لے رہی ہے۔

جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ 'پیٹا' نے ’تھیپا ڈونگپورن کوکونٹ‘ نامی اس کمپنی پر بندروں کو مزدوری کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے، جس کے بعد کمپنی کی مصنوعات کی فروخت میں زبردست کمی دیکھی گئی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان الزامات کے بعد رواں ماہ متعدد برطانوی ریٹیلرز نے تھائی ناریل کی مصنوعات کی خریداری بند کر دی۔

پیٹا کے مطابق تھائی لینڈ میں درختوں سے ناریل توڑنے کا کام بندروں سے لیا جاتا ہے۔ ’تھیپاڈونگپورن کوکونٹ‘ ناریل کی مصنوعات برآمد کرنے والی تھائی لینڈ کی سب سے بڑی کمپنی ہے، جس کے منیجنگ ڈائریکٹر آفیساک تھیپڈونگپورن کا کہنا ہے کہ 'اس الزام کے بعد گذشتہ سال سے ہماری مصنوعات کی فروخت میں 20 سے 30 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔'

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی منگیتر کیری سائمنڈز نے بندروں سے مشقت لینے والی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا خیرمقدم کیا اور دوسروں کو بھی اس اقدام کی پیروی کرنے کی اپیل کی ہے۔ پیٹا نے تھائی حکومت کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ ناریل کی صنعت میں بندروں کا استعمال تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیٹا کی رپورٹ میں کہا گیا کہ تھائی لینڈ میں ناریل کی زیادہ تر فصل جنگل سے پکڑے گئے بندر درختوں سے اتارتے ہیں۔

تھائی کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک تھرڈ پارٹی نے جنوری میں کمپنی کا آڈٹ کرنا شروع کیا تھا جس کے تحت اب تک 100 سے زیادہ تحقیقاتی عمل مکمل ہو چکے ہیں جس میں بندروں سے مشقت لینے کا الزام ثابت نہیں ہوا۔

تھائی حکام کا موقف بھی یہی ہے کہ پولز کا استعمال کرتے ہوئے انسان ہی ناریل جمع کرتے ہیں۔ تھائی لینڈ میں گذشتہ برس ناریل کی پیداوار آٹھ لاکھ ٹن سے زیادہ تھی اور ملک نے 40 کروڑ ڈالرز مالیت کا کوکونٹ مِلک برآمد کیا جس میں سے آٹھ فیصد صرف برطانیہ کو برآمد کیا گیا تھا۔

بینکاک کے قریب ناریل کے ایک باغ کے مالک ویرات سانگجن نے بتایا کہ پیٹا کی رپورٹ کے بعد وہ نصف قیمت پر ناریل فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جس سے بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات