چلی اور پاکستان

چلی میں تسلیم کیا گیا کہ حکمران اشرافیہ کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ یہ طے پایا ہے کہ نیا آئین لکھا جائے۔ سب سے اہم پیش رفت اس میں یہ ہے کہ ضلع کی سطح پر آئینی تجاویز بھیجی جائیں گی۔

چلی میں حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ایک نقاب پوش شخص جس کے پلے کارڈ پر’متاثرہ افراد کے لیے انصاف‘ کا مطالبہ لکھا ہے۔ چلی کا کہنا ہے کہ آمرانہ دور کے آئین کو تبدیل کرنے کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے گا (اے ایف پی)

پاکستان پچھلے دس سال میں خوش قسمت بھی رہا ہے اور بدقسمت بھی۔ خوش قسمت اس لحاظ سے کہ عرب بہار سے چند سال قبل پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک چلی۔

تو ایک طرح سے پاکستان دوسرے ملکوں سے آگے رہا اور ہمارے بعد تیونس، مصر اور شام میں تحریکیں شروع ہوئیں۔ مگر پاکستان بدقسمت اس لیے ہے کہ ہماری تحریکیں سیاسی انجینیئرز کے زیرِ اثر رہیں اور عوام کو حقیقی آزادی نہ مل سکی اور وہ اب تک محکوم ہے۔

ایک نئی جمہوریہ کی ضرورت کے معاملے میں بھی ہم دنیا سے آگے رہے۔ سوڈان، الجیریا اور چلی میں یہ تحریکیں شروع ہو چکی ہیں اور تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں ان قوموں نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے وہ نئی جمہوریہ حاصل کرنے میں رکاوٹیں اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

سوڈان میں فوج اور سویلینز نے مشترکہ کمیٹی بنائی ہے، جس میں فوج کا اثر و رسوخ سویلینز سے زیادہ ہے۔ الجیریا میں حکومت کو توعوام ہٹانے میں کامیاب ہو گئے لیکن فوج مکمل طور پر قابض ہے اور اسے چھوڑنے پر تیار نہیں۔ اب تک ہر جمعے کو عوام سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور فوج سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ سیاست سے کنارہ کش ہو جائے۔ فرانس جس کے فوج سے گہری تعلقات ہیں وہ بھی اپنا اثرورسوخ ان کے پلڑے میں ڈال رہا ہے۔

سب سے دلچسپ صورت حال چلی میں پیدا ہوئی جہاں حکمران اشرفیہ نے عوام کے مطالبات کو تسلیم کیا کہ موجودہ جمہوریہ حکمران اشرافیہ کے مفاد میں کام کر رہی ہے اور عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

چلی کا موجودہ آئین 1983 میں نافذ کیا گیا مگر 35 سال گزرنے کے بعد بھی نہ حکمرانی اچھی ہو سکی اور نہ آئینی حقوق عوام کو مل سکے۔

اب عوامی احتجاج کے بعد یہ طے پایا ہے کہ نیا آئین لکھا جائے اور اسے ایک ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے قبول کروا کر اور رائج کیا جائے۔ سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ ضلعے کی سطح پر آئینی تجاویز بھیجی جائیں گی جو ایک کمیٹی باقاعدہ آئین میں شامل کرے تاکہ عوام اس عمل میں باقاعدہ حصہ دار ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمیں ان تمام مثالوں سے ضرور سیکھنا چاہیے، مگر ہمیں اپنے معاشرے اور ثقافت کو مدنظر بھی رکھنا ہو گا۔ خونی انقلاب کا نظریہ مغرب کا پیدا کردہ  ہے۔ اس طرح کے انقلاب میں نہ صرف بےتحاشا جانی نقصان ہوتا ہے بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ حکومت اور ریاست کی مکمل عمارت کو زمین بوس کر دیا جائے تاکہ ایک نئی ریاست کی تعمیر ہو۔

تاریخ سے واضع ہے کہ مغربی طرز کے تقریباً تمام انقلاب اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اسلام کا معاشرتی نظریہ شخص کی ذہن سازی اور تربیت پر زور دیتا ہے۔ یہ ایک صبر آزما اور سست روعمل ہے مگر اس میں زیادہ پائیداری اور تعمیری پہلو ہیں۔ ہمیں سیرت رسول سے اس معاملے میں رہنمائی اور سبق سیکھنے چاہییں۔

ہماری نئی جمہوریہ کی تحریک اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ اس وقت سب سے اہم ضرورت ذہن سازی اور سیاسی تربیت کی ہے۔ ضلع کی سطح پر لوگ اکھٹے ہو کر اس بات پر غور و فکر شروع کریں کہ اس معاشرے کو بدلنے کے لیے ہمیں کس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے۔

عمران خان، خادم رضوی، طاہر القادری اور مولانا فضل الرحمان کے دھرنے نہ عوامی تھے اور نہ انقلابی۔ ان تمام کا بنیادی مقصد اپنی ذات کا مفاد اور سیاسی سیڑھی پر اوپر چڑھنا تھا۔ یہ دھرنے اشرافیہ نے اپنے لیے دیے اور ان میں سیاسی انجینیئرز بھی کسی نہ کسی طور شامل تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ