عالمگیر وزیر عدالت میں پیش: ’منہ کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا‘

سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے میڈیا رابطہ کار علی اشرف نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ عالمگیر کو آج عدالت میں کسی دہشت گرد کی طرح پیش کیا گیا۔ ان کا منہ کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا۔

طلبہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر طلبہ کو بھی اپنا حق مانگنے پر لاپتہ کیاجارہاہے تو عام لوگوں کی حالت کیا ہو گی؟ 

(فوٹو کریڈٹ: علی اشرف)

پنجاب یونیورسٹی سے 30 نومبر کو مبینہ طور پرغائب ہونے والے عالمگیر وزیر پولیس حراست میں ہیں۔ سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے میڈیا رابطہ کار علی اشرف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عالمگیر کو آج عدالت میں کسی دہشت گرد کی طرح پیش کیا گیا۔ ان کا منہ کپڑے سے ڈھانپا ہواتھا، یونیورسٹی سے پولیس نے انہیں 30 نومبر کو حراست میں لیا تھا مگر گرفتاری اپنے کاغذوں میں یکم دسمبر کو دکھائی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’عدالت نے عالمگیر وزیر کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ دیا ہے ۔ ان کی ضمانت کے لیے اب ہم اپنا قانونی حق استعمال کریں گے۔‘ علی کے مطابق عالمگیر وزیر کو کیمپ جیل لاہور میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پولیس کی جانب سے طلبہ یک جہتی مارچ میں شامل چھ طلبہ کے خلاف ایف آئی آر میں نامزد ڈاکٹر عمار علی جان، کامل اور فاروق طارق نے قبل از وقت اپنی ضمانت کروا لی ہے۔ (مزید تفصیل عمار علی جان کے ٹویٹ میں دیکھی جا سکتی ہے۔)

علی اشرف کا کہنا ہے کہ پیر کی دوپہر 12 بجے انہوں نے عالمگیر کی بازیابی اور طلبہ کے خلاف ایف آئی آر کے خلاف پنجاب یونیورسٹی میں ایک جلوس نکالا تھا اور اس کے بعد طلبہ نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دفتر کے باہر دھرنا دیا جو اب تک جاری ہے ۔ کل بروز منگل طلبہ کا کیا لائحہ عمل ہو گا اس کا اعلان آج رات تک کیا جائے گا۔

دھرنا دینے والے طلبہ کا کہنا تھا کہ جلوس نکالنے پر کئی شرکا کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا جب کہ عالمگیر وزیرکے اغوا پر یونیورسٹی انتظامیہ خاموش رہی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ عالمگیر کے اہل خانہ اور ساتھیوں کو ان سے ملاقات کرنے کی اجازت دی جائے۔

دھرنے میں شریک طلبہ رہنما ریاض خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خیبر پختونخوا سے لاہور میں زیر تعلیم طلبہ میں شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بھی انہیں تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اگر انہوں نے کوئی غیر قانونی کام کیا بھی ہو تو پولیس کے ذریعے گرفتارکر کے عدالتوں میں پیش کیوں نہیں کیا جا رہا؟‘

طالبہ ارکو ضیا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگومیں کہا کہ ’طلبہ کی آواز کو دبانے کے لئے انہیں ہراساں کیا جارہا ہے ملک کی بڑی یونیورسٹی میں بھی طلبہ کی آواز سننے والا کوئی نہیں تو انہیں انصاف کیا ملے گا؟‘ انہوں نے کہا کہ وہ پر امن طور پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن ان کی بات کوئی بھی سننے کو تیار نہیں جس سے طلبہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔‘

زہیب حسن شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کی کہ ’اگر ان کی بات نہ سنی گئی تو وہ اپنا احتجاج پھیلا دیں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ اگر طلبہ کو بھی اپنا حق مانگنے پر لاپتہ کیا جا رہا ہے تو عام لوگوں کی حالت کیا ہو گی؟ انہوں نے اعلان کیاکہ وہ طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے ان کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ طلبہ کے حقوق کے لیے تمام طلبہ کو ہم آواز ہوکر جدوجہد کرنا ہو گی ورنہ ان کاحق تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان