زرداری کا علاج ضیا الدین ہسپتال میں ہی کیوں؟

ملک میں کئی بڑے ہسپتال ہونے کے باوجود سابق صدر کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں اپنے علاج کو ترجیح کیوں دیتے ہیں۔

ضیا الدین ہسپتال کے چوتھے فلور پر وی آئی پی سوٹ نمبر ٹو آصف علی زرداری کے لیے مختص ہے(اےایف پی)

سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری ہفتے کی شام چھ بجے کراچی میں بلاول ہاؤس سے ضیاالدین ہسپتال منتقل ہوگئے۔

اس نجی ہسپتال کے چوتھے فلور پر وی آئی پی سوٹ نمبر ٹو زرداری کے لیے مختص ہے اور سینیئر ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل بورڈ نے ان کا طبی معائنہ شروع کردیا ہے۔

زرداری کو جون 2019 میں منی لانڈری کیس میں حراست میں لینے کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں رکھا گیا تھا۔

ساڑھے تین ماہ بعد ان کے طبیعت خراب ہونے کے پر پمز ہسپتال اسلام آباد منتقل کیا گیا، جہاں ڈیڑھ ماہ تک ان کا علاج جاری رہا۔

جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر ان کی ضمانت منظور کی، جس کے بعد وہ جمعے کو خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد سے کراچی آ گئے۔

نو دسمبر کو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ سابق صدر کی ابتدائی ایم آر آئی رپورٹ میں ان کے دماغ کا سائز چھوٹا نظر آیا ہے۔

ڈاکٹر وسیم کے مطابق دماغ کے چھوٹے ہونے کی وجہ عمر یا کوئی بیماری ہے، اس بات کا ایم آر آئی کی مکمل رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ ان کو ذیابطیس کے ساتھ دل کا عارضہ بھی ہے۔

اب کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع ضیاالدین ہسپتال میں ان کا علاج شروع ہو چکا ہے۔

ضیا الدین ہسپتال ہی کیوں؟

ضیاالدین ہسپتال زرداری کے قریبی دوست اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹرعاصم حسین کی ملکیت ہے، جو ان کے ذاتی معالج ہیں اور اسیری کے دوران بھی ان کا علاج کر چکے ہیں۔

پارٹی ذرائع کے مطابق زرداری اور ڈاکٹر عاصم کی دوستی کو 50 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ 1963 میں کراچی گرائمر سکول سے شروع ہونے والی اس دوستی کے بعد دونوں نے کیڈٹ کالج پٹارو سے انٹرمیڈیٹ کیا۔

ڈاکٹر عاصم نے، جو ایک آرتھوپیڈک سرجن ہیں، 1971 میں کچھ عرصے کے لیے پاکستان آرمی میں بھی کام کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زرداری کی بگڑتی طبیعت کے بعد سینیٹ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمن ملک کی ہدایت پر ان کے علاج کے لیے بنائے گئے میڈیکل بورڈ میں ڈاکٹرعاصم کو 30 نومبر کو شامل کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر عاصم کو 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں چیئرمین نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو تعینات کیا گیا، وہ 2009 میں سینیٹر منتخب ہوئے لیکن سپریم کورٹ کے دوہری شہریت کیس کے فیصلے کے بعد انہیں 2012 میں مستعفی ہونا پڑا۔

ڈاکٹر عاصم کو سندھ رینجرز نے اگست 2015 میں 462 ارب روپے کی بدعنوانی کے مقدمات میں زیرحراست لیا تھا۔

ضیا الدین ہسپتال کی پہلی برانچ کی بنیاد ڈاکٹر عاصم کے والد ڈاکٹر تجمل حسین نے 1957 میں اپنے والد ڈاکٹر ضیا الدین کے نام پر نارتھ ناظم آباد میں رکھی تھی۔

 ڈاکٹر ضیا الدین بھارت کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے اور انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔

ضیاالدین ٹرسٹ کے زیر انتظام ڈاکٹر ضیاالدین گروپ آف ہاسپٹلز کے اس وقت کراچی میں پانچ ہسپتال ہیں، جن میں ناظم آباد میں دو، کیماڑی میں ایک، کوثر نیازی کالونی میں کینسر ہسپتال اور ایک ہسپتال کلفٹن بلاک چھ میں واقع ہے۔

ضیاالدین ہسپتال کلفٹن برانچ جہاں زرداری کا علاج کیا جائے گا وہ 1999 میں تعمیر کی گئی۔ 180 بستروں پر مشتمل یہ ہسپتال بلاول ہاؤس سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

زرداری پہلی بار علاج کے لیے ضیاالدین ہسپتال داخل نہیں ہوئے۔ 1990 کی دہائی میں جب انہیں کرپشن کے الزام میں جیل بھیجا گیا تو اس دوران وہ یہیں علاج کرواتے رہے۔

ان کے والد حاکم علی زرداری پر بھی جب کرپشن کے مقدمات بنے اور وہ گرفتار ہوئے تو انہوں نے بھی بیمار ہونے پر یہیں علاج کروایا۔

زرداری کے علاوہ پیپلز پارٹی کے کچھ اور رہنما بھی اسی ہسپتال سے علاج کروا چکے ہیں۔

ان میں سب سے نمایاں سابق صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات شرجیل میمن ہیں، جو جعلی کمپنیوں کو کم نرخوں پر سرکاری اشتہارات دینے کے الزام میں قومی احتساب بیورو کے ریفرنس میں گرفتار ہوئے تو بعد میں اسی ہسپتال میں داخل ہوئے۔

ہسپتال میں قیام کے دوران سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے ان کے کمرے پر چھاپہ مارکر دو بوتلیں برآمد کی تھیں، جن کے بارے میں بعد میں کیمیائی تجزیے کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ان بوتلوں میں زیتون کا تیل اور شہد تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان