سابقہ ساتھیوں کا استحصال: خفیہ کیمرے، ٹیڈی بئیر، سب خطرناک

ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے گھریلو تشدد میں انتقامی پورن سے اکاؤنٹ ہیکنگ، شناخت چوری یا کسی بھی متاثرہ فرد کو خفیہ اور ریکارڈنگ آلات سے نشانہ بنانے جیسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔

متاثرین کو یہ کہنا کہ وہ ’آف لائن ہو جائیں‘ کافی نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی کہنے جیسا ہے کہ ’یہ چلی کیوں نہیں جاتی؟‘ (پکسابے)

ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے گھریلو تشدد میں انتقامی پورن سے اکاؤنٹ ہیکنگ، آئی ڈی کی چوری یا کسی بھی متاثرہ فرد کو خفیہ اور ریکارڈنگ آلات سے نشانہ بنانے جیسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔

حتی کہ ایک سمارٹ فون رکھنا بھی ایسے متاثرہ فرد کو دی جانے والی اذیت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ جہاں ان کا استحصال کرنے والا انہیں بار بار فون کال کر کے، سوشل میڈیا پر انہیں ہراساں کرنے اور ان کے فون پر جاسوس سافٹ وئیر کے ذریعے ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتا ہے۔

برطانیہ میں گھریلو تشدد کے متاثرین کو پناہ اور مدد دینے والے ادارے ریفیوج کے مطابق یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ادارے کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ چار ہزار چار خواتین نے گذشتہ سال اس ادارے سے مدد طلب کی جن میں سے تین تہائی متاثرین اپنے سابقہ ساتھی کے ہاتھوں ٹیکنالوجی کے ذریعے استحصال کا نشانہ بنی ہیں۔

اس حوالے سے خدمات فراہم کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے استحصال کرنے کے طریقوں میں حالیہ سالوں کے دوران اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ریفیوج کے مطابق گذشتہ دو سال کے دوران ٹیکنالوجی کے ذریعے استحصال کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جن میں سمارٹ لاکس، ویب کیمرے، سمارٹ ہیٹنگ سسٹم کا استعمال کر کے متاثرین کی نگرانی اور انہیں کنٹرول کیا جا رہا ہے۔

وومینز ایڈ نامی ادارے کی قائم مقام چیف ایگزیکٹو ادینہ کلئیر کا کہنا ہے کہ’ آن لائن پیچھا کرنا، ہراساں کرنا یا تصویر کا استعمال کرنا وہ چند طریقے ہیں جنہیں ٹیکنالوجی کے ذریعے گھریلو تشدد کرنے والے استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے متاثرین کو ڈرا دھمکا سکیں۔ ایسا اکثر تعلق ختم ہونے کے بعد سالوں تک جاری رہتا ہے جس کے باعث متاثرین مسلسل خوف اور پریشانی کے عالم میں رہتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے زبردستی یا کنٹرول کرنا غیر قانونی ہے لیکن ہم اس حوالے سے سامنے آنے والے رپورٹس پر تشویش کا شکار ہیں کیونکہ پولیس ابھی تک غیر جسمانی تشدد کے معاملات کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا ہے کہ ’پولیس کو اس حوالے سے تمام آلات، تربیت اور مہارت فراہم کرنی ہو گی تاکہ وہ آن لائن تشدد کے خلاف ’موثر ردعمل‘ دینے کے ساتھ ساتھ خواتین کو محفوظ رکھتے ہوئے تشدد میں ملوث افراد کو کٹہرے میں لا سکے۔‘

خدمات فراہم کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کئی ایسے معاملات بھی دیکھے گئے ہیں جس میں سابقہ متشدد ساتھی نے تحفے میں دیے گئے کھلونے یا ٹیڈی بیر میں نصب جی پی ایس ٹریکر کے ذریعے متاثرہ فریق کی لوکیشن پر نظر رکھی ہو۔

گھریلو تشدد کے حوالے سے کام کرنے والی چیریٹی سیف لائیوز کی چیف ایگزیکٹو سوزانے جیکب کہتی ہیں ’ متاثرین کی جانب سے ٹیکنالوجی کے ذریعے ہراساں، کنٹرول اور تنہا کرنے کے واقعات رپورٹ کرنے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ متاثرین کو یہ کہنا کہ وہ ’آف لائن ہو جائیں‘ کافی نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی کہنے جیسا ہے کہ ’یہ چلی کیوں نہیں جاتی؟‘ اس کا مطلب ہے کہ متاثرین کو ہی ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ خود کو محفوظ رکھیں نہ کہ تشدد کرنے والے کو روکا جا رہا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے متاثرین کو تنہائی کے احساس سے باہر نکالا جا سکتا ہے، انہیں دوستوں اور خاندان سے رابطے میں رکھا جا سکتا ہے اور ان کو مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیز، حکومت اور گھریلو تشدد کے حوالے سے کام کرنے والا شعبہ مل کر کام کریں اور تشدد کرنے والے افراد کو کٹہرے میں لاتے ہوئے ٹیکنالوجی کو مسائل کے حل کے لیے استعمال کریں۔‘

سمارٹ ہیٹنگ سے لیکر ٹیبلٹس تک جوں جوں ٹیکنالوجی ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہے ویسے ہی آن لائن تشدد کرنے والے افراد کو اپنے متاثرین کو ڈرانے کے مزید طریقے ملتے جا رہے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی