اگر بچہ پڑھائی میں کم زور ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے

ڈسلیکسیا کے شکار بچوں کو پڑھنے، لکھنے اور سیکھنے میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

ڈسلیکسیا کے شکار بچوں کو پڑھنے، لکھنے اور سیکھنے میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ڈسلیکسیا کی شکار ایک 10سالہ برطانوی طالبہ کی انتہائی پُر اثر نظم نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی ہے۔

یہ نظم روایتی طریقے سے اوپر سے نیچے یا پھر نیچے سے اوپر پڑھی جا سکتی ہے اور دونوں صورتوں میں اس کے الگ الگ مطلب نکلتے ہیں۔

جین بروئڈس نامی ایک استاد نے گذشتہ بدھ کو ٹوئٹر پر ’ڈسلیکسیا‘ کے عنوان سے لکھی گئی اس نظم کو پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین نہیں آرہا کہ یہ نظم ان کی 10 سالہ طالبہ نے لکھی ہے۔

ڈسلیکسیا کے شکار بچوں کو پڑھنے، لکھنے اور سیکھنے میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور اس نظم میں بچی نے اسی حوالے سے اپنے خیالات شیئر کیے ہیں۔

انگریزی میں لکھی گئی اس نظم کا مفہوم کچھ یوں ہے:

میں بے وقوف ہوں

کوئی بھی یہ نہ کہے

میرے پاس تحریر لکھنے کا ہنر ہے

مجھے عظیم بننا ہے

یہ غلط ہے

…………..

کوئی بھی مجھے ایسا سوچنے پر مجبور نہیں کر سکتا

میں اپنی زندگی میں کچھ کر سکتی ہوں

نظم کے آخر میں بچی کے دستخط بھی موجود ہیں۔

ٹوئٹر پر پوسٹ ہونے والی اس نظم کو 85 ہزار سے زائد لوگوں نے لائیک کیا جبکہ یہ 26 ہزار مرتبہ ری ٹویٹ بھی ہو چکی ہے۔

ٹوئٹر صارفین نے ڈسلیکسیا جیسے اہم مسئلے پر بچوں کو لکھنے کی ترغیب دینے پر جین کو مبارک باد دی ہے۔

ایک صارف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’بہت شاندار، آپ ایک اچھی استاد ہیں۔ آپ نے بچی کو اِس وقت جو حوصلہ اور اعتماد دیا ہے، وہ اسے عمر بھر یاد رہے گا‘۔

ایک اور ٹویٹ میں کہا گیا ’ایک مرتبہ مجھے چھٹی کلاس کے ٹیچر نے بے وقوف قرار دیا تھا، 3 سال بعد مجھے پتہ چلا کہ میں تو ڈسلیکسیا کا شکار ہوں‘۔

جین نے سوشل میڈیا پر اچھا ردعمل ملنے پر لوگوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔

ڈسلیکسیا کیا ہے؟

ڈسلیکسیا  ایسی بیماری کو کہتے ہیں جس کے شکار فرد کو پڑھنے میں دشواری  پیش آتی ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق اس کا تعلق دماغ اور اُس کے کام سے ہے مگر اِس کا ذہانت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ڈسلیکسیاکا شکار بچوں کوکسی بھی زبان کے الفاظ کی ادائیگی اورآواز کے اتار چڑھاؤ میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ڈسلیکسیاکے شکار فرد کو سپیلنگ میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ڈسلیکسیا پڑھنے کی ایک ایسی معذوری کا نام ہے جو کہ چھپی ہوئی ہوتی ہے اِس کا عام لوگوں اور جو فرد اِس کا شکار ہو اُسے خود پتا نہیں چلتا کہ وہ اِس کا شکار ہے۔  

چوں کہ اکثر اوقات اساتذہ کو بھی اِس بیماری اور اِس کی علامات کے بارے میں علم نہیں ہوتا اِس لیے وہ بچے جو ڈسلیکسیاکا شکار ہوتے ہیں وہ اپنی جماعت کے دوسرے بچوں کی نسبت پیچھے رہ جاتے ہیں اور اساتذہ بھی اُن کی کسی قسم کی مدد کے قابل نہیں ہوتے۔

ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں ہر دس افراد میں سے ایک شخص کسی نہ کسی حد تک اس مرض سے متاثر ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل