دس ماہ سے بیوی کے جرمنی آنے کا منتظر ہوں: پاکستانی شہری

ہزاروں پاکستانی شہری جرمن سفارت خانے میں کئی مہینوں پہلے فیملی ری یونین کے ویزے اپلائی کرنے کے باوجود منتظر ہیں۔ متاثرہ شہریوں کی پاکستانی دفتر خارجہ سے مدد کی درخواست۔

درخواست گزاروں نے پاکستانی حکومت اور دفتر خارجہ سے اپیل کی ہے کہ ویزا کے اجرا میں تاخیر کے مسئلے پر جرمن سفارت خانے سے بات کریں (اےایف پی)

’میری شادی 20 اپریل، 2019 کو ہوئی۔ شادی کے ٹھیک ایک مہینے بعد میں نے اپنی بیوی کے لیے جرمن سفارت خانے میں درخواست دی تاکہ ہم دونوں جلد از جلد جرمنی میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں۔ دو ہفتے بعد میں واپس جرمنی چلا گیا۔ دن ہفتوں اور مہینوں میں بدل گئے لیکن ویزا تو دور ہمیں ابھی تک اپائنمنٹ تک نہیں ملی۔ پہلے سات مہینے انتظار کا کہا گیا۔ پھر 10 مہینے اور اب تو 2020 میں مارچ کا مہینہ چل رہا ہے۔‘

 یہ کہنا تھا ایک 35 سالہ پاکستانی نوجوان کا، جو تقریباً 10 ماہ سے اپنی بیوی کے لیے جرمن سفارت خانے سے فیملی ری یونین ویزا حاصل کرنے کے منتظر ہیں۔

انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس عرصے میں انہوں نے پاکستان میں جرمن سفارت خانے کو کئی ای میلز لکھیں لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔

’میں نے انسانی حقوق کے کمیشن سے بھی رابطہ کیا، وہاں سے کوئی جواب نہ ملنے پر سیٹزنز پورٹل پر شکایت درج کی لیکن کسی نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ یوں لگا جیسے سفارت خانے کے سامنے سب بے بس ہیں۔ اب مجبوراً انتظار کرنے بیٹھ گئے ہیں۔ شادی کو اتنا عرصہ گزر گیا لیکن کچھ علم نہیں کہ ہم کب اپنی شادی شدہ زندگی شروع کریں گے۔‘

ان کے مطابق وہ اس صورت حال سے بہت پریشان اور افسردہ ہیں۔ تاہم جرمن سفارت خانے میں فیملی ری یونین ویزا کے لیے اپلائی کرنے والے یہ واحد نوجوان نہیں، جنہیںایسے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کی طرح  سینکڑوں درخواست گزار ہیں جو فیملی ری یونین ویزا اپائنمنٹ کے لیے سالوں سے انتظار کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کا اندازہ ہمیں ایک ایسے فیس بک گروپ کے ذریعے ہوا جو درخواست گزاروں نے صرف اس مقصد کے لیے بنایا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ  اپنی دستاویزات اور اس ضمن میں دوسرے مسائل پر بات کر سکیں۔

چھ ہزار ارکان پر مشتمل گروپ میں جب انڈپینڈنٹ اردو کی نمائندہ نے ایک پوسٹ میں پوچھا کہ کیا ان کو بھی فیملی ری یونین ویزا کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تو جواب میں 87  ایسے مزید درخواست گزاروں نے براہ راست نہایت پریشانی اور مایوسی کا اظہار کیا جب کہ بعض نے الگ سے رابطہ کرکے اپنے مسئلے پر روشنی ڈالی۔

ویزوں کے اجرا یا انٹریو اپائنمنٹ میں تاخیر کی وجہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد میں واقع جرمن سفارت خانے سے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا۔

ایک ہفتے بعد موصول ہونے والے جواب میں کہا گیا: ’جرمن سفارت خانہ پوری کوشش کر رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپائنمنٹ دے سکے، تاہم پچھلے سال درخواست گزاروں کی تعداد میں غیر متوقع اضافہ دیکھنے میں آیا۔

’ہم روزانہ کام کے بوجھ اور وسائل کو دیکھتے ہوئے مخصوص تعداد میں درخواست گزاروں کو اپائنمنٹ دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فیملی ری یونین ویزا والوں کے لیے انتظار کرنا مشکل ہوگا، لیکن افسوس کے ساتھ، ہم ایسا بھی نہیں کر سکتے کہ صرف چند ہفتوں کے اندر کسی کو اپائنمنٹ دیں۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ انتظار کا دورانیہ کم سے کم کر دیں۔‘

جب سفارت خانے کا یہ جواب ہم نے درخواست گزاروں کے سامنے رکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ایک معمول کا جواب ہے جو سفارت خانے والے ہر کسی کو دے رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر سفارت خانہ واقعی مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو بتائے کہ عملی طور پر کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔

’کام کا بوجھ اور تلخ رویے‘

ایک درخواست گزار نے گروپ میں لکھا کہ حقیقتاً جرمن سفارت خانے پر اسلام آباد، پنجاب، خیبر پختونخوا اور افغانستان کا بوجھ ہے جب کہ کاؤنٹر صرف تین ہیں جس کی وجہ سے ویزا کے اجرا کا طریقہ کار سست روی کا شکار ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ سفارت خانے نے مذکورہ علاقوں کے لوگوں کو پابند بنایا ہوا ہے کہ وہ کراچی قونصل خانے میں اپلائی نہیں کر سکتے۔ ایک اور متاثرہ شخص نے لکھا کہ کراچی کے جرمن قونصل خانے پر بھیڑ کم ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو مہینوں کے اندر ویزا مل جاتا ہے۔

اسلام آباد سفارت خانے کے ذریعے فیملی ری یونین ویزا کے درخواست گزاروں نے سوال کیا کہ اگر کراچی قونصل خانے سے مہینوں کے اندر ویزے جاری کیے جارہے ہیں تو اسلام آباد سے کیوں نہیں؟ اور اگر سفارت خانے میں کام کا بوجھ زیادہ ہے تو اس کا کوئی سدباب کیوں نہیں کیا جاتا۔

جرمن سفارت خانے میں ویزا کے لیے درخواست کرنے والے زیادہ تر درخواست گزاروں نے الزام لگایا کہ ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے سفارت خانے کے حکام اور جرمن حکومت سے استدعا کی کہ دونوں ملکوں کے بہتر تعلقات کے لیے یہ بھی اہم ہے کہ ایسی جگہوں پر احسن رویے سے عوام کے دلوں میں محبت بڑھائی جائے۔ 

بعض درخواست گزاروں نے گلہ کیا کہ سفارت خانہ ان کی فون کالز اور ای میلز کا جواب بھی نہیں دیتا اور نہ ہی انتظار کا دورانیہ زیادہ ہونے پر وقتاً فوقتاً کوئی ای میل کی جاتی ہے۔ بس پہلی دفعہ اپلائی کرنے کے بعد کئی مہینوں کے انتظار کا کہہ دیا جاتا ہے اور پھر سالوں لگ جاتے ہیں۔

ایک درخواست گزار نے لکھا: ’اب تو سالوں انتظار کروانے کے بعد بھی انہوں نے ویزے مسترد کرنا  شروع کر دیے ہیں۔‘

ایک درخواست گزارنے بتایا کہ انہوں نے برلن میں ایک سفارت کار سے رابطہ کیا جنہوں نے بتایا کہ جرمنی اسلام آباد میں ایک نیا ویزا سیکشن تعمیر کر رہا ہے کیونکہ موجودہ عمارت میں  درخواست گزاروں کی بڑھتی تعداد سے نمٹنے کے لیے جگہ کافی نہیں، لہذا نئے سیکشن پر کام کرنے کے لیے انہیں پاکستانی حکام کی اجازت درکار ہے۔

تجاویز

درخواست گزاروں نے جہاں اپنے مسائل پر بات کی وہاں انہوں نے پاکستان حکومت اور دفتر خارجہ سے اپیل کی کہ اس مسئلے پر جرمن سفارت خانے سے بات کی جائے۔ انہوں نے کچھ تجاویز بھی  دیں تاکہ جلد سے جلد زیادہ لوگوں کو اپائنمنٹس مل سکیں۔

1۔ کراچی قونصل خانے میں بھی اپلائی کرنے کی اجازت دی جائے۔

2۔ لاہور میں ایک قونصل خانہ قائم کرنے پر غور کیا جائے۔

3-  کام کو بانٹ لیا جائے۔ جیریز یا کسی ای میل سروس کے ذریعے درخواست گزار اپنی دستاویزات جمع کروائیں۔ اس طرح سفارت خانے پر رش بھی زیادہ نہیں ہوگا اور وقت کی بچت ہوگی۔

4-  وکیل کے درخواست  گزاروں کے پاس جا کر تحقیقات کرنے کی بجائے خود درخواست گزار اپنی متعلقہ دستاویزات لے کر وکیل کے دفتر جائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان