18ویں صدی کی ایک نامعلوم خاتون کا عورت مارچ

کتاب ’سیمنتنی اُپدیش‘میں اپنے گردوپیش کی پدرسری سے اکتائی 18 ویں صدی کی ایک نامعلوم ہندو خاتون نے اپنا کلیجہ کاغذ پر نکال کر رکھ دیا۔

عورت مارچ میں’اپنا کھانا خود گرم کر لو‘ والا پوسٹر اُس نوکری و چاکری کے خلاف بغاوت ہے جو شادی کے پرچے میں کسی لازمی سوال کی طرح عورت کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے(عورت مارچ)

لاہور پہنچ کر خیال آیا کہ ٹھکانہ نہیں ہے۔ جس ٹھکانے پر پہنچا وہاں برگزیدہ ہستیاں بیٹھی تھیں۔ کچھ ایسا دستورِ زباں بندی تھا کہ اقبال کی طرح اپنی زبان بھی بات کہنے کو ترس گئی۔ انشا جی کی طرح ہم اٹھے اور خاموشی سے کُوچ کر گئے۔

ادب کے دو جوڑی دار اساتذہ دوست ہو گئے ہیں۔ ایک پہ ہاتھ رکھو صلے میں دوسرا مل جاتا ہے۔ پروفیسرعباس کے نام پیغام بھیجا، ہم تیرے شہر میں آئے ہیں مسافر کی طرح۔ جواب پروفیسر نعیم وِرک کا آیا، چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے۔ ثمینہ سے رنگ اور کینوس کی باتیں کرتے ہوئے لاہور کے بھیگی ہوئی شاہراہوں سے گزرے، عکس پبلیکیشنز کے پھاٹک پر اتر گئے۔

میر ایسے پراگندہ طبع رندوں کی یہاں محفل جمی ہوئی تھی۔ سردی میں باہر مینہ برستا تھا، اندر گرمیِ گفتار میں دل سلگتے تھے۔ ایک پکارتا تھا ہائے گُل، دوسرا کہتا تھا ہائے دل۔ حجرے کا ماحول دور سے ہی کہہ رہا تھا کہ دستار باہر اتار کر اندر تشریف لائیے۔  

در محفلِ ما زاہد زنہار تکلف نیست
البتہ تو می گنجی عمامۂ تو نمی گنجد 

مطلب کہ ہماری محفل میں اے زاہد! تکلف کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس محفل میں تم تو سما سکتے ہو تمہاری دستار نہیں سما سکتی۔ اسی بات کو احمد فراز اپنے ترنگ میں کہتے ہیں

مے کدے میں کیا تکلف مے کشی میں کیا حجاب
بزمِ ساقی میں ادب آداب مت دیکھا کرو

عکس پبلیکیشنز کے نوفل اور فہد کی ساقی گری کی خیر ہو۔ ایک کے بعد ایک کتاب سامنے رکھتے تھے اور رِندِ خانہ خراب کا دل جلاتے تھے۔ کتابوں میں ایک کتاب ’سیمنتنی اُپدیش‘ تھی۔ دیکھا تو نگاہ وہیں ٹھہر گئی۔ یہ 18ویں صدی کی ایک نامعلوم ہندو خاتون کا حالِ دل ہے جو اپنے گردوپیش کی پدرسری سے اکتا گئی ہے۔

پنجاب کے کسی خوش حال گھرانے کی اس خاتون کی تسکین زیور سے ہوتی ہے اور نہ زرق برق ملبوسات سے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ زیور کو مردوں کی غلامی کا استعارہ سمجھتی ہے۔ اسے حیرت ہے کہ خواتین نے اپنے گلے میں یہ زنجیر گوارا ہی نہیں کی بلکہ اس زنجیر کو عزت بھی بخشی ہے۔ اب آزادی کی بات کرو تو انہیں لگتا ہے کسی مقدس تہذیب سے انحراف پر اکسایا جا رہا ہے۔ انہیں اگر اُنہی کا انسانی حق یاد دلاؤ تو بھی انہیں لگتا ہے کہ یہ صحیفوں سے بغاوت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خاتون کو اندازہ ہے کہ تہذیب کے پھندوں میں الجھائی گئی عورت کے دل میں رفو کا بہت کام نکل آیا ہے۔ جبر کے پنجرے سے اِن کا دل نکالنا ہوتا تو کوئی بات تھی۔ یہاں تو ان کے دل سے پنجرہ نکالنے کا چیلنج درپیش ہو گیا ہے۔ تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم۔ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں!

اس نامعلوم خاتون کے پاس بات کہنے کے لیے گنجائش بہت کم ہے کیونکہ معاشرے کے تمام دانش ور، اساتذہ، شیخ و شاہ اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ عورت ہماری خدمت گزار ہے۔ شہر کے معتبر لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ عورت کا خیال رکھنا چاہیے، مگر اس ’خیال‘ کا مطلب یہ ہے کہ خدمت گزاری کے بدلے عورت کو اپنے بچے کچے میں سے کچھ اچھا کھلا دینا چاہیے۔

عورت کو اس پس خوردہ پر ڈکار مار کر بھگوان کا شکر بجا لانا چاہیے۔ باکردار عورت وہ ہے جو چار لوگوں کے سامنے قبول ہے کی گردان کر کے اپنی من مرضیاں ایک مرد کو سونپ دے۔ جب مرد کے مزاج میں آئے منہ اٹھائے اور عورت کے ذاتی دائرے میں جوتوں سمیت ننگ دھڑنگ داخل ہو جائے۔ عورت اس پر چپ رہے تو باحیا ہے، مزاحمت کر دے تو اپنی عزت تو خاک میں ملائی سو ملائی خاندان کو بھی کُل جہاں میں رسوا کر دیا۔

یہ نامعلوم خاتون ایک عورت مارچ نکالنا چاہتی ہے، مگر نہیں نکال سکتی۔ اسے اپنے ارد گرد مولانا فضل الرحمٰن جیسے قدسیوں کی زرد شبیہیں گھومتی نظر آتی ہیں۔ وہ گھر والوں سے کچھ ضروری سوال کرنا چاہتی ہے، مگر اس کا بھائی ڈراما نگار کی طرح زبان پر غیرت وحمیت کا زیتون پیل کے گالم گفتار کرتا ہے۔ وہ قانون کی دستاویز میں اپنا مقام ڈھونڈنا چاہتی ہے، مگر شاہ کے ہرکارے عدل کے ایوان میں گردنیں ناپتے ہیں۔

وہ افسانوں، کہانیوں اور مصرعوں میں خود کو جسم سے پرے دیکھنا چاہتی ہے، مگر ادیب اسے ایک غیر عورتانہ جسارت کہتا ہے۔ کسی اور سے کیا گلہ کرے، خود عورت کے شعور کو بھی وہ سچ سننے پر آمادہ نہیں پاتی۔ یہ سارے حالات اسے رنجیدہ تو کرتے ہیں مگر مایوس نہیں کرتے۔ ارضِ خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست۔ فقیر پہ ایک در بند تو سو در کھلے ہیں!  

وہ قلم کا سہارا لیتی ہے اور مقاماتِ آہ وفغاں ڈھونڈنے نکل جاتی ہے۔ وہ ایک کورے کاغذ پر رک جاتی ہے اور سوچتی ہے کہ عورت مارچ کے لیے اس سے بہتر مقام کیا ہوسکتا ہے۔ کسی بھی قسم کے نقصان سے بچانے کے لیے وہ عورت مارچ کو اپنی تنہائیوں سے ڈھانپ دیتی ہے۔ بند کمرے میں سادے ورق پر قلم رکھتی ہے اور لفظ چیخ پڑتے ہیں۔

حرف اپنی قبائیں کتر کر سینہ کوبی کرتے ہیں۔ کورے کاغذ پر برپا کیے ہوئے اس عورت مارچ میں کبھی وہ اپنا گریبان چاک کرتی ہے تو کبھی یزداں کے دامن سے الجھ جاتی ہے۔ یہ عورت اپنا نام و پتہ دل میں ہی دبا کر گزر جاتی ہے مگر دل کا غبار جن پنوں پر نکالا وہ  چپ چاپ میرٹھ کے ایک چھاپے خانے میں چھوڑ جاتی ہے۔

وقت کی ردیوں میں ایک صدی کا سفر کاٹنے کے بعد یہ اوراق اچھا ہوا کہ ڈاکٹر دھرم ویر کے ہاتھ لگ گئے۔ انہوں نے اسے سیمنتنی اُپدیش کر دیا اور عکس پبلیکیشن نے ذوق کے ماروں کو پیش کر دیا۔   

ہندوستان کی اس گم نام خاتون کو اربابِ ذوق کے حلقے میسر ہیں اور نہ سٹڈی سرکل کی سہولت دستیاب ہے۔ کوئی سیاسی تنظیم نہیں ہے کہ وابستہ ہوجائے، کوئی معلوم فکری تحریک بھی نہیں کہ استفادہ کیا جا سکے۔ سوشل میڈیا بھی نہیں کہ جعلی نام سے خفیہ اکاونٹ بنا کر بھانت بھانت کے دانش وروں کو فالو کر لے۔ سچائی تک رسائی کا سفر اُس کے ذاتی تجربات کا نچوڑ ہے۔

اُس کا ذاتی مشاہدہ اُس کا واحد استاد ہے۔ اُس کی تجزیاتی صلاحیت اُس کی خفیہ مددگار ہے۔ اس کی تنہائی اس کے تحفظ کی ٹوٹل ضمانت ہے۔ اُس کا کاغذ دل محلے کی دیوار ہے جس پر اپنے درد کے نوشتے درج کرتی جاتی ہے۔ پاکستان کے عورت مارچ میں متعارف ہونے والا کون سا پوسٹر ہے جس کا مفہوم تاریخ کی اس معلوم دیوار پر ایک نامعلوم عورت نے درج نہ کر دیا ہو۔

کیا آپ نے گذشتہ مارچ میں صباحت زکریا کا پوسٹر دیکھا تھا؟ پوسٹر کا نوشتہ تھا، طلاق ہوچکی ہے بہت مطمئن ہوں۔ سیمنتنی اُپدیش کی ایک سطر صباحت زکریا کا یہی پوسٹر ہے۔ پڑھیے

مرد کی ہر روز کی مار کھانے سے رانڈ رہنا اچھا ہے

عورت مارچ کے پوسٹروں میں ایک پوسٹر ’اپنا کھانا خود گرم کر لو‘ بھی تھا۔ یہ پوسٹر اُس نوکری و چاکری کے خلاف بغاوت ہے جو شادی کے پرچے میں کسی لازمی سوال کی طرح عورت کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ اسی بغاوت پر 18ویں صدی کی اس گمنام عورت کا تفصیلی بینر بھی ذرا پڑھیے:

’عورت تمام گھر کی خدمتیں کرے تب روٹی کھانے کو ملتی ہے۔ اگر خاوند حقہ پیتا ہو تو تین بجے اٹھ کر حقہ بھرنا ہو گا۔ چاہے کتنی سردی پڑتی ہو تمہیں ضرور اٹھنا ہو گا۔ اگر لالہ صاحب کہیں نوکر ہوں تو نو بجے کھانا تیار کرنا ہو گا۔ وہ کھانا کھا کر دفتر کو جائیں گے یا کسی اور کام کو۔ اب پیچھے اپنا حال بھی سنیے۔ دوچار لڑکے اپنے، دوچار پہلے کے، کوئی روتا ہے کوئی روٹی مانگتا ہے کوئی گند میں لتڑا ہوا پڑا ہے۔ اب تین گھنٹے ان کی خدمت کرو۔‘

اپنا کھانا خود گرم کرلو کے پس منظر میں چھپی کہانی کا جو درد ہے، اسے اُس منظر میں ذرا تصویر ہوتا ہوا دیکھیے جو اٹھارہویں صدی کی اس خاتون نے کھینچ دیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

’خاوند اور بچوں کی خدمت میں ایسے لگے کہ اپنے نہانے کی خبر نہیں۔ اتنے میں ایک بج گیا۔ اب جھٹ پٹ ایک دو لوٹا پانی اوپر ڈالا۔ پاؤں سوکھے ہیں، پیٹھ بھیگی ہی نہیں، آنکھیں صفا ہوئی نہیں۔ جلدی سے اٹھ کر ایک آدھ روٹی بڑے بڑے لقمے کھائے جو مارے جلدی کے حلق میں اٹکتے جاتے ہیں۔ مارے خوف کے کلیجہ دھڑک رہا ہے۔ اگر تین بجے (شوہر کے) آتے کھانا تیار نہ ہوا تو خدا جانے کیا حال کریں۔ کھانا (تیار) ہو رہا ہے، اتنے میں لالہ صاحب آ پہنچے۔ دوچار گالیاں دیں۔ دو ایک لات ماری۔ جھڑک کے بیٹھ گئے۔ بیوی مارے ڈر کے حقہ بھر لائی۔ آپ (شوہر) نے کھانا کھایا، سیر کو نکل گئے۔ اب پھر وہی لڑکوں کی خدمت۔ اب دروازہ کھولے انتظار کرو۔ کب آوے، کب آرام کرے۔ 10 بج گئے ہیں نیند آ رہی ہے مگر ضرور دروازہ کھولے بیٹھی رہو۔ تین بجے تک شوہر تو آئے نہیں، ہمیں جاگنا پڑا۔ اس حالت میں کچھ کہہ دیا تو وہ حالت کردی جو کوتوال کے حکم پر مہتر چور کی کرتا ہے۔ یہ تو ابھی صرف ظاہری سی باتیں ہیں۔‘

عورت مارچ کے ایک پوسٹر پر لکھا تھا کہ شادی کے علاوہ اور بھی بہت کام ہیں۔ یہ پوسٹر اُن اذیتوں سے فرار کا اعلانیہ اعتراف تھا جو پدرسری سماج میں ایک عورت کو شادی جیسے جھانسے میں ملتی ہیں۔ اس پر 18ویں صدی کی عورت کا تفصیلی اشتہار پڑھیے:

’ہندوستانی عورتوں کو توآزادی کسی حالت میں نہیں ہو سکتی۔ باپ، بیٹا، رشتہ دار سبھی حکومت رکھتے ہیں۔ مگر جس قدر خاوند ظلم کرتا ہے کوئی نہیں کرتا۔ اس دنیا میں چاہے بادشاہت کی نعمت ملے مگر آزادی نہ ہو، جہنم کے برابر ہے۔ آزادی میں چاہے تین دن بعد روٹی ملے جنت سے بھی زیادہ آرام ہے۔ جیسے رامائن میں لکشمن نے کہا ہے، غلام آدمی کو خواب میں بھی آرام نہیں مل سکتا۔‘

عورت مارچ کے جس پوسٹر کے سات براعظموں پر ڈنکے پٹے ہیں وہ ’میرا جسم میری مرضی‘ ہے۔ اسے پوسٹر کیا کہیے، عورت مارچ کا اسمِ اعظم ہی کہیے۔ یہ نعرہ مردانہ برتری اور تسلط سے انکار ہے۔ یعنی یہ جسم کسی جرم کے جرمانے میں ادا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی صلے کا اجر بن سکتا ہے۔ یہ غیرت کا کوئی قومی تمغہ ہے اور نہ ہی عزت اور وفا کا کوئی آسکر ایوارڈ ہے۔ 18ویں صدی کے عورت مارچ میں اسی بینر کا بے غبار حاشیہ پڑھیے:

’پھر شادی کرنے سے اپنے اختیارات دوسرے کے اختیار میں دینے پڑتے ہیں۔ جب اپنے جسمی اختیار دوسرے کو دیے تب دنیا میں اپنی کیا چیز باقی رہی؟ اگر اس دنیا میں کچھ خوشی ہے تو انہی کو ہے جو اپنے کو آزاد رکھتے ہیں۔‘

کہنے والے کتنی سہولت سے یہ بات کہہ جاتے ہیں کہ عورت مارچ دراصل ایلیٹ کلاس کا درد سر ہے۔ غریب یا متوسط طبقے کا اس سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ سادہ سی بات حالانکہ یہ ہے کہ خوش حال گھرانے کی خود کفیل لڑکی بغاوت کی قیمت ادا کر سکتی ہے، اس لیے دکھائی بھی دیتی ہے۔ جکڑی ہوئی عورت کا خاموش رہنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ اُس کا احساس مطمئن ہے۔ بات آج بھی وہی ہے جو امیر گھرانے میں بظاہر چپ چاپ رہنے والی ایک نامعلوم عورت نے 18ویں صدی میں لکھ دی تھی۔ اس جملے کو آئینہ بنا کر ذرا سامنے رکھیے

’اگر کوئی کہے کہ صرف غریب گھروں میں یہ حالت ہوتی ہے امیر گھروں میں نہیں ہوتی، تو ہندوستان میں بادشاہ ہیں یا امیر اور غریب ہیں عورتوں کے حق میں سب ایک ہی موافق ہیں۔‘

ڈاکٹر دھرم ویر نے بہت کوشش کی کہ ’سیمپنتنی اُپدیش‘ کی مصنفہ کا نام مل جائے، مگر نہیں ملا۔ ملتا بھی کیسے؟ آج 21ویں صدی کی عورت کو بات کہنے کے لیے اگر اپنی شناخت چھپانی پڑرہی ہے تو 18ویں صدی کی عورت کو گمنامی کے کیسے کیسے دشت چھاننے پڑے ہوں گے۔ ہر عورت قرۃ العین طاہرہ نہیں ہوتی جو ناصر قاچار کے دربار میں جبر کے ہر فرمان کو چیلنج کر کے موت کو گلے لگا لے۔ ہر عورت لینن کی ہمسفر کراپسکایا بھی نہیں ہوتی جو ’عورت‘ نامی کتابچہ لکھ کر زندان گوارا کر لے۔

ہندوستان کی نامعلوم خاتون کی ’سیمنتنی اپدیش‘ کراپسکایا کی ’عورت‘ سے کچھ ہی صفحے بڑی ہے۔ مگر یہ صفحے نہیں ہیں، خونِ دل سے جلائے ہوئے ٹوٹے پھوٹے سے کچھ دیے ہیں۔ جو ایک نقاب پوش عورت نے رات کی خاموشی میں دبے پاؤں کسی آسیب زدہ گلی کی نکڑ پر رکھ دیے ہیں:

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ