ادبی میلے فنڈڈ بھی ہوں تو مسئلہ کیا ہے؟

خوش حال گھرانے میں پیدا ہو جانا کوئی جرم ہے بھلا، غریب گھرانے میں پیدا ہونا بھی کوئی کوالیفیکیشن ہے کیا؟

نئی نسل میں کتاب، ادیب، شاعر اور فن کار سے محبت کی جو ایک لہر دوڑی ہے، اس میں ادبی میلوں ٹھیلوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے(اے ایف پی)

ہمارے ایک دوست کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی ہے کہ فیشن کے مارے لوگ دکھاوے کے لیے ڈرائنگ روم میں کتابیں رکھنے لگے ہیں، پڑھ نہیں رہے۔ اس کی ذمہ داری وہ ادبی میلوں کی چلنے والی حالیہ بہار پر عائد کرتے ہیں۔

ان کا خیال یہ ہے کہ جس منصوبے کے پیچھے فنڈ ہو اور خاص طور سے بیرونی فنڈ ہو اس میں کبھی برکت نہیں پڑتی۔ جس منصوبے کے پیچھے خلوص ہوتا ہے دوام و استحکام بھی اسے حاصل ہوتا ہے۔

ہمارے ڈرائنگ روم کی دیواریں ہماری اجتماعی دانش کا ایکسرے ہیں۔ اس پر ٹنگی ہوئی پینٹنگیں، تصاویر، نایاب نمونے دراصل سامنے کی دیوار کا نوشتہ بھی ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف صاحبِ خانہ کا سی ٹی سکین ہوتا ہے بلکہ قومی شعور کی ایک جائزہ رپورٹ بھی ہوتی ہے۔

شعور کی آنکھ کھولی تو اکثر ڈرائنگ روموں کی دیوار پر میں نے توپ ٹینک طیارے اور تلواریں ہی لٹکی ہوئی دیکھیں۔ بات آگے بڑھی تو پتہ چلا کہ ڈرائنگ روم تک یہ بات دراصل کلاس روم سے پہنچی ہے۔ ہم اگر اپنا نصابِ تعلیم دیکھ لیں، اس میں دو طرح کے ہیرو ملیں گے۔

ایک وہ جن کا تعلق پاکستان سے ہے، دوسرے وہ جن کا تعلق ہماری درخشندہ مسلم تاریخ سے ہے۔ ان ہستیوں کو نصاب میں شامل کرنے کے لیے جس چیز کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ جنگ اور جدل ہے۔ کسی نے فضا میں 10 مارے ہوئے ہیں، کسی نے زمین پر ہزاروں پھڑکائے ہوئے ہیں اور کسی نے دشت تو دشت صحرا تک میں بھی گھوڑے دوڑائے ہوئے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ اس بات پر بھی ہمیں فخر ہے کہ ہمارے پرکھوں نے سومنات کے مندر پر اوپر تلے 17 حملے کیے ہوئے ہیں۔

ہمارے پاس فخر کرنے کے لیے جو ایجادات ہیں خیر سے وہ ساری کی ساری عسکری ہیں۔ جس چیز پر سب سے زیادہ فخر کیا جا سکتا ہے وہ ایٹم بم ہے۔ ایٹم بم دنیا میں کئی ملکوں کے پاس ہے مگر اس پر فخر صرف ہم کرتے ہیں۔ ہمارے پاس تو دنیا کو قومی طاقت کے نمونے کے طور پر دکھانے کے لیے اگر کچھ ہے تو وہ بھی اسلحہ ہی ہے۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ ہمارا ایک قومی شاعر بھی ہے، لیکن نصابی اور غیر نصابی طور پر فروغ دینے کے لیے اِس شاعر کی جس شاعری کا ہم نے انتخاب کیا ہے وہ ساری کی ساری پلٹنے جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے سے عبارت ہے۔ ہر خوشۂ گندم کو جلا دو، در و دیوار ہلا دو جیسے مصرعے تقریر میں نہ ہوں تو یقین مانیے طلبہ کے لیے تقریری مقابلہ جیتنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک شاعری ہی کیا، یہاں تو ادیبوں کی جن کہانیوں اور افسانوں کو قریب قریب صحیفۂ آسمانی کا درجہ حاصل ہے ان کے اکثر کردار بھی منہ میں آگ لیے پھرتے ہیں۔ ہر کردار بلند فشارِ خون کا مریض معلوم ہوتا ہے، جیسے پندرہ مار چکا ہو اور سولہواں ڈھونڈ رہا ہو۔

پاکستان ایک پرامن سیاسی تحریک کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ اب کے برس 14 اگست آئے تو ہمارے کہنے پر ایک بار کسی ٹی وی چینل کی سکرین ضرور دیکھیے گا۔ آپ کو سارا دن توپ ٹینک طیاروں اور اکسانے والے گانوں، نغموں اور ترانوں کے کچھ مل جائے تو جو کلبھوشن یادیو کی سزا وہ ہماری سزا۔ مسلسل ٹی وی سکرین دیکھ کر ناظرین کے لاشعور میں ایک ہی خیال بیٹھتا ہے کہ یہ مملکت ہم نے شاید پانی پت جیسے کسی خون ریز معرکے میں جیتی ہے۔

ایک یہی نہیں، ہمارے ہاں کسی بھی قسم کا تہوار یا قومی دن آجائے، اخبار ریڈیو ٹی وی پر بندوقچیوں کی زقندوں، طیاروں کی قلابازیوں اور ٹینکوں کی دھول اڑاتی تصاویر اور وڈیوز کے علاوہ شاید ہی کچھ دکھائی پڑ جائے۔ اس پوری مہم کا منفی اثر دیکھنا ہو تو آپ کھلونوں کی دکانیں دیکھ لیں اور بچوں کی فرمائشیں سن لیں۔ کھلونوں میں سب سے زیادہ پستولوں اور تلواروں والے کھلونے ہی ان کے من کو بھائیں گے۔

عید جیسے خوش گوار موقعے پر بھی بچے گلی محلوں میں چھرے والی بندوقیں چلاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ موبائل میں جب کیمرے نہیں آئے تھے تب تفریحی مقامات پر فوٹو گرافر نظر آتے تھے۔ فوٹو میں ایکشن پیدا کرنے کے لیے وہ چھرے والی بندوق ہی لیے پھرتا تھا۔ ہر بچے کو سنجےدت اور دھرمیندر والا ایکشن دینا ہوتا تھا۔

ایک زمانے میں ہمارے بچوں کو بڑے ہو کر پائلٹ بننا ہوتا تھا۔ اب چھوٹتے ہی کہہ دیتے ہیں میں تو بڑا ہو کر سپاہی بنوں گا۔ یہ بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو ہم ہو جاتے ہیں۔ پھر ہم میں سے اکثریت موبائل یا کمپیوٹر پر وہی گیم کھیلتی نظر آتی ہے جس میں میگزین بدلتی کوئی بندوق کھوپڑیاں اڑا رہی ہوتی ہے یا کوئی طیارہ اگلے مورچوں پر آتش و آہن برسا رہا ہوتا ہے۔  

شعورِ عام کا جائزہ لینا ہو تو آپ پشاور، لاہور اور کراچی کی مرکزی شاہراہوں کا بھی ایک چکر لگا سکتے ہیں۔ چوک چوراہوں پر دیکھیں کہ وہاں کیا کچھ نصب ہے۔ زیادہ تر آپ کو ایف 16 اور میراج طیارے کے ڈھانچے ملیں گے یا پھر ہیبت ناک ٹینک اور پرانے وقتوں کی دیسی توپیں نظر آئیں گیں۔

ایبٹ آباد کی مرکزی شاہراہ پر ابھی پچھلے دنوں ہی دیکھا کہ سڑک کنارے سنہری رنگ کا ایک بے کیف مجسمہ کھڑا ہے۔ یہ ایک سپاہی کا مجسمہ ہے جو عین راہ گیروں پر بندوق تانے کھڑا ہے۔ پہلا خیال ہی یہ آیا کہ ہماری جمالیاتی حِس ایسے ہیبت ناک مناظر سے تسکین کا کون سا سامان کشید کر سکتی ہے۔ کہیں کسی چوک پر آپ کو علاقائی تہذیب کے نمونے اور ثقافتی علامتیں نظر نہیں آئیں گی۔ ادب، آرٹ، کلچر، سائنس اور دانش کے نقش کہیں نظر آ بھی جائیں تو وہ ہماری دلچسپی کا اظہار کم بیزاری کا اعلانیہ اظہار زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔

جن ڈرائنگ روموں کی دیواروں پر سونے چاندی اور تانبے کی تلواریں نظر آتی تھیں وہاں اگر اب ازراہ ِ فیشن کتابیں نظر آتی ہیں تو اس میں کیا برا ہے۔ گھر میں سارنگی سجانے والے کے لیے لازم تو نہیں کہ وہ سارے گاما بھی جانتا ہو۔ اتنا کیا کم ہے کہ وہ زندگی دینے والے سُر ساگر سے محبت کرتا ہے اور زندگی چھین لینے والے خنجر اور تیر وتبر سے دور رہتا ہے۔

نئی نسل میں کتاب، ادیب، شاعر اور فن کار سے محبت کی جو ایک لہر دوڑی ہے، اس میں ادبی میلوں ٹھیلوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اِس کردار کو اس بنیاد پر مسترد کرنا کہاں کی دانائی ہے کہ یہ فنڈڈ میلے ہیں۔ آخر ہمیں کیوں لگتا ہے کہ فنڈ اور خلوص ایک ہی گھر میں ہنسی خوشی مل بانٹ کے نہیں رہ سکتے؟

مشاہدہ یہ ہے کہ منصوبہ وہی مستحکم ہوتا ہے جس کے پیچھے فنڈ ہوتا ہے اور آگے منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ فنڈ اب کسی ادارے سے لیا جائے یا اس کے لیے کوئی دوسرا کمرشل ذریعہ تراشا جائے، بہر دو صورت مشترکہ مفاد ہی پھلے پھولے گا۔ کتابیں مفت میں دینے دلانے کے منصوبے ماضی میں کئی بار شروع ہوئے۔ مہینے بعد جاکر دیکھا تو منصوبہ سازوں کے اپنے ہی تازیانے ٹھنڈے پڑے تھے۔

کتاب بیچنے والے کو اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم روزی روٹی کے واسطے ہی کتاب فروشی کا دھندا کرتے ہیں۔ انہیں ایک ذمہ دار شہری کی طرح معاشی منصوبے تشکیل دینے چاہییں۔ گذشتہ برس 40 لاکھ روپے کا لین دین ہوا ہے تو اگلے سال کے لیے 50 سے 60 لاکھ روپے کا ہدف رکھنا چاہیے۔ مارکیٹ کو سونگھ کر دیکھے کہ مزید ایسا کیا شائع کیا جاسکتا ہے کہ پیسے دو پیسے ہی مل جائیں، خریدار کیسے بڑھائے جاسکتے ہیں اور مارکیٹ کیسے پھیلائی جا سکتی ہے۔

اس ساری خجل خواری میں جو چیز بکے گی ظاہر ہے وہ کتاب ہی ہو گی۔ یہ تبھی بکے گی جب پبلشر خدائی خدمت گار بننے کی بجائے سچا سوداگر بنے گا۔ دنیا جہاں کے کرکٹر خود کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے والے کرکٹروں کو ملک و قوم کی خدمت کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔

’آپ کیا کر رہے ہیں؟‘

’جی میں ملک کا نام روشن کر رہا ہوں۔‘

ابے بھائی! ملک کو چھوڑ اپنا نام روشن کر لے، ملک کا نام اپنے آپ روشن ہو جائے گا۔ ایسا تو ہونے سے رہا کہ چھکے چوکے تم مارو، وکٹیں تم اکھیڑو اور فائدہ ہندوستان کو پہنچ رہا ہو۔

ترک نوبیل انعام یافتہ ناول نگار اورحان پامک سے لاہور ادبی میلے میں سوال ہوا، ’آپ لوگوں کی اصلاح کے واسطے لکھتے ہیں؟‘

پامک نے کہا، ’میں قطعاً اصلاح کے واسطے نہیں لکھتا۔ میں آرٹسٹ ہوں، میں منظر کو پورے پس منظر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک پینٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر اس سے کوئی اصلاح بھی پکڑلے تو سو بھلا، میرا البتہ ایسا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔‘

اس کے برعکس ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے پیشے کو پیشہ ہی نہیں ماننا۔ کسی بھی طریقے سے اسے کوئی بہت بڑی نیکی ثابت کرنا ہوتا ہے۔ صحافی کا کام خبر دینا ہے، مگر وہ معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے پھرتا ہے۔ سیاست دان کو سرحدوں کی فکر کھا گئی اور سپاہی معاشی بحران کو لے کر بیٹھا ہوا ہے۔ اس نیک خیالی کا نتیجہ یہ کہ ہم نے کسی بھی ایسی سرگرمی کو خیر وبھلا مانتے ہی نہیں ہیں جس میں معقول مالی منافع یا اجرت شامل ہو۔

یہی وجہ ہے کہ ادبی میلوں کو ہم ایسے انداز میں کمرشل سرگرمی کہہ دیتے ہیں جیسے ڈکیتی کی کوئی واردات سنا رہے ہوں۔ ہونے والے تو اس بات کو لے کر بھی پریشان ہو رہے ہوتے ہیں کہ ان میلوں میں ایک ’مخصوص‘ کلاس نظر آتی ہے۔ یہ کلاس وہ اچھے پہناووں میں نظر آنے والی نوجوان نسل کو کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کی اکثریت باوجود خوش حال نظر آنے کے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے ہوتی ہے، لیکن اگر نہیں بھی ہوتی تو پھر کیا؟ خوش حال گھرانے میں پیدا ہو جانا کوئی جرم ہے بھلا، غریب گھرانے میں پیدا ہونا بھی کوئی کوالیفیکیشن ہے کیا؟

ادبی میلوں کی جو ہوا بڑے شہروں میں چلی تھی وہ اب دور افتادہ علاقوں میں جا پہنچی ہے۔ تربت، خضدار، گوادر اور نصیر آباد میں میلے سج رہے ہیں اور کروڑوں کی کتابیں فروخت ہو رہی ہیں۔ ترقی پسند لٹریچر، آرٹ اور کلچر کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ پچھلے پانچ ماہ میں شاید ہی کوئی مہینہ گزرا ہو جس میں دو سے تین میلے نہ سجے ہوں۔

یہ مضمون لکھنے کا سوچ رہا تھا تو لاہور لٹریچر فیسٹیول کا آخری دن تھا۔ اب لکھ رہا ہوں تو کراچی لٹریچر فیسٹیول کا پہلا دن ہے۔ اس بیچ نصیرآباد کا میلہ بھی زوروں پر تھا اور مادری زبانوں کا منفرد میلہ اسلام آباد میں ثقافتی نقش چھوڑ رہا تھا۔ میلوں میں مادری زبانوں کا میلہ اس حساب سے منفرد اضافہ تھا کہ اس نے علاقائی بولیوں کو باہم متعارف ہی نہیں کروایا بلکہ علم و ادب کے تبادلے کے امکان کو بھی بڑھایا ہے۔

اگلے ماہ ’ہیومر اینڈ لافٹر فیسٹیول‘ کی صورت میں ایک اور انوکھا اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ تین دن کے اس میلے میں طنز ومزاح کے عملے مظاہرے تو ہوں گے ہی، کلاسیکی طنز و مزاح پر علمائے ادب و سیاست کے بیچ مکالمہ بھی ہو گا۔ طنز و مزاح اور ہفوات و خرافات کے بیچ کی باریک لکیر ڈھونڈی جائے گی۔ غرضیکہ ایک طرف فروغِ امن کے منفرد آئیڈیاز ہیں کہ پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف نکتہ چینوں کی بے چینی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔

فن و ادب اور مکالمے کے ایسے میلے اور جھوم جھمیلے ’فنڈڈ‘ بھی ہوں تو قاری کا کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً کتاب سے جڑا کوئی فیشن ہی پیدا ہو جائے تو اس میں گھاٹا کیا ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ