منگا میں لاک ڈاؤن کیسے کامیاب رہا؟

پاکستان میں کرونا کے باعث ہلاک ہونے والے پہلے مریض سعادت خان کا تعلق منگا سے تھا۔ ان کی ہلاکت کے بعد تحصیل بھر میں مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا۔ یہ تجربہ کامیاب کیسے ہوا، خصوصی رپورٹ۔

تصویر: مردان پولیس

اٹھارہ مارچ رات نو بجے خبریں آنا شروع ہوگئیں  کہ مردان سے تعلق رکھنے والے 50  سالہ سعادت خان پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں انتقال کر گئے ہیں۔

اس وقت تک پاکستان میں کرونا وائرس سے کوئی بھی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی تھی۔ جب اس ہلاکت کی پورے ملک میں پھیلی تو لوگوں میں خوف بھی پھیلنا شروع ہوگیا کیونکہ 18  مارچ تک ملک میں چند ہی کرونا کے کیسز سامنے آئے تھے لیکن ہلاکت پہلی بار ہوئی تھی۔

سعادت خان کچھ دن پہلے نو مارچ کو عمرے سے واپس آئے تھے اور انھوں نے علاقے میں گاؤں والوں کے لیے حسب روایت دعوت کا بندوبست کیا تھا جس میں اندازے کے مطابق 2000   قریبی لوگ شریک ہوئے تھے۔

مارچ  23  کا دن

مردان میں سعادت خان کی ہلاکت کے بعد 23  مارچ کو ڈپٹی کمشنر عابد وزیر کی طرف سے یہ خبر سامنے آگئی کہ سعادت خان کے بیٹے، داماد اور بیٹی میں بھی کرونا وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے اور ان کے دو قریبی دوستوں  کے سیمپلز جو این آئی ایچ بھجوائے گئے تھے وہ بھی مثبت ہیں۔

وائرس پورے ضلعے میں پھیل جانے کے خدشے کے تحت حکومت نے منگا تحصیل کو  ان کی ہلاکت کے بعد ہی مکمل طور پرسیل  کر دیا۔ لاک ڈاؤن کا سلسہ چلتا رہا اور گاؤں کے لوگ جو سعادت خان سے ملے تھے حکومت نے ان کے ٹیسٹ کرنے شروع کر دیے۔

مارچ 26  کا دن

چھبیس مارچ کو صوبائی مشیر اطلاعات اجمل وزیر کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ تحصیل منگا میں 43  مزید لوگوں کے ٹیسٹ کیے تھے اور ان میں سے 39  افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

یہ ایک بڑی اور تشویش ناک خبر تھی کیونکہ 26  مارچ کو لاک ڈاؤن کا آٹھواں دن چل رہا تھا۔ عوام میں تشویش کی لہر پھیل گئی کہ سعادت خان کی وجہ سے شاید یہ وائرس بہت زیادہ لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔

محکمہ صحت کے نو اپریل کے اعدادو شمار کے مطابق مردان میں576  مشتبہ کرونا مریضوں کی تشاندہی کی گئی جن میں زیادہ تعداد منگا تحصیل والوں کی تھی۔ ان میں سے375  افراد کے ٹیسٹ منفی جب کہ اب تک ضلع مردان میں کرونا کے مصدقہ کیسز کی تعداد 104  ہے۔ یہ صوبے میں پشاور کے بعد دوسرا بڑا ضلع ہے جہاں سب سے زیادہ کرونا کے مصدقہ کیسز ہیں۔

مردان کی منگا تحصیل میں ٹیسٹ ہوتے رہے اور نتیجے آتے رہے جن میں کچھ مثبت اور کچھ منفی آرہے تھے۔منگا مکمل طور لاک ڈاؤن تھا۔ داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس سمیت پاکستان فوج کے جوان بھی تعینات تھے تاکہ کوئی بھی شخص لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہ کرے۔

اپریل 04  کا دن

یہ چار اپریل دن کے پانچ بج کرسولہ منٹ تھے جب صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا 'ایک اچھی خبر ہے۔مردان کے تحصیل منگا میں مختلف علاقوں میں109  افراد کے ٹیسٹ کیے گئے اور سارے کے سارے منفی ہیں۔ منگا میں 14  دنوں سے لاک ڈاؤن ہے۔عوام نے حکومت کا ساتھ دیا تاکہ لاک ڈاؤن برقرار رہے اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔'

اپریل 07 کا دن

سات اپریل کو ڈپٹی کمشنر، کمشنر مردان، ضلعی پولیس آفیسر، صوبائی سیکرٹری ریلیف اور صوبائی حکومت کے متعلقہ اداروں نے میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ تحصیل منگا کا مشرقی علاقہ جزوی طور کھول دیا جائے۔

اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر مردان کے دفتر سے جاری مراسلے میں لکھا گیا تھا کہ چونکہ اسلام آباد این آئی ایچ ٹیم نے منگا کا دورہ کیا ہے اور ٹیسٹ کے نمونے مفنی آئے ہیں تو صوبائی حکومت کے احکامات کی روشنی میں منگا کے کچھ علاقوں کو ڈی سیل کردیا جائے۔

اپریل نو کا دن

سات اپریل کو منگا کے کچھ علاقے ڈی سیل کرنے کے بعد ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا کہ پوری تحصیل ڈی سیل کی جائے لیکن صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح اس علاقے میں جزوی لاک ڈاؤن برقرار رہے۔ نو اپریل کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے ضلعی پولیس آفیسر مردان سجاد خان نے بتایا کہ منگا تحصیل کو عوام کی تحفظ کے لیے لاک ڈاؤن کیا گیا تھا جس کے لیے ضلعی پولیس کی جانب سے 250 سے زائد پولیس افسرو جوان فرنٹ لائن پر دن رات ڈیوٹی سر انجام دیتے رہے۔

سجاد خان نے بتایا 'ان حالات میں ڈیوٹیاں سر انجام دینا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا کیونکہ لاک ڈاؤن کے دوران پولیس کے دو افسران کرونا وائرس کا شکار ہوگئے تھے تاہم پولیس نے ان کٹھن حالات میں لاک ڈاؤن برقرار رکھا اور اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔'

لا ک ڈاؤن کیسے کامیاب رہا؟

مردان کی منگا تحصیل میں اگر کیسز کا تجزیہ کیا جائے تو شروع میں مردان کو خیبر پختونخوا کا ووہان سمجھا جانے لگا تھا کیونکہ پہلے پہلے سب سے زیادہ کیسز مردان سے آنا شروع ہوئے تھے۔

ایسی کیا حکمت عملی ضلعی انتظامیہ نے اپنائی کہ لوگوں کو اس پر قائل کیا  کہ وہ گھروں تک محدود رہیں؟ اس سوال کے جواب میں ڈپٹی کمشنر مردان عابد وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سعادت خان کا کیس ہمار ے لیے ایک مشکل ترین مرحلہ تھا کیونکہ یہ ملک میں پہلی ہلاکت تھی اور اس کے بعد کی صورتحال کو دیکھنا اور علاقے کو مکمل سیل کرنا بھی ایک دشوار کام تھا۔

انھوں نے بتایا کہ اس سے پہلے ہم بیرون ملک سے آنے والے لوگوں کی سکریننگ کیا کرتے تھے لیکن اس کیس کے بعد ہم نے یہ سٹریٹیجی اپنائی کہ منگا تحصیل کو مکمل طور پر سیل کیا جائے۔

عابد کےمطابق 'سب سے پہلے ہم نے ایک 22  رکنی کمیٹی بنائی جس میں ہم نے علاقے کے سوشل ورکرز، مساجد کے علما، سیاسی پارٹیوں کے نمائندے، اور کچھ سبابق بلدیاتی نمائندے شامل کر دیے تاکہ علاقے کے لوگوں کے ساتھ یہی 22  رکنی کمیٹی ہی رابطے میں رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انھوں نے بتایا 'سب سے پہلے ہم نے 56000  سے زائد کی آبادی پر مشتمل تحصیل منگا کے عوام تک خوراک کی سپلائی کا بندوبست کیا۔ ہم نے تاجروں سے بات کی اور  سپلائی کو ایک پوائنٹ سے مینیج کیا۔ ٹرک آکر خوراک سپلائی کرتا اور اس کے بعد ٹرک کو جراشیم کش سپرے سے ڈیس انفیکٹ کردیا جاتا۔ اس سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہم نے ہزاروں افراد کی نارمل زندگی کو نہیں چھیڑا اور انہیں خوراک کی سپلائی بدستور جاری رکھی۔'

اس کے بعد عابد وزیر کے مطابق یہ علاقے کے لوگوں کے لیے ایک نیا مرحلہ تھا کہ ان میں سے کچھ لوگوں کو آئسولیٹ اور کچھ کو قرنطینہ میں رکھا جائے تو یہ کام بھی اسی 22  رکنی کمیٹی کے ذمے تھا کہ وہ عوام کو اس پر قائل کریں اور ہم نے کوشش کی کہ حکومت کی اس سارے مرحلے میں کم سے کم مداخلت ہو۔

انھوں نے بتایا کہ اس مرحلے کے لیے سول ڈیفنس اور علاقے  میں بنی یوتھ ٹاسک فورس نے بہت موثر کردار ادا کیا ہے اور لوگوں کی جانب سے اس طرح کی ایجیٹیشن سامنے نہیں آئی  اور سوشل موبلائزیشن کی وجہ سے عوام نے بہت ساتھ دیا ہے۔

عابد وزیر نے بتایا 'منگا میں پولیو مہم کے دوران بہت انکاری لوگ سامنے آرہے تھے لیکن کرونا وائرس کے معاملے میں ہم نے وہ انکار نہیں دیکھا ۔ عوام کی جانب سے بھرپور مدد ملی ہے۔'

آگے ضلعی انتظامیہ کی کیا سٹریٹیجی ہے کہ یہ وائرس اسی علاقے میں دوبارہ  نہ پھیلے، اس حوالے سے عابد وزیر نے بتایا کہ چیک پوائنٹس علاقے میں اب بھی موجود ہیں اور سکرینگ کے لیے ایک بنیادی صحت مرکز کو مختص کیا گیا ہے جہاں اب بھی سکریننگ کا مرحلہ جاری ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ حکومت کو کیسے پتہ چلا کہ یہ علاقہ اب کلیئر ہے، انھوں نے بتایا کہ ایمپریکل شواہد سے ہمیں پتہ چلا کہ اب وائرس کا پھیلاؤ رک گیا ہے۔

انھوں نے بتایا 'ہم نے اس علاقے کو چار زونز میں تقسیم کیا اور مخلتف لوگوں کے نمونے لے کر لیب بھجوائے، جب وہ سارے ٹیسٹ منفی آگئے تو پھر اتنی بڑی تحصیل کو مزید سیل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔'

انھوں نے بتایا کہ صوبائی  اعداد و شمار میں ضلع مردان میں 104  کیسز دکھائے جا رہے ہیں، اصل میں 96  کے علاوہ باقی کیسز صوبے  کے دیگر شہروں  کے آئسولیشن وارڈز یا ہسپتالوں میں ہیں لیکن ان کا تعلق مردان سے ہے۔

اہل علاقہ کیا کہتے ہیںِ؟

منگا بازار کے رہائشی مدثر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'علاقہ سیل ہونے کے دوران حکومت کی طرف سے راشن کا بندوبست کیا گیا تھا اور کچھ مخیر حضرات سمیت غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے بھی لوگوں کو راشن کی سپلائی ہو رہی تھی۔عمومی طور پر لوگ حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے گھروں تک ہی محدود تھے جبکہ بازار میں صرف ایک دو ضروری اشیا کی دکانیں کھلی تھیں، باقی پورا بازار بند تھا۔

انھوں نے بتایا 'علاقے میں خوف کی فضا ڈی سیل ہونے کے بعد کم ہوگئی ہے۔ ابھی عوام تھوڑا بہت باہر نکل رہے ہیں لیکن بازار وغیرہ دیگراضلاع کی طرح اب بھی بند ہیں۔ جس محلے میں کرونا کے باعث ہلاک ہونے والے سعادت خان کا گھر ہے وہاں جراثیم کش واک تھرو گیٹ بنایا گیا ہے اور رہائشی اندر باہر جانے سے پہلے اسی گیٹ سے گزرتے ہیں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان