منگا لاک ڈاؤن: 'گاؤں بند کیا ہے تو لوگوں کی کفالت بھی حکومت کرے'

مردان کی یونین کونسل منگا میں کرونا وائرس سے ایک شخص کی ہلاکت کے بعد لاک ڈاؤن کے دوسرے ہی روز کچھ علاقہ مکین احتجاج کے لیے گھروں سے باہر نکل آئے، جن کا مطالبہ ہے کہ انہیں مفت راشن فراہم کیا جائے۔

منگا یونین کونسل میں کرونا وائرس کے نتیجے میں سعادت خان نامی شخص کے ہلاک ہونے کے فوراً بعد مردان کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے پورے گاؤں کو لاک ڈاؤن کر رکھا ہے جب کہ متوفی کے اہل خانہ اور ان کے ہمراہ سعودی عرب سے واپس آنے والے دو دوستوں کو بھی عبدالولی خان یونیورسٹی کے قرنطینہ سنٹر میں رکھا گیا ہے۔

تاہم لاک ڈاؤن کے دوسرے ہی روز کچھ علاقہ مکین احتجاج کے لیے گھروں سے باہر نکل آئے، جس کی کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی زیر گردش ہیں۔

اس احتجاج کی بنیادی وجوہات اور علاقے میں لاک ڈاؤن کی موجودہ صورت حال کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ہوئے منگا یونین کونسل کے سابق نائب ناظم کشور خان نے بتایا کہ دراصل احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چونکہ حکومت نے ان کے گاؤں سے باہر جانے پر پابندی لگا دی ہے لہذا اب حکومت ہی ان کے تمام اخراجات اور روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کشور خان نے بتایا: ' یہ لوگ مفت راشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دراصل ہوا یوں تھا کہ ڈپٹی کمشنر نے کل مجھے اور گاؤں کے چند دیگر افراد کو اپنے دفتر بلا کر ہم سے تعاون کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ دکانداروں کو جو سامان درکار ہے، مثال کے طور پر چاول، چینی، آٹا، گوشت، گھی وغیرہ، اس کی ایک فہرست بنا کر دے دی جائے تاکہ انتظامیہ ان سے پیسے لے کر خود ہی مطلوبہ سامان فراہم کردے۔ اس طرح کسی کو گاؤں سے نکلنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہم نے گاؤں جاکر دکانداروں کو مطلع کیا لیکن بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ شاید یہ مفت کا راشن ہے اور ہم پھر بھی ان سے پیسے لے رہے ہیں۔ جس پر بات بگڑ گئی اور کچھ لوگ احتجاج کرنے لگے کہ اگر گاؤں کو آمد ورفت کے لیے لیے بند کر دیا گیا ہے تو ان کی کفالت کا ذمہ بھی حکومت اٹھائے۔'

منگا گاؤں کے لاک ڈاؤن کے حوالے سے پولیس کو کیا مشکلات پیش آرہی ہیں اور تقریباً 25 ہزار کی آبادی پر مشتمل اس گاؤں کے لوگوں کو کنٹرول کرنا پولیس کے لیے کس قدر چیلنجنگ ہے؟ اس حوالے سے مردان کے ڈی پی او سجاد خان نے بتایا کہ 'اس گاؤں میں داخل ہونے کے لیے تین بڑے راستے ہیں جب کہ گلیوں اور کھیتوں سے بھی کچھ چھوٹے راستے نکلتے ہیں۔ ہم نے 120 پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔ سب کچھ کنٹرول میں ہے۔ نہ کسی کو اندر اور نہ ہی باہر جانے دیا جا رہا ہے۔ کل کچھ لوگوں نے احتجاج کیا تھا، لیکن آج سب لوگ پرسکون ہیں۔ اس کے علاوہ دکانوں میں ضرورت کا سامان بھی پہنچا دیا گیا ہے۔'

ڈی پی او سجاد خان کا مزید کہنا تھا کہ کرونا سے ممکنہ طور پر متاثرہ افراد کو عبدالولی خان یونیورسٹی کے قرنطینہ مرکز میں 14 دن کے لیے داخل کر دیا گیا ہے۔

ان کے مطابق گاؤں میں شادی بیاہ کی تقریبات اور اجتماعات سے منع کیا جارہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان