خواتین سیکس انڈسٹری میں کیسے پھنستی ہیں؟

کئی خواتین سوچ سمجھ کر بھی اس انڈسٹری کا حصہ بنتی ہیں لیکن اکثریت حالات کا شکار ہوتی ہیں۔

2

خاموش رہنا آپ کو بچا نہیں پائے گا۔ آپ کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنی آواز دوسروں تک پہنچانی ہے: ریچل لائیڈ

برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ریچل لائیڈ اُس وقت سکول چھوڑنے پر مجبور ہوگئیں جب ان کے نشئی اور مار پیٹ کرنے والے سوتیلے باپ نے ان کی ماں کے سارے پیسے اڑا دیے۔

لڑکپن میں نشے کی لت میں پڑنے والی ریچل کو ایک شخص نے ریپ کا نشانہ بنایا اور جب وہ جرمنی منتقل ہوئیں تو ان کا نشئی بوائے فرینڈ ان سے جسم فروشی کروانے لگا۔

یہ صرف واحد واقعہ نہیں۔ کئی سرویز سے یہ ثابت ہوا ہے کہ سیکس انڈسٹری میں پھنسی 50 سے 90 فیصد خواتین بچپن میں جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہوتی ہیں۔

جسم فروشی کی ایک اور وجہ غربت بھی ہے۔ کئی خواتین سوچ سمجھ کر اس انڈسٹری کا حصہ بھی بنتی ہیں لیکن اکثریت حالات کا شکار ہوتی ہیں۔

ریچل کا آغاز بے شک برا تھا لیکن ان کا انجام اچھا ثابت ہوا۔ سیکس انڈسٹری میں پھنسنے والی ریچل بالآخر اس سے نکلنے میں کامیاب ہوئیں اور اپنی جیسی دوسری خواتین کا سہارا بنیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

44 سالہ ریچل کہتی ہیں، ’جب آپ بچے ہوتے ہیں تو آپ کو اپنی غربت کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن جب آپ دوسرے لوگوں کے گھر جاتے ہیں تبھی آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کتنے غریب ہیں۔‘

پورٹس ماؤتھ میں اپنا بچپن گزانے والی ریچل نے بتایا کہ ان کی ماں نے ایک ایسے شخص سے دوسری شادی کی، جنہیں ریچل اب تک اپنا والد سمجھتی آئی تھیں۔

انہوں نے بتایا، ’وہ میری ماں پر تشدد کرتا تھا اور پھر ایک ایسا وقت آیا جب میری ماں نے شراب نوشی شروع کردی اور نفسیاتی طور پر بیمار ہوگئیں‘۔

 13 سال کی عمر میں ریچل کے والد انہیں قرض میں ڈوبا چھوڑ کر چلے گئے۔

مکان بچانے کی خاطر ریچل کو سکول چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے نوکری کرنے کے لیے اپنی عمر کے بارے میں جھوٹ بولا اور جھوٹ پکڑے جانے کے ڈر سے تین نوکریاں بدلیں۔

ان کا کہنا تھا، ’شرابی والد کے اکثر بچوں کی طرح میں بھی خود کو بڑا ذمہ دار اور پختہ ذہن کا مالک سمجھتی تھی لیکن ایسی سوچ بالخصوص ایک لڑکی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔‘

13 سال کی عمر میں ریپ کے علاوہ متعدد بڑی عمر کے لوگوں نے ریچل کا جنسی استحصال بھی کیا۔

ایسے میں انہوں نے منشیات اور شراب کا سہارا لیا اور متعدد ایسے بوائے فرینڈز بنائے، جو ان پر تشدد کیا کرتے تھے۔ لڑکپن میں ہی کئی مرتبہ خود کشی کی کوششوں میں ریچل تین بار ہسپتال بھی جا پہنچیں۔

ریچل کے مطابق ’اگر میں پیچھے مڑ کر دیکھوں تو میں ایک چلتا پھرتا رِسک تھی‘۔

ان حالات میں ریچل کی ملاقات ایک شراب خانے میں جرمنی سے لوٹنے والی کچھ لڑکیوں سے ہوئی۔

 ان لڑکیوں نے ریچل کو جرمنی میں شاندار زندگی کے قصے کچھ اس طرح سنائے کہ وہ کرسمس کا تحفہ بیچ کر جیب میں 200 پاؤنڈز لیے جرمنی چلی گئیں۔

جرمنی جا کر انہیں سمجھ آئی کہ ان لڑکیوں نے جھوٹ بولا تھا۔ کچھ ہی ہفتوں میں ان کے پیسے ختم ہوگئے اور وہ ایک نوجوان حاملہ خاتون کی دیکھ بھال کی ملازمت کرنے لگیں۔

بیرون ملک خالی جیب ہونے کے بعد 17 سالہ ریچل نے عریاں ڈانس کلب جوائن کرلیا تاکہ برطانیہ واپس جانے کے لیے پیسے جمع کرسکیں۔

انہوں نے بتایا، ’اس فیصلے نے میری زندگی مکمل طور پر بدل دی، میں اس دلدل میں تیزی سے پھنستی چلی گئی‘۔

ابتدا میں ریچل کو عریاں رقص میں مزا آنے لگا  کیونکہ 13 سال کی عمر میں ریپ اور متعدد بار جنسی ہراساں کیے جانے کے بعد انہیں محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ مردوں سے زیادہ مضبوط اور بااختیار ہیں۔

قانونی طور پر صرف عریاں ڈانس کلب ہونے کے باوجود یہاں کام کرنے والی لڑکیوں سے کچھ زیادہ کی امید رکھی جاتی تھی۔ ریچل کو بھی رقص سے آگے بڑھ کر جسم فروشی شروع کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔

’مجھے لگا کہ یہ تھوڑی مدت کے لیے ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور پھر میں اپنی حدود سے تجاوز کرنے لگی۔ ایسے کلب چکا چوند کردیتے ہیں، جب آپ سٹیج پر ہوں تو آپ خود کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں۔‘

اور پھر عراق سے لوٹنے والے ایک سابق امریکی فوجی کو بوائے فرینڈ بنانے کے بعد ہوا میں اڑنے والی ریچل زمین پر آ گریں۔

ریچل کا بوائے فرینڈ بہت زیادہ نشہ کرتا تھا اور اُسی نے ریچل کو بھی اس لت میں مبتلا کر دیا۔ ریچل کے پیسوں پر انحصار کرتے کرتے وہ ریچل کی جسم فروشی بھی کرنے لگا۔

ریچل کا دعویٰ ہے کہ ان کے بوائے فرینڈ نے انہیں متعدد بار قتل کرنے کی بھی کوشش کی اور شدید ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا۔

جب مار پیٹ بہت زیادہ ہونے لگی تو ریچل نے کلب کی دوسری لڑکیوں سے درخواست کی اگر وہ مر جائیں تو ان کی لاش اس پتہ پر بھیجی جائے۔

’مجھے لگنے لگا تھا کہ میں 18 سال کی عمر میں ہی مر جاؤں گی اور مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی۔‘

اس عرصے میں ریچل کے پاس اتنے پیسے اکھٹے ہوگئے تھے کہ وہ برطانیہ واپس جا سکیں۔ برطانیہ اپنے گھر پہنچنے کی دوسری رات جب وہ اپنی دوستوں کے ساتھ ایک کلب میں گئیں تو وہاں ایک لڑکی نے کہا، ’کیا آپ لوگوں نے سنا ہے جرمنی سے یہاں کوئی جسم فروش آئی ہے۔‘

ریچل کو اس پر بڑی شرمندگی ہوئی اور وہ واپس جرمنی چلی گئیں۔

جرمنی میں پولیس نے ریچل کے بوائے فرینڈ کو ڈھونڈنا شروع کیا تو وہ ملک سے فرار ہوگیا، ریچل نے اس کے بھاگ جانے کو موقع غنیمت جانا۔

اس دوران ان کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی جو ایک امریکی فوجی اڈے پر کام کرتی تھیں۔ اس خاتون نے ریچل کو ایک گھر میں آیا کی ملازمت دلوائی۔ تین سال یہاں کام کرنے کے بعد ریچل اس خاندان کے ساتھ امریکا چلی گئیں۔

امریکا میں رہنے کے ایک سال بعد ریچل نے محض ایک لیپ ٹاپ اور30 ڈالرز سے اپنے جیسے لوگوں کی مدد کرنے والی تنظیم کی بنیاد ڈالی۔

آج 20 سالوں بعد ریچل کی تنظیم ’جیمز‘ (Girls  Educational  and  Mentoring  Services) نیویارک میں انسانی سمگلنگ اور جنسی ہراسانی کے خلاف نوجوان خواتین کو شعور دیتی ہے۔

لڑکیوں کی مدد کرنے کے علاوہ ریچل کی بڑی توجہ مروجہ قوانین کی تکنیکی خامیوں پر ہے، جن کی وجہ سے متاثرہ لڑکیاں قانونی پیچیدگیوں میں پھنس جاتی ہیں۔

مثلاً امریکہ میں 18 سال سے کم عمر کوئی لڑکی جسم فروشی کے الزام میں گرفتار ہوجائے تو اسے جیل کی سزا ہو جاتی ہے۔

2008 میں انہوں نے ریاست نیویارک کے قانون سازوں پر نیا قانون پاس کرنے پر زور دیا، جس کے تحت ایسی کم عمر لڑکیوں کو مجرم کے بجائے مظلوم تصور کیا جائے۔

انہوں نے بتایا، ’اس قانون کو پاس کروانے میں چار سال لگ گئے لیکن اس کے پاس ہونے کے بعد نیویارک امریکہ کی پہلی ایسی ریاست بنی جہاں کم عمر بچیوں کو جسم فروشی کے الزام پر قانونی کارروائی سے چھوٹ ملی‘۔

انہوں نے بتایا، ’ہم نے نہ صرف لوگوں کی زندگیاں بدلیں بلکہ نظام میں بڑی تبدیلی لاتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کی راہ بھی نکالی‘۔

تاہم اب بھی کئی مشکلات باقی ہیں۔

لڑکیوں اور خواتین کے استحصال کا مکمل خاتمہ ناممکن کام ہے لیکن جیمز جیسی تنظیمیں سیکس انڈسٹری سے نکلنے والی خواتین کی مدد کی صورت میں زندگیاں بدل رہی ہیں۔

ریچل کہتی ہیں، ’خاموشی آپ کو بچا نہیں سکتی، آپ کو اپنی آواز بلند کرنے کے لیے راستے ڈھونڈتے رہنا چاہییں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین