’ارمان لونی کی ایف آئی آر تو کیا حکومت نے تعزیت تک نہیں کی‘

مبینہ پولیس تشدد میں ہلاک ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن ارمان لونی کی بہن کا کہنا ہے کہ 40 دن گزر جانے کے بعد بھی تاحال ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔

تصویر: وڑانگہ لونی

’ریاست نے ارمان لونی کے قتل پر ان کے خاندان اور بچوں سے اظہار تعزیت تک نہیں کی تو وہ ان کے مبینہ قتل کی ایف آئی آر کیسے درج کرے گی۔‘

یہ کہنا تھا پی ٹی ایم کے سرکردہ رکن ارمان لونی کی بہن وڑانگہ لونی کا جو حکومت سے ارمان لونی کے مبینہ طور پر پولیس تشدد میں ہلاک ہونے کی ایف آر آر درج نہ کرنے کا گلہ کر رہی تھیں۔

ارمان لونی پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم) کے کوئٹہ کور کمیٹی کے رکن تھے جو مبینہ طور پر پولیس کے ہاتھوں تشدد میں ہلاک ہو گئے تھے  لیکن 40 دن گزر جانے کے بعد بھی تاحال ان کی ہلاکت کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی۔

وڑانگہ لونی نے انڈپینڈںٹ کو بتایا کہ بدھ کے روز ارمان لونی کا چہلم منایا گیا لیکن تاحال پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کو عوام کے سامنے نہیں لایا گیا ہے۔

انھوں ںے بتایا کہ عدالت میں انھوں نے دفعہ ۲۲ اے کے تحت درخواست بھی دی کہ ان کی ایف آئی آر درج کی جائے لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

’ارمان لونی پر تشدد کیا گیا ہے جس کو ان کے دوستوں نے بھی دیکھا ہے لیکن حکومت بے بس ہے۔‘

ارمان لونی کی ایف آئی آر کو سینیٹ کی ہیومن رائٹس سٹینڈںگ کمیٹی میں بھی اٹھایا گیا اور اجلاس میں وڑانگہ کو بھی بلایا گیا تھا۔

وڑانگہ نے بتایا کہ اس ملاقات میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جلد ہی ایف آئی آر درج کی جائے گی لیکن سینیٹ جیسے بڑے ادارے کی بھی نہیں سنی گئی۔

’یہ جمہوری ادارے نام کے جمہوری ادارے ہیں۔ نہ ان کے ہاتھ میں طاقت ہے اور نہ اپنی مرضی سے کچھ کر سکتے ہیں۔ اگر اس ملک میں جمہوری حکموت ہوتی تو ہم (پی ٹی ایم) اپنی جدوجہد شروع نہ کرتے۔‘

آیف آر درج کیوں نہیں ہو رہی ہے؟

وڑانگہ کے مطابق حکومتی اہلکار ان کو بتا رہے ہیں کہ پوسٹ مارٹم آنے کے بعد ایف آئی آر درج کی جائے گی لیکن وڑانگہ کو حکومت کی تحقیقات پر یقین نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کو شک ہے کہ ’حکومت پوسٹ مارٹم رپورٹ کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘ 

’ابتدائی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ارمان کے سر میں خون جم گیا تھا لیکن ابھی حتمی رپورٹ کو حکومت سامنے نہیں لا رہی ہے۔‘

ارمان لونی کے مبینہ قتل کے بارے میں بلوچستان حکومت نے ابتدائی موقف دیا تھا کہ ارمان لونی پر کسی قسم کا پولیس تشدد نہیں کیا گیا ہے۔

بدھ کے روز سوشل میڈیا پر بھی ارمان لونی کے چہلم کے موقع پر ہیش ٹیگ LodgeFIRofArmanLoniُ  ٹرینڈ کر رہا تھا جس پر صارفین نے ارمان لونی کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔

ٹوئٹر پر مختلف لوگوں نے مہم بھی شروع کی جس میں صارفین پوسٹر ہاتھ میں لیے دکھائی دیے جس پر ’ہم ارمان لونی کی آیف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں‘ لکھا ہوا تھا۔

’ارمان لونی بھائی سے زیادہ دوست تھے‘

وڑانگہ نے ارمان لونی کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت سادہ اور ایماندار شخص تھے اور اپنی قوم اور مظلوموں کے لیے اٹھے تھے، اسی میں اپنی زندگی قربان کر دی۔

انھوں نے بتایا کہ ارمان ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ان کی زندگی قوم اور مظلوم لوگوں کے لیے ہوگی کیونکہ انہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ارمان صرف ان کے بھائی ہی نہیں تھے بلکہ ایک دوست کی طرح اپنی بہنوں اور گھر کی دیگر خواتین کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے۔ ’کبھی بھی بہنوں کو کسی چیز کی کمی ہونے نہیں دی تھی اور نہ انہوں نے ہم پر کسی قسم کی پابندی لگائی تھی۔‘

وڑانگہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا حکومت نے ارمان لونی کے بچوں کی کوئی مدد کی ہے تو اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’حکومت نے تو پوچھا تک نہیں لیکن عوام کی طرف سے حوصلہ ملا ہے۔‘

’ارمان کو سندھیوں، بلوچوں، پشتونوں اور پنجابیوں نے بھی سپورٹ کیا ہے۔ ارمان پاکستان کے تمام مظلوم لوگوں کا ’ارمان‘ تھا اور اس کی موت نے عوام میں مظلوم لوگوں کے لیے آواز کا جذبہ مزید بڑھایا ہے۔‘

 پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین کے مطابق ارمان نے بہت محنت کر کے اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچایا تھا اور اپنے گھر کو سنبھال رکھا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان