آصف صاحب، میرے دونوں ہاتھ خالی ہیں

وہ دیکھ بھی کہیں دور رہے تھے، ہنگامہ تھا، شور تھا، زندگی تھی، ہل چل تھی، دوست یار تھے، ان کے تو سب قریبی تھے وہاں لیکن وہ مس فٹ لگ رہے تھے۔ اس بار ان کی آنکھوں میں چمک مسلسل نہیں تھی۔ جلتی بجھتی سی تھی۔ تھکن تھی، اداسی تھی۔

(انڈپینڈنٹ اردو)

قبر کی تصویر دیکھی تو یقین آنے لگا کے کہ ہاں شاید وہ مر گئے ہیں۔ اسی ٹائم لائن پہ تھوڑا سا آگے جاتا ہوں تو پھر وہ اسی طرح زندہ نظر آتے ہیں۔ یہ صرف میری کیفیت نہیں ہے۔ ان کے چاہنے والے، ان کے سب دوست، شاگرد، فین، قاری مجھے پتہ نہیں کیوں لگتا ہے کہ شاید وہ بھی اسی حال میں ہوں گے۔

سات آٹھ گھنٹے پہلے ایک گروپ بنایا حبیب یونیورسٹی کے بچوں نے، آصف فرخی کو یاد کرنے کے لیے، اس وقت اس میں ساڑھے چار سو سے اوپر لوگ ہیں اور ان گنت داستانیں۔ آپ جتنے بھی ہر دل عزیز ہوں پانچ سو بندہ ایک گروپ میں اکٹھا کر لینا وہ بھی مرنے کے بعد، یہ آسان کام نہیں ہے۔ تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے۔ 

میں کسی کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کے رونا چاہتا تھا، نہیں رو سکا۔ نیچے بیٹھا تھا، قائد کا فون آیا (عدنان کاکڑ، مدیر ہم سب)، انہوں نے اطلاع دی۔ میرا ری ایکشن نارمل تھا۔ اللہ اکبر۔ انا للہ، بس اس کے بعد سیڑھیاں چڑھ کے اوپر آ گیا۔ مجھے پتہ نہیں کیوں اس لمحے یہ لگا کہ ہاں، یہ بس اب ہونا ہی تھا۔ ان کی لاسٹ ویڈیو میں ان کی آنکھوں کے نیچے حلقے دیکھ لیں، نارمل آنکھیں ایسی ہوتی ہیں کیا؟ عام آدمی اس طرح گھلتا ہے؟ شیو وہ قصدا کر کے بیٹھے ہوں گے کہ وہ ان کے اختیار میں تھا، جو نہیں تھا اسے کیسے چھپاتے؟ وہ ڈپریس تھے، ایسے شدید ڈپریس کہ میں چاہتے ہوئے بھی زیادہ نہیں پوچھ پاتا تھا۔ کہیں وہ کچھ بتاتے ہوئے، بات کرتے ہوئے مزید غم زدہ نہ ہو جائیں۔ 

لاہور لٹریچر فیسٹول پہ دوسرے دن ان کی آمد ہوئی۔ پہلے دن کچھ مسئلہ تھا ٹکٹ یا فلائٹ کا۔ میں پہنچا تو ادھر چوپال میں ہی نظر آ گئے۔ گرین روم کے سامنے والے تخت پہ بیٹھے تھے، اقبال کے مجسمے کی طرف منہ تھا۔ بہت زیادہ کمزور لگے۔ باقاعدہ گھلے ہوئے لگتے تھے۔ پوچھا کتنا عرصہ ہو گیا اسلام آباد گئے، کہا اب تو سال سے اوپر ہو گیا۔ کہنے لگے کہ بیوی بچوں سے کتنے عرصے بعد ملتے ہو، عرض کیا پندرہ، بیس دن بعد چکر لگتا ہے۔ وہاں کیوں نہیں شفٹ کر لیتے؟ سر یہاں بیوی کی نوکری ہے، بیٹی کی پڑھائی ہے، ایک سال ہے بس اس کے اولیول میں، وہ نکل گیا تو پھر کوشش کروں گا۔ تم ٹھیک نہیں کر رہے، فاصلے معنی رکھتے ہیں اور ایک سال بہت طویل عرصہ ہوتا ہے۔ یہ پیسے کمانے کی بہت زیادہ قیمت ہے۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ دھیان کرو اور انہیں پاس بلا لو، جتنا جلد ممکن ہو وہیں بلاؤ، ساتھ رہو۔ یہ چیزیں جس وقت چل رہی ہوتی ہیں تب محسوس نہیں ہوتیں لیکن گھر کا محفوظ رہ جانا سب سے ضروری بات ہے۔ 

میں نے کیا جواب دینا تھا۔ وہ دیکھ بھی کہیں دور رہے تھے، ہنگامہ تھا، شور تھا، زندگی تھی، ہل چل تھی، دوست یار تھے، ان کے تو سب قریبی تھے وہاں لیکن وہ مس فٹ لگ رہے تھے۔ اس بار ان کی آنکھوں میں چمک مسلسل نہیں تھی۔ جلتی بجھتی سی تھی۔ تھکن تھی، اداسی تھی۔ یوں سمجھیں جیسے اچھلتی ہوئی لہریں ہیں سمندر کی اور بیچ میں کوئی چھ فٹ کا مجسمہ ہے جسے بار بار وہ آ کے ٹچ کرتی ہیں، اسے بھگوتی ہیں، پھر واپس چلی جاتی ہیں۔ ان کا ہنگامہ جاری ہے لیکن مجسمہ ادھری کھڑا ہے۔ بھیگتا ہے، جذب کرتا ہے، سوکھتا ہے، پھر وہیں سٹینڈ سٹل۔ ہاں مجسمے کے بدن پر موجود کپڑے دو سائز بڑے دکھائی دیتے تھے، اور یہ پچھلے سال سے شروع ہو چکا تھا۔ لہروں نے شاید اسے بھربھرا کر دیا تھا، وہ جھڑ رہا تھا۔ 

لاک ڈاؤن نہ ہوتا تو شاید وہ کچھ عرصہ مزید تکلیف میں رہتے، جی جاتے۔ پہلے لوگ انہیں ڈھونڈتے تھے، اب انہوں نے خود جان بوجھ کے لوگوں میں گھرے رہنا شروع کر دیا تھا۔ ہم سب لاک ڈاؤن جھیل رہے ہیں لیکن ہم اپنے گھروں میں ہیں۔ آپ اکھے اکیلے ہوں اور بات کرنے کو بندہ نہ ملتا ہو اور کراچی کا لاک ڈاؤن ہو اور آپ سوچوں سے پیچھا نہ چھڑا سکتے ہوں اور آپ کے کھانے پینے کی فکر بھی کرنے والے خود آپ ہی ہوں تو آپ کتنا زندہ رہ سکتے ہیں اور کیوں؟ 

پاکستانی ادیبوں کی رنجشیں بڑی واہیات ہوتی ہیں۔ ابھی وہ وہ بلاگ ان پر میں پڑھ رہا ہوں جن کے لکھنے والوں نے ادبی میلے کے حساب پر اپنی طرف سے یہی کوئی سال پہلے ان کے چیتھڑے ادھیڑ دیے تھے۔ ہر برس جو مدعو نہ ہوتا وہ ایک کالم داغ دیتا تھا یا فیس بک سٹیٹس ٹھونکنا تو فرض تھا۔ دفن ہونے سے پہلے فیس بک اور ویب سائٹس سب ان کے اونچے ادبی قد کا اعتراف کرتی نظر آ رہی ہیں، گویا زندہ رہے جانا ان کا قصور تھا۔ مر گئے تو سب متفق ہیں کہ پاکستان میں نہ صرف ادب بلکہ ادیبوں کی موجودہ قدآوری میں ان کی شخصیت کس مقام پر فائز تھی۔ یہ جو مقدمے بنے ان پر، امینہ سید پر، اور جنہوں نے ان پر آمنا صدقنا کہا، وہ بتائیں کہ کراچی لٹریچر فیسٹول سے پہلے اردو والوں کو اس نوعیت کا ایکسپوژر کبھی ملا بھی تھا؟ شدید بے اوقاتے لوگ ہیں، اتنے کہ میرے پاس مناسب لفظ نہیں ہیں۔ 

وہ ایک جن تھے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ وہ کتابوں کی سمری پڑھ لیتے ہوں گے آن لائن، یا پھر ان کے پاس دس بارہ ملازموں کی ریسرچ ٹیم ہو گی جو انہیں اپ ڈیٹ رکھتی ہو گی دنیا بھر کے ادب سے، حاضر حالات سے، اچھی فلموں سے، نئے سے نئی کتاب سے، اور پھر مسلسل کتاب پہ کتاب لے کے آنا، انگریزی اخباروں میں چھپنا، اردو کی ویب سائٹس پر مستقل کنٹریبیوشن، نوکری بھی چلانا، ترجمے بھی جاری اور سب سے بڑھ کے یہ ادبی میلوں میں بھی مکمل اور فعال شمولیت۔ یہ ایک بندے کے بس میں کیسے ہو سکتا ہے؟ ان کے ساتھ رہ کر مجھے سمجھ آئی کہ انتہائی تیز پڑھنا اور کوئی فارغ وقت نہ ہونا، بس ان دو خوبیوں پر یہ پوری سلطنت کھڑی تھی۔ یک فردی سلطنت۔ دی آصف فرخی! 

مجھے جو لوگ پسند ہیں میں ان کی تصویریں بہت کھینچتا ہوں۔ فرینڈ ریکوئیسٹ بھیجی، انہوں نے قبول کی۔ میسنجر پہ بات ہوئی۔ لاہور آئے ملے، بہت سی تصویریں بنائیں۔ انہوں نے بہت رسان سے بنوا بھی لیں۔ کوئی تکلف، کوئی شرمیلا پن، کوئی بڑے آدمیوں والا تاثر کہ بھئی بس کرو، کچھ بھی نہیں۔ انہیں ان باکس کیں تو ان کا جواب بھی انتہائی خوشگوار اور طویل تھا۔ میں شیر ہو گیا۔ جب بھی ملتے میں کوشش کرتا ایک دو اچھے پورٹریٹ بنا لوں۔ یہ جو مسکراتی ہوئی بدقسمت تصویر ہے، جسے ان کی موت پہ ہر جگہ ٹانگے جانا تھا، یہ اکیس نومبر 2016 کو بنا کر، ایڈٹ کر کے انہیں بھیجی تھی۔ 

قائد کا فون سن کے جب میں اوپر آیا تو میں نارمل تھا۔ وال پہ جاتا ہوں تو ہر جگہ یہی تصویر ہے۔ تب میں نارمل نہیں رہا۔ میں فرنود کے گلے لگ کے رونا چاہتا تھا، ہم ان کی ڈھیلے کپڑوں پہ مذاق کرتے تھے۔ میں احمد تراث کے گلے لگ کے رونا چاہتا تھا، عربی ادب کا وہ عالم جو دیکھنے میں مولوی لگتا ہے، جسے میں فرخی صاحب کے ساتھ ملا، جس سے اب تک بہترین دوستی ہے، جو میرے ساتھ ہر اس دورے میں ان کا منکر نکیر ہوتا تھا جس میں وہ لاہور پائے جاتے تھے۔

محمود الحسن سے گلے مل کے میں رونا چاہتا تھا جس تک میں فرخی صاحب کے ذریعے پہنچا، جو شاید انہی کی سپیڈ سے پڑھتا ہے اور اسی طرح بہت زیادہ پڑھتا ہے لیکن کم، بہت کم لکھتا ہے۔ اوما اوپر کمرے میں کھانا لے کر آئی۔ شکل دیکھی تو پوچھا کیا ہوا ہے۔ بس تب میں بہت سارا رویا۔ اس نے کم ہی دیکھا ہے مجھے روتے ہوئے۔ بیوی کے سامنے کون مرد روتا ہے؟ فرخی صاحب جب رخصت ہوئے اس رات بھی کالے چنے ہی بنے تھے ، وہ میری مسلسل چنا خوری کی بہت تفریح لیتے تھے۔ 

مجھے اسد محمد خان بہت پسند ہیں۔ ایک مضمون لکھا فرخی صاحب نے ڈان میں، اسے میں نے ترجمہ کر دیا اس وقت ایک رسالے کے لیے۔ جب ان کو بھیجا تو انہیں ترجمہ پسند آیا، چھاپنے کی اجازت مل گئی۔ بس وہ دن دوستی کا آغاز تھے۔ فیس بک پہ رابطہ پہلے سے تھا لیکن بات چیت، ملاقات وہ سب اس کے بعد ٹھیک سے ہوئی۔ میں اب سوچ رہا ہوں کہ غیر محسوس طریقے سے کیسے انہوں نے مجھے اردو سے نکال کے انگریزی اور دوسری زبانوں کے لٹریچر کی طرف اچھال دیا۔ جس بندے نے عمر کے اٹھائیس تیس سال اردو پڑھی ہو وہ کیسے خواہ مخواہ کوئی اور فکشن پڑھ لے گا، انہی کی کرامات تھیں۔ اس قدر پازیٹو انرجی تھی اس بندے میں کہ آپ ایک دن ساتھ رہ لیں اور ایک سال تک بلاتکان لکھتے رہیں، پڑھتے رہیں، شرط یہ تھی کہ خود آپ ریسیپٹیو ہوں بس۔ وہی حبیب یونیورسٹی کے گروپ میں ابھی ایک سٹوڈنٹ کا کمنٹ دیکھ رہا تھا، جنہیں اردو آتی ہی نہیں تھی لیکن وہ کہتی ہیں میں جتنا اردو سے نفرت کرنا چاہتی سر آصف کی کوششوں سے مجھے اتنا ہی یہ مضمون اچھا لگنا شروع ہو جاتا۔ انہوں نے اس شاگرد کو امتحان میں گوگل ٹرانسلیٹ تک استعمال کرنے کی اجازت دی کہ وہ کہیں خوف نہ کھا جائیں زبان سے یا بد دل نہ ہو جائیں۔ یہ شفقت یہ وسعت قلبی، یہ آصف فرخی کے بعد اب ڈھونڈے سے بھی ملنی مشکل ہے اے حبیب یونیورسٹی کے بچو۔ تم بھی پرسہ قبول کرو۔

ہاں یاد آ گیا، میں شروع کے دنوں میں ان سے بہت قریب اس لیے بھی ہونا چاہتا تھا کہ میں انتظار صاحب کا عاشق تھا۔ ہر وہ ذریعہ جو مجھے ان کے پاس بیٹھنے میں، ان کی باتیں سننے میں، سنانے میں، بتانے میں مدد کر سکتا، میں اس تک پہنچنا چاہتا تھا۔ سب سے پہلے یہ ہوا تھا۔ باقی وہ سب کچھ بعد میں ہوا جو میں نے پہلے لکھا ہے۔ میں نے کبھی دنیا زاد میں چھپنے کی خواہش نہیں کی، وہ مجھے اپنے مقام سے بہت اونچا لگتا تھا۔ نہ کبھی کسی فیسٹیول میں کوئی میزبانی یا مہمانی کی خواہش ان سے کی، مجھے لگتا تھا کہ جیسے ایک بار اگر ہلکی سی بات بھی ایسی کر لی تو شاید میں خود کو انہیں سیڑھی بنانے پہ کبھی معاف نہیں کروں گا۔ بغیر کچھ کہے انہوں نے اتنی شفقت کی، اتنا کچھ سکھایا، اتنے لوگوں سے تعارف کروایا کہ جسے یاد کر کے اس وقت بھی دعا ہی دے سکتا ہوں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ دل سے چاہتے تھے کہ میری کتاب اب چھپ جائے۔ ایک دو مرتبہ جب سنگ میل گئے تو افضال صاحب سے بھی سفارش کی۔ شدید سستی میری اپنی ہے کہ سنگ میل تو کیا دو مزید پبلشرز سے بھی مذاکرات ہوئے اور جم گئے۔ میں خود ہی بات بڑھا نہ پایا۔ ان کی ہر نئی کتاب پہ خود کو شرم دلاتا تھا، باقاعدہ اپنے آپ کو طعنے دیتا تھا کہ تم ان سے زیادہ کیا مصروف ہو گے جو ایک کتاب تک نہیں چھپوا پاتے لیکن شاید انہیں آئیڈیا تھا کہ جو کرنا ہے ابھی کرنا ہے، کل کس نے دیکھا ہے۔ میں، ان کا نکما شاگرد، دوست، میرا دن شاید اڑتالیس گھنٹے کا بھی ہو جائے تو بھی میں ایک کتاب کمپائل نہ کر سکوں۔ 

ایک بات مجھے اب تک سمجھ نہیں آ سکی کہ اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود وہ ایسے حاضر دماغ کس طرح تھے۔ آپ بات کریں اور وہ اہمیت نہ دیں یہ تو ہو نہیں سکتا۔ وہ اس قدر انوالو ہو کے بات سنتے تھے اور جواب دیتے تھے جیسے لگتا تھا کہ پوری دنیا میں ان کے لیے مجھ سے زیادہ اہم کوئی نہیں ہے۔ خاص طور پہ اب جو ان کی موت کے بعد بلاگز اور تبصرے پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ فیلنگ ہر وہ بندہ رکھتا ہے جس سے انہوں نے ایک بار بات بھی کی ہو۔ میں ممتاز مفتی ہوتا تو انہیں کوئی صوفی کوئی درویش گنوا دیتا، اشفاق احمد ہوتا تو انہیں بابا جی تو بنا ہی دیتا، زاہد ڈار ہوتا تو کوئی روسی ناول کردار ان کے جیسے ڈھونڈ لاتا، انتظار حسین ہوتا تو کوئی ظالم خاکہ ان کا لکھ مارتا لیکن میں بس اختر حسین جعفری کا درخت ہوں جس کے ہاتھ جدائی کے ان موسموں میں بالکل خالی ہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ