کیا ویڈیو گیم بری چیز ہے؟

پاکستان میں بھی گیمنگ کا جنون پایا جاتا ہے اور پاکستان کے گیمرز دنیا بھر میں اپنا سکہ منوانے کے ساتھ ساتھ لاکھوں ڈالر بھی کما چکے ہیں۔

(ٹوئٹر)

پاکستان میں نوجوانوں کا ویڈیو گیمز کھیلنا پسند نہیں کیا جاتا۔ آج سے چند سال پہلے جب کمپیوٹر ہر گھر میں عام نہیں ہوا تھا تو مارکیٹوں میں موجود ویڈیو گیمز کی دکانوں میں موجود نوجوانوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا اور والدین بھی چاہتے تھے کہ ان کا بچہ ان آرکیڈز میں مت جائے۔

والدین کی بچوں کو ویڈیو گیم آرکیڈ میں جانے سے روکنے کی کئی وجوہات تھیں اور ان میں سے بیشتر وجوہات جائز بھی تھیں مگر بدقسمتی سے اس وجہ سے ویڈیو گیمز کے حوالے سے معاشرے میں ایک منفی تاثر پھیل گیا۔

جہاں ماہرین کا یہ کہنا کہ ان گیموں پر گھنٹوں وقت گزارنا ذہنی و جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے وہیں ان گیمز کے حوالے سے ایک دوسرا موقف بھی پایا جاتا ہے۔

اور وہ موقف ہے کہ ویڈیو گیم بری چیز نہیں۔ ویڈیو گیم کے استعمال میں زیادتی بری چیز ہے۔

ویڈیو گیمز کھیلنے سے دماغی نشونما ممکن ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ ویڈیو گیمز پر گھنٹوں بیٹھنے رہنے سے نہ صرف آپ کے دماغ پر اثر پڑتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ آپ کی جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ مگر کسی بھی چیز کے استعمال کی زیادتی نقصان دہ ہے۔ اس میں صرف ویڈیو گیمز ہی نہیں۔ یہی حال سوشل میڈیا کا بھی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے مختلف مستند تحقیقات کے مطابق ویڈیو گیمز کے مناسب استعمال سے دماغی نشونما میں فائدہ ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف ٹورونٹو کی 2008 کی ایک تحقیق کے مطابق ویڈیو گیمز کے فوائد اور ان کی وجوہات تفصیل میں بتائی گئی ہیں۔ تحقیق کے مطابق ویڈیو گیمز میں موجود 3D گرافکس سے آنکھوں اور دماغ کے درمیان حساسیت بڑھتی ہے۔ اس کے علاوہ ویڈیو گیمز میں موجود مختلف صورت حال سے انسان کے جذبات بھی ابھرتے جو کہ صرف منفی نہیں ہوتے۔ شوٹنگ ویڈیو گیمز سے موٹر سکلز میں بھی بہتری آتی ہے۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ چونکہ ویڈیو گیمز میں پیچیدہ صورت حال پیش کی گئی ہوتی ہیں جس سے گیم کھیلنے والے کو نکلنا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ گیمز cognitive training  کے لیے تربیت فراہم کرتی ہیں۔

2018 میں جرمنی کے ریسرچر نے سائیکالوجی آف پاپولر میڈیا کے لیے تحقیق کی جسے بعد میں امریکہ کی امریکی سائیکولوجکل ایسوسی ایشن نے بھی چھاپا۔ اس تحقیق کے مطابق ویڈیو گیمز پر زیادہ وقت گزارنے سے ممکن ہے کہ تعلیمی گریڈز میں کمی آئے مگر وہ کمی پڑھائی پر وقت نہ دینے کی وجہ سے آتی ہے اور گیمز کھیلنے سے انسان کی بنیادی قابلیت کم نہیں ہوتی۔

جرنل آف سائبر تھیراپی اینڈ ریہیبیلی ٹیشن کی 2009 کی ایک تحقیق کے مطابق غیر سنجیدہ ویڈیو گیمز کھیلنے سے ذہنی تناؤ میں کمی ہوتی ہے اور جسمانی صحت بھی بہت ہوتی ہے۔ تحقیق میں گیم کھیلنے والوں کا گیم سے پہلے اور بعد میں ہارٹ ریٹ لیا گیا جس سے ثابت ہوا کہ گیم کھیلنے کہ بعد ہارٹ ریٹ نارمل ہونے کی جانب گیا۔

22 سالہ طلحہ ساہی سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تو کہ وہ خود گیمر ہیں اور ان کی امتحانات میں 90 فیصد تک نمبر آیا کرتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی چیز کی ’ایڈیکشن‘ (لت) غلط ہے۔

اس کے علاوہ ہر گیم کے ساتھ ساتھ اس کے حوالے سے اس ایک ریٹنگ موجود ہوتی ہے جو کہ بتاتی ہے کہ کس عمر کے لوگ اس گیم کو کھیل سکتے ہیں اور اس گیم کا مواد کیسا ہے۔ جس سے والدین نظر رکھ سکتے ہیں کہ کون سی گیم ان کے بچے کے لیے موضوع ہے اور کون سی نہیں۔ کچھ ایسی گیمز بھی ہیں جو کہ لوگ آن لائن کھیلتے ہیں جس میں دنیا کے دیگر کے افراد کے ساتھ آپ بات بھی کر سکتے ہیں۔ ایسی گیموں پر والدین کو کڑی نظر رکھنی چاہیے کہ ان کا بچہ کس کے ساتھ کھیل رہا ہے اور کیا بات چیت ہو رہی ہے۔

ویڈیو گیمنگ انڈسٹری اور ڈالروں کی بھرمار

اب گھروں میں کمپیوٹر، موبائل، پلے سٹیشن، ایکس باکس موجود ہیں جن پر آپ دنیا کی کوئی بھی گیم کھیل سکتے ہیں۔

موجودہ حالات میں جہاں کرونا وبا کے باعث لوگ گھروں میں زیادہ وقت گزار رہے ہیں وہیں ویڈیو گیمز کے استعمال میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ویڈیو گیمز کی مارکیٹ پر ریسرچ کرنے والے ادارے ’نیوزو‘ کے مطابق اس وقت دنیا میں 2.7 ارب لوگ گیمز کھیلتے ہیں اور اس سال اس صنعت میں یہ افراد 159.3 ارب ڈالر خرچ کریں گے۔ سال 2023 تک یہ خرچ 200 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

صرف موبائل فون گیمنگ انڈسٹری اس سال 77.2 ارب ڈالر کا منافع کمائے گی جو کہ 2019 کہ مقابلے میں 13.3 فیصد کا اضافہ ہے۔

یہ اعداد و شمار تو بین الاقوامی ہیں مگر پاکستان میں بھی گیمنگ کا جنون پایا جاتا ہے اور پاکستان کے گیمرز دنیا بھر میں اپنا سکہ منوانے کے ساتھ ساتھ لاکھوں ڈالر بھی کما چکے ہیں۔

حال ہی میں ٹیکن نامی گیمی میں پاکستان ارسلان ’ایش‘ صدیق کو ٹیکن کی دنیا کا بہترین کھلاڑی چنا گیا تھا جس کے باعث معروف بین الاقوامی کمپنیوں نے انہیں سپانسر بھی کیا۔

ارسلان کے علاہ سمیل حسن سید نے اپنی ٹیم کے ہمراہ 2015 میں ’ڈوٹا‘ نامی گیم کی ایشیئن چیمپیئن شپ جس کی مالیت 12 لاکھ ڈالر تھی جیتی تھی۔

گیمنگ چیمپیئن شپ ریکارڈز محفوظ کرنے والی ویب سائٹ ای سپورٹس ارننگز کے مطابق آج تک دنیا بھر کے مختلف گیمرز کم از کم 837 کروڑ جیت چکے ہیں۔ اسی ویب سائٹ کی رینکنگ کے مطابق پاکستان کے سمیل حسن سید دنیا بھر کے کھلاڑیوں میں 36 لاکھ ڈالر جیت کر عالمی فہرست میں 11ویں نمبر پر ہیں۔ اسی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان سے ’ڈوٹا‘ گیم کھیلنے والے یاور حسن آج تک 3 لاکھ 85 ہزار ڈالر جیت چکے ہیں۔

ای سپورٹ ارننگز ویب سائٹ کے ریکارڈ میں کل 146 پاکستانی گیمرز کا ڈیٹا موجود ہے جنہوں نے گیمز کے ذریعے ڈالر کمائے ہیں۔

اور صرف ویڈیو گیمز جیت کر ہی گیمرز پیسا نہیں بناتے۔ ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے ویڈیو کو اپنی کمنٹری کے ساتھ آن لائن سٹریم کر کے بھی گیمرز کروڑوں ڈالر کماتے ہیں۔ ایمازون کو ویڈیو گیمنگ سٹریمنگ سروس ’ٹوئچ‘ اس حوالے سے صف اول کی ویب سائٹ سمجھی جاتی ہے جب کہ یوٹیوب بھی اس حوالے سے اپنی سروسز کو گیمنگ کے لیے بہتر کر رہا ہے اور فیس بک نے حال ہی میں گیمنگ کا سیکشن ویب سائٹ میں ڈالا ہے اور ایک گیمنگ ایپ بھی متعارف کروائی ہے۔

بین الاقوامی کنسلٹنسی فرم ڈیلوائٹ کے مطابق امریکہ میں 30 فیصد صارفین کے پاس گیمنگ سروس کی رکنیت ہے اور 41 فیصد افراد ہفتے میں ایک دفعہ گیم ضرور کھیلتے ہیں۔

پاکستان پی سی گیمرز ویب سائٹ کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر طلحہ احمد ساہی نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ دوسرے ممالک میں گیمنگ کو بطور صنعت لیا جاتا ہے جب کہ پاکستان میں والدین سمجھتے ہیں کہ گیم کھیلنا وقت ضائع کرنا ہے۔

کیا صرف نوجوان ہی ویڈیو گیمز میں مشغول ہیں؟

ویڈیو گیمز کے حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ صرف بچے اور نوجوان ہی ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔ مگر تحقیق کے مطابق اس بات میں صداقت نہیں۔

امریکی ادارے انٹرٹینمنٹ سافٹ ویئر ایسوسی ایشن کے مطابق ویڈیو گیمز کھیلنے والے افراد کی اوسط عمر35 سال ہے جس سے یہ تاثر زائل ہوتا ہے کہ صرف نوجوان ہی ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ امریکہ میں گیمز کھیلنے والوں میں سے 46 فیصد خواتین ہیں۔

انٹرٹینمنٹ سافٹ ویئر ایسوسی ایشن کے مطابق 65 فیصد امریکی بالغ افراد ویڈیو گیمز میں مشغول ہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس ایسوسی ایشن کا مقصد گیمنگ انڈسٹری کو فروغ دینا ہے اس لیے ان کی جانب سے ان اعداد و شمار کو نمک کی چٹکی کے ساتھ لینا چاہیے۔ 2018 میں پیو ریسرچ کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق 43 فیصد امریکی بالغ ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔

پاکستان پی سی گیمرز ویب سائٹ کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر طلحہ احمد ساہی کے مطابق پاکستان میں بیشتر گیم کھیلنے والے افراد نوجوان ہی ہیں مگر آپ کو بڑی عمر والے افراد بھی گیمز کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طلحہ نے اسی حوالے سے واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ’میں ایک دن لاہور میں حفیظ سینٹر میں موجود تھا جو گیمنگ کے لیے مشہور مارکیٹ ہے۔ وہاں ایک 60 سے 65 سال کی عمر کے ایک شخص اپنے بیٹے کے ساتھ گیمنگ مشین خریدنے آئے تو مجھے لگا کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے مشین خرید رہے ہیں تو میں نے انہیں مشورے دیے کہ آپ کون سی مشین لیں۔ ان کے بیٹے نے مجھے جاتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد کا کہنا ہے کہ بیٹا میں نے زندگی میں کام کر لیا ہے اور اب میرا آرام کرنے اور گیم کھیلنے کا وقت ہے جب کہ تمہیں اب کام کرنا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل