جب سینما سستی تفریح ہوا کرتے تھے

فلمیں تو بن رہی ہیں، لیکن ان ’فلمی پنڈتوں‘ سے محروم ہیں جو’سستی تفریح‘ سمجھ کر سینما گھروں کا رخ کرتے تھے۔ آج ’سنے پیلکس‘ میں ہجوم تو ہوتا ہے لیکن وہ تجزیہ کار نہیں ہوتے جو ’فرسٹ ڈے فرسٹ شو‘ سمجھ کر باہر نکلتے ہی، بھرپور تبصروں سے نوازتے تھے۔

فلم ’ٹرمینیٹر 2‘ کے ٹکٹ ملنے کی خوشی میں ہمیں رات کو نیند نہیں آئی (ٹرائی سٹار پکچرز)

یوں تو ہم ’وی سی آر‘ کے طفیل ہالی اور بالی وڈ کی فلموں کو دیکھ دیکھ کر بچپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے لیکن کبھی بھی سینما جا کر وہ بھی بڑے پردے پر اداکاروں کی حشر سامانیاں اور دیدہ دلیری کا نظارہ کرنے سے محروم تھے۔

اس زمانے میں اخبار میں نئی فلموں کے اشتہارات شائع ہوتے، جن میں دل فریب اداکاراؤں کے ہوش ربا ناز و انداز پر سیاہ رنگ پھیر کر نجانے کیوں ہم جیسے نوجوانوں میں اور تجسس بیدار کیا جاتا۔ سکول سے واپسی میں کبھی کبھار کسی بھی سینما گھر میں گھس کر شیشے کے فریم کی قید میں سجی فلمی تصاویر کو دیکھ دیکھ کر حسرت ہی رہتی کہ ان مناظر کا بڑے پردے پر کب دیدار ہو گا۔

شاید ان دنوں کوئی اور دعا مانگتے تو وہ بھی پوری ہوجاتی۔ قسمت ہم پر کچھ اس طرح مہربان ہوئی کہ کزن نے چار ٹکٹیں لا کر ایک دن ہمیں تھما دیں اور خوش خبری دی کہ ’کیپری‘ پر جا کر فلم دیکھ لینا۔ ٹکٹ دیکھے تو وہ فلم ’ٹرمینٹر ٹو‘ کے تھے۔ جی ہاں آرنلڈ شوارزنیگر کی وہی مشہور زمانہ فلم جس میں ہیرو اور ولن دونوں ہی ناقابل تسخیر تھے۔ ٹکٹ ملنے کے بعد تو سمجھیں ہم خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کر رہے تھے۔

اب فیصلہ یہ کرنا تھا کہ ہمارے علاوہ تین اور کون خوش نصیب ہوں گے جو شوارزنیگر کا ایڈونچر اور ایکشن دیکھیں گے۔ اسی لیے ہم نے اپنے سب سے قریبی جگری دوست فرید صفوی کے علاوہ دو اور کا انتخاب کیا۔ ایک رانا مختار تھے، تو دوسرے زبیر۔ تینوں کو خوش خبری سنا دی گئی اور حکم یہ دیا کہ چونکہ سینما میں مہنگی مہنگی چیزیں ملتی ہیں، اسی لیے دونوں دوست کچھ نہ کچھ ساتھ لائیں گے۔

فرید صاحب کو قریبی دوست ہونے کی بنا پر ہر چیز لانے سے ’استثنیٰ‘ حاصل تھا۔ رانا مختار نے چائے جبکہ زبیر نے بن کباب (اس وقت انڈے والا برگر ’ایجاد‘ نہیں ہوا تھا) کی خدمات دینے کا وعدہ کر لیا۔ رہ گئے ہم تو ہم تو انہیں فری فلم دکھا رہے تھے، اسی لیے ساتھ پانی کی بوتل رکھنے کا اعلان کر دیا۔ ایک رات پہلے ہی ہماری آنکھوں سے نیند اڑن چھو ہوگئی تھی۔ خوشی سے نہال تھے۔ سینما نگری کے خیالوں میں گم تھے۔ انہی وہم و گمان میں نجانے کب نیند کی وادی میں بھی چلے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اگلے دن صبح سے ہی تیاری پکڑ لی کہ شام میں سینما جانا ہے۔ گھر والوں سے اجازت متعلقہ کزن پہلے ہی دلوا چکے تھے۔ تجسس اوراشتیاق کا یہ عالم تھا کہ ہم چاروں دوست بس میں لٹکتے ہوئے مقررہ وقت سے آدھا گھنٹے پہلے پہنچ گئے۔ کیپری سینما کے دروازے بند تھے، کیونکہ وہاں پہلے ہی تین سے چھ والا شو چل رہا تھا۔

مرکزی دروازے پر تین چار تگڑے ہمارے بلوچ بھائی بطور محافظ ذمے داری سنبھالے ہوئے تھے۔ جن سے کچھ بولتے ہوئے بھی ان کی جسامت دیکھ کر کپکپی اور گھگھی بندھ جائے۔ یہ ہم اور ہمارے دوست ہی جانتے تھے کہ یہ آدھا گھنٹہ ہم پر کتنی صدیوں بن کر بیتا۔

پھر اسی کرب، بے چینی اور الم کی کیفیت میں آخر کار دروازے کھل ہی گئے۔ اندر سے جو نکلا اس کے انداز دیکھ کر ایسا ہی لگا جیسے وہ خود آرنلڈ شوارزینگر ہوں۔ کوئی ایکشن کی داد دے رہا تھا، تو کوئی ہدایت کاری کی تو کوئی ولن کا دلداہ نکلا۔ یعنی ان سے اچھا کوئی ’فلمی پنڈت‘ ہم نے آج تک نہیں دیکھا۔

کسی طرح ہم بھی اس بڑی بھیڑ میں جگہ بناتے ہوئے اندر پہنچ ہی گئے۔ پتہ چلا کہ ہمارا جو ٹکٹ ہے وہ گیلری کا ہے۔ گیلری کی ’پوزیشن‘ کو اس زمانے میں ’وی آئی پی‘ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ کام کی بات ہمیں بہت بعد میں معلوم ہوئی۔ بلکہ کچھ لوگوں نے تو یہاں تک بتایا کہ یہاں بیٹھ کر فلم بین ایسے پکچر دیکھتے ہیں جیسے کسی زمانے میں رومن ایمپائر بالکونی میں براجمان کر اپنے سامنے ہونے والے دنگل کا نظارہ کرتے تھے۔

ٹکٹ چیکر نے ٹکٹ پھاڑ کر ہمیں سینما گھر کے اندر دھکیلا تو گھپ اندھیرے نے استقبال کیا۔ سامنے دیو قامت پردہ سیمیں تھا جہاں اشتہار چل رہے تھے۔ ہمیں تو کچھ سجھائی اور دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ تبھی ٹارچ بردار نوجوان آ دھمکا جس نے ٹکٹ پر روشنی ماری اور مقررہ جگہ پر کسی جگنو کی طرح اجالا کر کے ہماری رہنمائی کی۔

اندھیرے میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے ہوئے مقررہ نشست پر پہنچے تو ہم اس قدر بدحواس اور بوکھلاہٹ کا شکار تھے کہ نشست پر بیٹھتے ہی برابر والے سے دریافت کیا کہ کتنی دیر میں پکچر شروع ہو جائے گی؟ جواب نہیں آیا اور اس عرصے میں اندھیرے سے آشنائی ہو چکی تھی۔ تو آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ ایک برقع پوش خاتون تھیں جن کے برابر میں یقینی طور پر ان کے شوہر ہی تشریف فرما تھے۔ ان کی جلالی آنکھیں، اس اندھیرے میں بھی ہماری روح کے رونگٹے کھڑے کر گئیں۔ جنہوں نے ’حفظ ماتقدم‘ کے تحت فوراً شریک سفر کو اپنی نشست دی اور خود ہمارے برابر آ کر بیٹھے تو پوری فلم کے دوران ہمیں ولن سے زیادہ ان سے ڈرنا اور سہمنا پڑا۔

 فلم شروع ہوئی تو آرنلڈ شوارزینگر اور ولن رابرٹ پیٹرک کی کشمکش مختلف نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔ تھوڑی دیر میں چائے کی طلب ہونے لگی۔ رانا مختار سے کہا کہ ’چائے پلاؤ۔‘ انہوں نے تھرماس میں سے چائے انڈیلی اور پھر آواز آئی ’لو‘ اور پھر جناب ہماری تو چیخیں ہی نکل گئیں۔ دراصل موصوف سٹیل کی گہری کٹوری ساتھ لائے تھے، جس میں گرما گرم چائے ڈالی اور بدقسمتی سے اسے پکڑنے کے لیے ہینڈل بھی نہیں تھا۔

اب بھاپ مارتی چائے اور سٹیل کی کٹوری جب ہاتھوں کو چھوئی تو لگا جیسے کوئلہ پکڑ لیا ہے۔ غصے میں بولا کہ بھائی یہ کیا؟ کپ ہی لے آتے۔ جواب ملا کہ ہمارے یہاں تو چائے اسی میں پی جاتی ہے۔ اب ہم تھے اور پھونکیں مار مار کر چائے کی کٹوری کو رومال سے پکڑ کر ٹھنڈا کرنے کی جدوجہد۔ ڈر یہ بھی تھا کہ اتنی زور سے پھونکیں نہ ماریں جو پاس بیٹھے خونخوار شوہر پر جا پڑیں۔ دھیرے دھیرے یہ کام کرتے رہے۔ جبھی فلم پر سے بھی توجہ ہٹی جس کا ہمیں بڑا ملال رہا۔

سوا دو گھنٹے کی فلم میں نیکی اور بدی کا داؤ چلتا رہا۔ اس دوران انٹروول بھی آیا۔ جس میں ہم نے زبیر کے ٹھنڈے بن کباب کے ساتھ، رانا کی کھولتی ہوئی چائے پینے کے بجائے سینما گھرسے ’تعویز والی چائے‘ خرید کر پینے کو ترجیح دی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ہم بھی جب سینما گھر سے باہر نکلے تو دوسرے تماشائیوں کی طرح خود کو آرنلڈ شوارزنیگر ہی تصور کررہے تھے اوربعد میں بھی جب ہم کبھی بائیک کی سواری کرتے تو آرنلڈ کے خمار سے نکل نہیں پاتے۔

تسلیم کرنا پڑا کہ سینما گھر میں فلم دیکھنے کا اپنا ہی الگ مزا اور نشہ ہے۔

آنے والے دنوں میں بہت ساری ہالی وڈ اور لالی وڈ فلمیں ’فری فنڈ‘ کے ٹکٹ کے بغیر خود دیکھیں۔ درحقیقت یہ وہ دور تھا جب پاکستانی سینما آباد تھے۔ ہر طرح کی ورائٹی سے بھرپور فلمیں بن رہی تھیں جنہیں ہر ذوق سے تعلق رکھنے والے دیکھتے۔

سلطان راہی، جاوید شیخ، ندیم، شان، غلام محی الدین، بابر علی، معمر رانا، سعود اور یہاں تک کہ معین اختر اور عمر شریف کی فلموں کی نمائش پر ’ہاؤس فل‘ کے بورڈ لگے ہوتے، لیکن پھر دھیرے دھیرے یکسانیت آتی گئی۔ کہانی کہیں غائب ہوگئی، اچھی اور بامقصد موضوعاتی فلمیں نایاب ہو گئیں۔

چار گھوڑے دوڑانے کا طنز کرنے والے ہدایت کار کے عقل کے گھوڑے بھی ہیرو اور ہیروئن کی طرح بے لگام ہونے لگے۔ خواتین ہدایت کاروں نے ہیروئنز کو بارش میں نچوانا اپنی ذمے داری سمجھ لی۔ شان، بابر علی، معمر رانا کے بہلاوے میں فلم بین پھر آ کر نہیں دیے۔ ایک جیسی فلموں کے سیلاب نے سنیما گھروں کو ویران کر دیا اور جب منافع بخش کاروبار نہیں رہا تو ان سینما گھروں کو چلانے والوں نے انہیں دھیرے دھیرے، تجارتی مراکز میں بدلنا شروع کر دیا۔

شہر کا اکلوتا ڈرائیو ان سنیما، جہاں ہمیں بھی ایک با ر فلم دیکھنے کا اعزا ز ملا، وہ تک شاپنگ مرکز میں تبدیل ہو گیا۔ ایم اے جناح کی شاہراہ جو تجارتی اور کاروباری مراکز کے ساتھ ساتھ کسی زمانے میں دائیں اور بائیں ہی نہیں بلکہ اس سے ملحقہ علاقوں میں سینما گھروں کی بھرمار کی وجہ سے مشہور تھی، اب ان میں سے کئی عمارتیں بلند و بالا آسمان سے باتیں کرتے شاپنگ سینٹروں یا مال کا روپ دھار چکے ہیں۔

کبی یہاں سے گزریں تو اب تخلیق کاروں، فنکاروں اور موسیقاروں کی جلترنگ نہیں بلکہ مختلف چیزوں کے بھاؤ تاؤ کی آوازیں کانوں میں پڑتی ہیں۔

پھر کراچی سمیت ملک بھر میں ’سنے پلیکس‘ کے نام سے نئی تفریح کی آمد ہوئی، جہاں لالی اور ہالی وڈ ہی نہیں بالی وڈ کی فلمیں بھی زینت بننے لگیں۔ مگر ان سب کے درمیان روایتی سینما کہیں کھو سا گیا۔

فلمیں تو بن رہی ہیں، لیکن ان ’فلمی پنڈتوں‘ سے محروم ہیں جو’سستی تفریح‘ سمجھ کر سینما گھروں کا رخ کرتے تھے۔ آج ’سنے پیلکس‘ میں ہجوم تو ہوتا ہے لیکن وہ تجزیہ کار نہیں ہوتے جو ’فرسٹ ڈے فرسٹ شو‘ سمجھ کر باہر نکلتے ہی، بھرپور تبصروں سے نوازتے تھے۔ درحقیقت آج فلم بھی ’خاص طبقے‘ کا شوق بن کر رہ گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم