بالی وڈ فلموں پر پابندی کا ایک سال: سینیما ویران

پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کے بعد ایک سال قبل پاکستان میں بالی وڈ فلموں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ایک سال مکمل ہونے پر پاکستانی سینیما کس حال میں ہے؟

بالی وڈ فلموں پر پابندی کے ایک سال بعد اب یہ عالم ہے کہ 2007 میں جس پاکستانی سینیما کے عروج کا خواب دیکھا گیا تھا وہ ایک بار پھر پاتال میں جاگرا ہے۔ (تصویر: سوشل میڈیا)

گذشتہ فروری میں پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان محدود فضائی جھڑپ میں جہاں بھارت نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں کارروائی کی اور پاکستانی فضائیہ نے دو بھارتی جنگی طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا وہیں دونوں ملکوں کے درمیان اس کشیدگی کا ہدف فن و فنکار بھی بنے۔

ٹھیک ایک سال قبل پاکستان نے سرکاری طور پر اپنے سینیما گھروں میں بالی وڈ فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کر دی، جس کے نتیجے میں سینیما گھر یک دم ویران ہو گئے اور پھلتا پھولتا کاروبار متاثر ہوا۔

 جس زمانے میں یہ پابندی عائد ہوئی اُس وقت پاکستانی سینیما گھروں میں بالی وڈ فلم ’گلی بوائے‘ کی نمائش جاری تھی اور عالم یہ تھا کہ 12 دن گزرنےکے باوجود سینیما میں 70 سے 80 فیصد نشستیں پُر ہوجاتی تھیں۔ تاہم پابندی کے بعد سینما گھروں کے مالکان کے پاس مواد ہی نہیں بچا اور سینیما گھروں کو چلانا مشکل تر ہو گیا۔

کاروبار متاثر ہونے کے سبب تقریباً تمام ہی سینیما گھروں نے پہلے ملازمین کی تعداد میں کمی کی، پھر سینیما گھر جزوی طور پر بند ہونا شروع ہوگئے، یعنیٰ جس ملٹی پلیکس میں پانچ سکرینز تھیں وہاں صرف دو یا تین چلانے پر اکتفا ہونے لگا جبکہ دیگر نے اپنے شوز کی تعداد محدود کردی۔

بالی وڈ فلموں پر پابندی کے ایک سال بعد اب یہ عالم ہے کہ 2007 میں جس پاکستانی سینیما کے عروج کا خواب دیکھا گیا تھا وہ ایک بار پھر پاتال میں جاگرا ہے۔

اس ضمن میں پاکستانی فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین امجد رشید نے، جو بالی وڈ فلموں کے سب سے بڑے درآمد کنندہ تھے اور پاکستان کے کئی شہروں میں ان کے سینیما گھر ہیں، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سینیما گھر جانے والوں کی تعداد میں 65 فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے، جتنے نئے سینیما گھر زیر تعمیر تھے ان کی تعمیر رُک چکی ہے اور جو ابھی پلاننگ کے مرحلے میں تھے ان کی جگہ کچھ اور تعمیر کیا جا رہا ہے۔

’کئی سینیما گھر اپنی گنجائش سے کم پر چل رہے ہیں اور متعدد نے کچھ سکرینز ہی بند کردی ہیں۔‘

کراچی کی مشہور سینیما چین نیوپلیکس کے چیف ایگزیکٹیو جمیل بیگ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بالی وڈ فلموں کی غیر موجودگی میں ان کے سینیما گھروں میں لوگوں کی آمد میں پچاسی فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

جمیل بیگ نے وضاحت کی کہ جب کوئی معروف انگریزی فلم آتی ہے تب کچھ بہتری آجاتی ہے ورنہ تو بالی وڈ فلموں کے مقابلے میں 90 فیصد تک کمی بھی دیکھی گئی ہے۔

کراچی اور اسلام آباد کے ایٹریم سینیما کے ندیم مانڈوی والا کے مطابق ان کے سینیما کیونکہ نسبتاً زیادہ عوامی ہیں لیکن وہاں بھی آنے والوں کی تعداد 85 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔

پاکستانی سینیما گھروں کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا کہ پاکستانی فلموں کی کامیابی کی راہ میں بالی وڈ رکاوٹ ہے، صریحاً غلط ثابت وچکا ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس پاکستان کے سینیما گھروں میں ایک بھی لوکل فلم ریلیز نہیں ہوئی جبکہ آخری پاکستانی فلم ’سچ‘ گذشتہ سال دسمبر کے آخری دنوں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

پاکستان میں بالی وڈ فلموں کی تاریخ

 پاکستان میں1965 کی جنگ کے بعد کئی عرصے تک بھارتی فلموں کی درآمد پر پابندی عائد رہی اور ان فلموں کا شمار ممنوعہ اشیا کی فہرست میں ہوتا تھا۔

2007 میں صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ایک پالیسی بنائی تھی، جس کے تحت بالی وُڈ فلموں کو پاکستان میں نمائش کے لیے خصوصی استثنٰی یا این او سی جاری کیا جاتا تھا، یوں ایک بھارتی فلم کی پاکستان درآمد کے بعد اسے سینسر بورڈ سے سرٹیفیکیٹ لینا ہوتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پالیسی کا پاکستان میں سینیما پر کافی مثبت اثر پڑا اور عوام کی بڑی تعداد جو اب تک پائریٹڈ سی ڈیز کے ذریعے بالی وڈ فلمیں دیکھتی تھی، اب باقاعدہ ٹکٹ لےکر قانونی طریقے سے سینیما جانے لگی جس سے اس صنعت کو فروغ ملا اور ملک میں نئے سینیما گھر تعمیر ہونے لگے اور سکرینز کی تعداد دو درجن سے بڑھ کر 170 ہو گئی۔

یوں پاکستانی سینیما کا انحصار بالی وڈ فلموں پر ہوگیا کیونکہ سال بھر میں ایک بالی وڈ فلم کا بزنس کئی پاکستانی فلموں کے مجموعی بزنس سے زیادہ ہوتا تھا۔ 

پلوامہ حملے کے بعد جب بھارت کی حکومت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا تو بھارتی فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی فلمیں پاکستان میں نمائش کے لیے دینے سےانکار کر دیا۔

تاہم پاکستان کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا بلکہ رنویر سنگھ اور عالیہ بھٹ کی فلم ’گلی بوائے‘ تو پاکستان میں پلوامہ حملے والے دن یعنی 14 فروری کو ہی ریلیز کی گئی تھی، لیکن 22 فروری 2019 کو ریلیز ہونے والی ’ ٹوٹل دھمال ‘ اور یکم مارچ کو ’ لکا چھپی ‘ فلم پروڈیوسرز نے پاکستان کو فلم دینے سے ہی انکار کردیا۔

26 فروری کو بھارت کی جانب سے بالاکوٹ میں فضائی حملے کے بعد پاکستانی سینیما گھر مالکان کی تنظیم نے اس وقت کے وزیراطلاعات فواد چوہدری سے بات کر کے بالی وڈ فلموں کےبائیکاٹ کا اعلان کردیا اور سینیما میں لگی ہوئی فلمیں بھی اتار دیں۔

پاکستانی سینیما کی بقا کیسے ممکن ہو؟

موجودہ حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کن اقدامات سے پاکستانی سینیما کو مکمل بندش سے بچایا جائے اور سینیما گھروں کو ایک مرتبہ پھر شاپنگ پلازوں میں تبدیلی سے روکا جائے؟

اس ضمن میں نیوپلیکس سینیما کے جمیل بیگ کچھ تجاویز دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بالی وڈ کے بغیر پاکستانی سینیما کے پاس صرف ایک ہی حل ہے کہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے ایک دوسرے کی مدد کرنا شروع کریں۔

’پاکستان میں سینیما کا سب سے زیادہ کاروبار عید پر ہوتا ہے اور اسی لیے تمام بڑے فلم میکرز اپنی فلمیں عید پر نمائش کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں۔

’فلمی صنعت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ نئے فلم ساز آگے آئیں، نئے اداکاروں کو موقع دیا جائے اور ان کی فلمیں عید پر ریلیز کی جائیں، جب کہ نام ور فلم ساز اور اداکاروں کی فلمیں عام دنوں میں ریلیز کی جائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عید اور بقرعید پر چار، چار فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں اور باقی سارا سال کوئی فلم نہیں ہوتی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ خیال ترک کر دیں کہ کچھ عرصے بعد بالی وڈ فلمیں کھل جائیں گی، بلکہ یہ سوچیں کہ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر اپنی فلمی صنعت کو کیسے کھڑا کیا جا سکتا ہے۔

تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اس وقت انہیں امید نظر نہیں آرہی البتہ وہ ذاتی حیثیت میں سال بھر میں تین سے چار فلمیں بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جن میں نئے اداکاروں اور نئے ہدایت کاروں کو موقع دیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی پہلی فلم ’گھبرانا نہیں ہے‘ پر کام شروع کر چکے ہیں، جس میں زاہد احمد کو پہلی مرتبہ بطور ہیرو اور ثاقب خان کو بطور ہدایت کار متعارف کروایا جا رہا ہے جبکہ صبا قمر اس کی ہیروئین ہوں گی۔

جمیل بیگ نے کہا کہ پاکستان کے بڑے نام ور ہدایت کاروں اور اداکاروں کو چاہیے کہ وہ چار، چار فلمیں بنائیں۔

انہوں نے کہا علی ظفر کی ’طیفا ان ٹربل‘ کسی تہوار پر نہیں آئی تھی مگر پھر بھی 36 کروڑ روپے کما گئی، اگر صرف عید پر فلمیں لگیں گی تو آہستہ آہستہ عید کا بزنس بھی کم ہوجائے گا۔

 دوسری جانب پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین امجد رشید کی قیادت میں ایک وفد نے وفاقی سیکریٹری اطلاعات سے ملاقات میں اپنے خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے کچھ مطالبات پیش کیے ہیں۔

امجد رشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستانی سینیما کی دگرگوں صورتِ حال کے پیشِ نظر انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان پنجابی فلموں کو جو بھارت سے باہر بنائی جاتی ہیں اور ان میں اکثر بھارتی پنجاب کے ساتھ ساتھ پاکستانی پنجاب کے اداکار بھی ہوتے ہیں، فوری طور پر نمائش کی اجازت دی جائے تاکہ سینیما کا جمود کسی حد تک ختم ہو۔

ان کا مزید مطالبہ تھا کہ فلم کو صنعت کا درجہ دے کر ٹیکس میں مراعات دی جائیں اور وزارت تجارت کے تحت ترکی، ایران اور چین کے ساتھ مشترکہ فلم سازی پر بات کی جائے۔

انہوں نے شکایت کی کہ پاکستانی حکومت نے ترک صدر کے دورے کے موقعے کا فائدہ نہیں اٹھایا اور ان سے اس ضمن میں کوئی مشاورت نہیں کی جبکہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے چین کے دورے کے موقعے پر فلم سازوں کو اپنے ساتھ رکھا تھا۔

انہوں نے پاکستانی فلم ’ زندگی تماشہ ‘، جسے تین مرتبہ تینوں سینسر بورڈ سرٹیفیکیٹ جاری کرچکے ہیں،  فوری طور پر ریلیز کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’ہم نے حکومت پر واضع کردیا ہے کہ اگر سینسر بورڈ  سے منظور شدہ فلم کی نمائش کی اجازت نہیں دی جاتی تو پھر فلم کے پروڈیوسر کو اس کا ہرجانہ حکومت ادا کرے۔‘

پروڈیوسر اور اداکار ہمایوں سعید کا کہنا ہے کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ فلم ساز تین، تین اور چار، چار اچھی فلمیں بنائیں تاکہ سینیما چلتا رہے۔ ’میں ذاتی طور پر کسی بھی ملک کی فلم کی نمائش کے خلاف نہیں مگر اس وقت تو پابندی پہلے بھارت کی جانب سے لگائی گئی اور اس سلسلے پاکستان کچھ نہیں کرسکتا سوائے اس کے کہ ہم اپنی صنعت کو فروغ دیں۔‘

پاکستانی فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی پروڈیوسر عمارہ حکمت بھی اس خیال سے متفق ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ وقت پاکستان کی مقامی کہانیوں کو بڑے پردے پر دکھانے کا ہے، جس سے مقامی ثقافت کو بھی فراغ ملے۔

’پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے حکومتِ وقت کو کئی تجاویز دی ہیں جن میں کچھ علاقائی زبانوں کی فلمیں درآمد کرنا بھی شامل ہے۔‘

فلم سازوں کی جانب سے سیینما گھر مالکان سے ٹکٹوں کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے۔ معروف مصنف اسما نبیل نے کہا کہ ’آج نیٹ فلکس اور ایمازون کا زمانہ ہے، اس لیے پاکستانی سنیما کو آگے دیکھنا ہوگا، خاص کر ٹکٹ کی قیمتیں عوام کی قوت خرید کو مدِ نظر رکھ کر متعین کرنا ہوں گی۔‘ پاکستان کے کئی فلم ساز ان کی اس رائے سے متفق ہیں۔

دوسری جانب نیوپلیکس سینما کے سی ای او جمیل بیگ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ملٹی پلیکس سینیما متمول علاقوں میں قائم ہیں جہاں لوگ 700 یا 800 کا ٹکٹ خرید سکتے ہیں اور پھر جو بھی سینیما سے کماتا ہے اس میں سے 50 فیصد تو ڈسٹری بیوٹر اور پروڈیوسر کو دے دیا جاتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا ایک زمانے میں سینیما کے لیے حکومت کی جانب سے زمین مختص کی جاتی تھی جہاں سینیما تعمیر ہوتے تھے اور ایسی زمینیں اب پنجاب میں تو موجود ہیں مگر کراچی میں ان کا وجود نہیں رہا اور وہاں پلازے بن گئے ہیں۔ اب ملٹی پلیکس کمرشل زمین پر بنائے جاتے ہیں اور سرمایہ کاری بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے سستے ٹکٹ ممکن نہیں۔

 اگر موجودہ حالات کو دیکھاجائے تو پاکستانی سیینما کو بچانے کے لیے اگرچہ کچھ نیم دلانہ کوششیں کی جارہی ہیں تاہم کسی مربوط اور واضع حکمتِ عملی کے بنا کسی اچھے نتیجے کی توقع بےمعنیٰ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم