آخری قسط: ٹیرر فنانسنگ، مغوی پاکستان میں تاوان افغانستان میں!

دسمبر 2017 میں پشاور کے ہاسٹل میں خودکش حملہ آور گھس گئے۔ ان کے ڈانڈے کہاں سے ملتے تھے اور اس مہنگے آپریشن کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟

(فائل فوٹو: اے ایف پی)

انڈپینڈنٹ اردو کی اس خصوصی سیریز کی چھٹی اور آخری قسط پیش ہے (پہلی قسط پڑھیےدوسری قسط پڑھیے | تیسری قسط پڑھیے | چوتھی قسط پڑھیے | پانچویں قسط پڑھیے)۔ اس میں سید فخر کاکاخیل نے کسی ماہر جاسوسی ناول نگار کی طرح پشاور میں 2017 میں ہونے والے خودکش حملے کے تانے بانے جوڑے ہیں۔ اس قسط وار کہانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ خودکش حملوں کی منصوبہ بندی کیسے ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر اس میں پولیس کے مثالی کردار کا ذکر ہے جن کے سراغ رسانوں نے اس پیچیدہ کیس کی کڑیاں ملائی ہیں۔ 

تفتیشی افسر اغواکاروں کے چنگل سے نکلنے والے کاروباری شخصیت عبداللہ کے پشاور میں واقع حیات آباد فیز سکس کے مکان میں پہنچا تو ڈھیر سارے سوالات ذہن میں تھے۔ عبداللہ کافی ابتر حالت میں تھے۔ ان کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ وہ دراصل موت کے منہ سے بچ کر نکلے تھے۔ لیکن اس ساری واردات میں اپنے ہی کچھ ساتھیوں کی شمولیت پر کافی برہم بھی تھے۔

عبداللہ نے بتایا کہ وہ اپنے اغوا میں ملوث کئی کرداروں کو جانتے ہیں لیکن کئی ایسے ہیں کہ جن کے نام تک وہ نہیں جانتے۔ جب انہیں پولیس کی ساری کارروائی اور مشتبہ افراد کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ اس کا کاروباری پارٹنر بنگل اس ساری سازش میں مبینہ طور پر شریک تھا کیونکہ اسے عبداللہ کے پاس موجود رقم اور اس کی معمولات کا علم تھا۔ جب تفتیشی افسر نے پوچھا کہ اس کو افغانستان کس طرح سمگل کیا اور پھر واپسی کس طرح ہوئی؟ اس کے جواب میں عبداللہ نے جو کہا وہ سن کر تو تفتیشی افسر کو ہی جھٹکا لگ گیا۔

عبداللہ نے بتایا کہ ایک گھنٹے میں اسے حیات آباد سے دور کہاں تک لے جا سکتے تھے؟ اس نے کہا کہ اسے حیات آباد سے چنار روڈ کے راستے ایف آر پشاور لے جایا گیا اور ان چار ماہ سے زائد کے عرصہ میں ادھر ہی رکھا۔ اس نے بتایا کہ انگلی بھی ادھر ہی کاٹی گئی اور ویڈیو بھی ادھر ایف آر پشاور میں ہی بنائی گئی۔ اس نے کہا کہ گذشتہ ایک ہفتے سے وہ بہت پریشان تھے۔ پیسے ان کو مل چکے تھے لیکن انہیں لگ رہا تھا کہ پولیس کسی بھی وقت ان تک پہنچ سکتی ہے اس لیے انہیں یہ تاکید کی کہ وہ اسے رہا کر رہے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ سب کچھ بھول کر ہمیشہ کے لیے منہ بند رکھیں گے۔ اس کے بعد انہیں بڈھ بیرمیں ٹیلہ بند کے مقام پر گاڑی سے اتار کر چھوڑا گیا۔ عبداللہ نے پانچ ایسے نام دیئے جس کو وہ پہچان چکا تھا اور جو پولیس کے ریڈار پر بھی آ چکے تھے۔

پشاور ہولیس شعبہ انسداد دہشت گردی نے گرفتاریوں کا آغاز کیا تو ان میں ایک نو اکتوبر 2017 کو نادر شاہ گرفتار ہوئے جس نے اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں عبداللہ کو رکھا گیا تھا۔ عبداللہ کو وہاں لے جایا گیا تو اس نے تصدیق کی اور وہاں سے وہ چادر بھی ملی جس پر عبداللہ کی انگلی کاٹتے وقت خون بہا تھا۔ متعدد گرفتاریوں کے دوران وہ چاقو اور اسلحہ بھی ملا جو واردات میں استعمال ہوا تھا۔ یہ تمام شواہد لیبارٹری بجھوائے گئے اوروقوعہ کے سب ثبوت لیبارٹری نے مثبت قرار دیئے۔

اس دوران ملزمان گرفتار ہوتے رہے، عبداللہ شناخت پریڈ میں ان کی شناخت بھی کرتے رہے اور ملزمان بہ مشمول بنگل کے ضمانت پر رہا ہوتے رہے۔ ایک سال بعد یعنی اٹھارہ اگست 2018 کو نواب بھی گرفتار ہوا، اس سے کچھ عرصہ قبل جہانگیر، نوروز، زر محمد اور اشفاق بھی گرفتار ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صرف ایک مسئلہ جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو درپیش رہا وہ قوانین کا تھا۔ چونکہ انسداد دہشت گردی کے حوالہ سے اب بھی کافی حد تک ترامیم اور بہتری کی گنجائیش موجود ہے اس لیے پشاور آرمی پبلک سکول میں حملہ کے بعد فوجی عدالتوں کے ذریعہ مقدمات نمٹانے کی کوشش کی گئی کیونکہ عموماً عسکریت پسندی میں ملوث عناصر قوانین میں موجود سقم کا سہارا لے کر چھوٹ جاتے ہیں

۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے کہ جس پر پارلیمنٹ کو بھر پور قانون سازی کی ضرورت ہے۔

دسمبر 2017 میں ایگریکلچر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پر حملہ کے کرداروں کی اغوا برائے تاوان میں شمولیت، افغانستان میں عسکریت پسندوں کی اغوا برائے تاوان کی ان وارداتوں کی سرپرستی کی یہ کڑیاں جوڑ کر جو تصویر بنی وہ یہ کہ عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کا یہ گٹھ جوڑ انتہائی خوفناک ہے اور یہ کہ کس طرح جرائم پیشہ عناصر کے ذریعہ دہشت گردی کے لیے فنڈز فراہم کئے جاتے رہے ہیں۔

ایگریکلچر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پر تین خودکش حملہ آوروں کا اغوا برائے تاوان کے تین کروڑ روپوں سے کیا رشتہ تھا۔ پاکستان کے حساس اداروں اور پشاور پولیس کا دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان کی کڑیاں ملانے اور نیٹ ورک کو پکڑنے کا یہ کیس دنیا میں ہمارے تفتیشی اداروں کی کارکردگی کی ایک کامیاب مثال سے کم نہیں اور ٹیرر فنانسنگ جس کی روک تھام میں دنیا کے ترقی یافتہ تفتیشی ادارے مشکل سے ہی کسی واقعے کی جڑ تک پہنچ پاتے ہیں۔

ہمارے اداروں کی یہ کامیابی مستقبل میں ایک سبق کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ اسی کامیابی کے بعد اس کیس میں دہشت گردی کی مالی اعانت کی دفعات بھی شامل کر دی گئیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔

(ختم شد)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین