بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا
اترپردیش کے شاعر منیش شکلا نے اس شعر سے اردو زبان کی آٹھ سو سال پرانی خوب صورت تاریخ بیان کر کے اصل میں برصغیر کی اس تہذیب کی عکاسی کی ہے کہ جس میں زبان نہ صرف قوموں کو قریب لاتی اور رشتے بناتی ہے بلکہ روزمرہ کی زندگی گزارنے کا ایک بہترین سلیقہ بھی سکھاتی ہے۔ افسوس کہ اب اس تہذیب کی بیخ کنی جس تیز رفتاری سے جاری ہے اس سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ زبان تو اردو ہی ہوگی مگر نام شاید کچھ اور ہوگا۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک میں جا کر اس وقت بھی اردو ہماری رہبری اور رہنمائی کرتی ہے۔ جہاں کہیں آپ مقامی زبان کو سمجھنے میں دقتیں محسوس کرنے لگتے ہیں وہیں اردو کے الفاظ زبان پر آ کر ہمیں ایک دوسرے کے احساسات اور جذبات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ بھارت میں اس کو ہندی کا لبادہ پہنا کر ایک منظم تحریک شروع کی گئی ہے۔
اردو کا قتل ناحق بالی وڈ کی فلموں کے ذریعے اس وقت شروع کیا گیا جب بیشتر فلموں کا ٹائٹل جو اردو میں بھی دیا جاتا تھا, اچانک غائب کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ بھارت میں بالی وڈ کا دائرہ اثر انتہائی وسیع ہے۔ فلم بینوں نے اس تبدیلی کو خاموشی سے قبول کیا اور خاموش رہے۔
دوسرا حملہ اس وقت ہوا جب ڈرامے اور سیریل بنانے والے درجنوں چینلوں کو شدھ ہندی بولنے، ہندو مذہب کو مشتہر کرنے اور ہندو کتھاییں، رامائن اور مہا بھارت جیسے سیریلز کو دکھانے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ جب یہ ڈرامے نشر ہوا کرتے تھے تو بھارت کی ہر گلی، ہر سڑک اور ہر محلہ سنسان دکھائی دینے لگتا۔
تیسرا وار 24 گھنٹے چلنے والے سینکڑوں نیوز چینلوں سے کروایا گیا جو اصل میں ہندی زبان کو عوام میں مروج کرانے کا سرکار کا ایک مربوط پروگرام ہے۔
اب قوانین کے ذریعے اردو کو ختم کرنے کا ایک نیا سلسلہ چل رہا ہے جس کی شروعات پہلے قومی سطح پر ہندی زبان کو مسلط کرنے اور اب جموں و کشمیر میں، جہاں اردو واحد سرکاری زبان تھی، اردو کے ساتھ مزید چار زبانیں قانونی طور پر سرکاری کام کاج میں شامل رہیں گی۔ اس کے درپردہ اردو زبان کو ختم کرنے کی وہ مہم ہے، جس کا مقصد ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت مسلمانوں سے جڑی تمام علامات کو ختم کرنا ہے۔
بھارت میں خالص ہندی یا اردو بولنے کا چلن کبھی نہیں رہا۔ اسی لیے اس کو ہندوستانی یا گنگا جمنی تہذیب کا گوشوارہ تصور کیا جاتا تھا۔ اب تو ہندوستان بھارت بن گیا ہے، بھارتی سیکولرازم کا پیراہن تار تار ہے اور گنگا جمنی دھارے میں اردو کی لاش پڑی ہوئی ہے۔
الہ آباد کے اسرار گاندھی اردو کے استاد، ناول نگار اور مصنف ہیں۔ وہ بھارتی حکومت کے ساتھ خود مسلمانوں کو اردو کی موت کا ذمےدار ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بڑی حد تک یہ سچ بھی ہے کہ سرکار اردو کی تدریس کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے بلکہ الٹا اس کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ حکومت کو آج کل مذہبی منافرت پھیلانے سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے۔ یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ مسلمان اردو کو بچانے کے لیے خود کیا کر رہے ہیں۔ کیا اسے اپنے بچوں کو اردو پڑھانے میں کوئی دلچسپی ہے؟ اس وقت اردو کی زندگی کا دارومدار صرف وہ مدرسے ہیں جہاں اردو کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ حکومت ہندی زبان کی ترویج اور تدریس کے سلسلے میں سنجیدہ ہے مگر مسلمانوں کا وجود ہی جب متزلزل بن چکا ہے تو زبان کی محرومیت پر کیا روئیں گے۔ البتہ ہندی کو مسلط کرنے کے خلاف جنوبی بھارت میں کافی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔‘
بھارت میں مسلمانوں نے خود بھی اردو کو شاعری کی محفلوں تک محدود رکھا ہے۔ پھر جب برصغیر کے بٹوارے کے بعد اس کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیا گیا تو اس کو بنیاد بنا کر آر ایس ایس والوں نے اردو مخالف مہم کی آبیاری کی۔ بقول صدا انبالوی:
اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے
اب سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے
بھارت میں اردو کو ہندی بنانے کے بعد ہندوتوا کا نشانہ کشمیر رہا ہے۔ یہاں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے 1889 میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا تھا لیکن گذشتہ برس جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد جہاں اس کے مسلم کردار پر پے در پے حملے کیے جا رہے ہیں وہیں حال ہی میں ایک حکم نامے کے تحت اردو کے ساتھ ہندی، انگریزی، کشمیری اور ڈوگری کو سرکاری زبان میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کا شاید مقصد پس پردہ یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشمریوں کا زبانی رابطہ بھی ختم کر کے تحریک آزادی کو ختم کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشمیر کے ایک سرکاری افسر کے مطابق ’چونکہ کشمیر میں انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر بھارتی ہندو افسر تعینات ہیں، تو ظاہر ہے کہ وہ ہندی کو ترجیح دیں گے، اس طرح اردو خودبخود ختم ہوسکتی ہے۔ کشمیری اور ڈوگری زبانیں بول چال کی زبانوں تک محدود رہی ہیں اور ان کے بارے میں سرکاری ترسیل کا محض خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔‘
کشمیر کے معروف مصنف ڈاکٹر ریاض توحیدی کا خیال ہے کہ ’اردو کا سرکاری زبان کا درجہ ختم کرنے سے کشمیر کی مقامی زبانوں کے ارتقا میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ اسے کشمیر میں اردو زبان کے تہذیبی، سماجی اور ادبی کردار و اہمیت کو ختم کرنے کا منصوبہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اردو زبان جموں وکشمیر اور لداخ کے درمیان رابطے کا ایک اہم وسیلہ ہونے کے ساتھ تینوں خطوں میں بولی اور پڑھی جانے والی سب سے بڑی زبان ہے۔ سرکار کے غیردانش مندانہ فیصلے سے سرکاری سطح پر اردو کے فروغ میں اڑچنیں (مشکلات) تو پیدا ہوں گی تاہم عوامی سطح پر یہ زبان ارتقا کی منزلیں طے کرتی رہے گی۔‘
سوال یہ بھی ہے کہ اردو جس ملک کی سرکاری زبان ہے کیا وہاں اس کی ترویج ہو رہی ہے یا یہ بھی ایک مفروضہ ہے۔
میں نے گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی، سیالکوٹ کے شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر افضال بٹ سے اس پر بات کی جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں قومی زبان کو بچانے اور پڑھانے پر توجہ تو دی جا رہی ہے البتہ یہ زبان نچلے طبقے تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے بقول: ’پاکستان میں 1973 کے آئین کے تحت اردو کو دفتری زبان بنانے کے ساتھ ساتھ 8 ستمبر 2015 کو عدالت عظمیٰ کی طرف سے فیصلے پر بھی ہمارے حکومتی ادارے (مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادیبات وغیرہ) اور جامعات میں عمل درآمد کروانے کے لیے موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔‘
’گو کہ یہ ہماری قومی زبان ہے اور اس کی ترویج و ترقی کے لیے کافی کوششیں درکار ہیں مگر ہمارا ایک مخصوص طبقہ اردو کی بجائے انگریزی کو ترجیح دیتا ہے جس کے لیے نجی تعلیمی ادارے بھی کسی حد تک ذمےدار ہیں۔ انگریزی زبان بولنے یا لکھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ عالمی پس منظر میں اس زبان کی تدریس اہم بن گئی ہے لیکن قومی زبان کو نظرانداز کر کے نہ تو انگریز بننے کی کوشش لازمی ہے اور نہ اپنی قومی زبان سے وفا کرنے کا تقاضا پورا ہوتا ہے۔‘
اس بات کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ کروڑوں بولنے والوں کی زبان کو ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ صرف جموں و کشمیر کے عوام کی ترسیلی زبان نہیں جن پر حکومت نے تالے چڑھائے ہیں بلکہ بھارت کے 22 کروڑ مسلمانوں اور ایک آزاد مملکت پاکستان کی قومی زبان ہے لہذا ہندووتوا کا ہر ایجنڈا، ضروری نہیں کامیاب ہوسکتا ہے۔