ایوارڈ جیتنے والی ’پنکی میم صاب‘ پاکستانیوں کے دل نہ جیت سکی

فلمساز شازیہ علی خان کی ہدایات میں بننے والی اس فلم کا شمار اُن پاکستانی فلموں میں ہوتا ہے جو عام ناظرین کے لیے نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقہ اشرافیہ کے لیے بنائی جاتی ہیں۔

فلم  میں ہاجرہ یامین اور کرن ملک نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔فوٹو: بشکریہ آئی ایم ڈی بی

’کچھ چیزیں دور سے بہت اچھی لگتی ہیں پر پاس جاؤ تو وہ بات نہیں رہتی ہے۔‘ یہ پاکستانی فلم ’پنکی میم صاب‘ کا وہ ڈائیلاگ ہے جو فلم کے آخر میں پنکی اپنی میم صاب کو لکھے گئے خط میں تحریر کرتی ہے۔

یہ فلم دیکھنے کے بعد آپ کو کچھ ایسا ہی محسوس ہوگا کیوں کہ اس کا شمار بھی اُن پاکستانی فلموں میں ہوتا ہے جو عام ناظرین کے لیے نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقہ اشرافیہ کے لیے بنائی جاتی ہیں۔

دبئی میں مقیم پاکستانی فلمساز شازیہ علی خان کی ہدایت میں بننے والی فلم ’پنکی میم صاب‘ کو یوکے ایشین فلم فیسٹیول میں بہترین ایشین فلم 2019 کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ گزشتہ سال عاصم عباسی کی ہدایات میں بننے والی فلم ’کیک‘ کو بھی دیا گیا تھا جسے بین الاقوامی سطح پر کافی پذیرائی تو ملی تھی لیکن ہر طبقے کے پاکستانی ناظرین کو محظوظ کرنے میں یہ فلم بھی کافی حد تک ناکام رہی تھی۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پاکستان میں بننے والی فیچر فلمیں بین الاقوامی سطح پر تو کامیابی سمیٹ لیتی ہیں لیکن دیسی سوچ رکھنے والے عام پاکستانیوں کو پسند نہیں آتیں؟ 

اس بات کا اندازہ فلم ’پنکی میم صاب‘ کی کچھ خامیوں سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ فلم کی ہدایتکاری اور سکرپٹ رائٹنگ شازیہ علی خان نے کی ہے، جنہوں نے فلم کی پروموشن پر بالکل بھی پیسے خرچ نہیں کیے، اس لیے فلم ریلیز ہونے کے باوجود بھی وہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکی جس کی ضروت تھی اور نہ ہی پاکستانی باکس آفس پر زیادہ کاروبار کرسکی۔

فلم کی کہانی پنجاب کی ایک سیدھی سادھی لڑکی پنکی کے گرد گھومتی ہے جو اپنے گھر والوں کی کفالت کے لیے ایک رشتہ دار کی سفارش پر دبئی میں مقیم ایک امیر پاکستانی جوڑے کے گھر میں بطور نوکرانی ملازمت شروع کرتی ہے۔ گھر میں دو اور ملازم پہلے سے موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی پنکی کو ہمیشہ غیر ضروری توجہ ملتی ہے۔ یہاں تک کہ پنکی کی میم صاب جو فلم میں بظاہر تو گھر کے کسی کام یا فرد میں دلچسپی لیتی نظر نہیں آتیں مگر پنکی کو ماڈرن گرل بنانے میں بھرپور دلچسپی ظاہر کرتی ہیں اور بعد میں خود ہی اس کی کردار کشی بھی کردیتی ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ فلم کے ایک سین میں گھر کے مالک جو ایک انتہائی امیر انویسمنٹ بینکر ہیں، پنکی کے کندھے پر سر رکھ کر خوب آنسو بہاتے ہیں اور اپنے شادی کے مسائل بھی اس سے شئیر کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا یہ کسی فلم کا سکرپٹ ہے یا کسی پاکستانی ڈرامے کا؟ یا پھر فلم دراصل فکشن تھی اور لیبر کلاس کو پیش آنے والے اصل مسائل کا ذکر پلاٹ کا حصہ نہیں تھا؟

فلم کے دو مرکزی کردار ہیں، جن میں سے پنکی کا کردار ادا کرنے والی ہاجرہ یامین کی اداکاری آپ کو ضرور پسند آئے گی لیکن ہدایتکار شازیہ علی خان نے دوسرے کرداروں پر اتنی توجہ نہیں دی۔ دوسرا مرکزی کردار پنکی کی میم صاب یعنی کرن ملک کا ہے جو ایک خود پرست شوقیہ ناول نگار ہیں، پنکی کو ماڈرن بنانے کے لیے خوب محنت بھی کرتی ہیں لیکن ولن کا کردار بھی ان کا ہی ہے، لیکن پوری فلم میں یہ سمجھ نہیں آتا کہ کرن شوہر اور باپ کی توجہ نہ ملنے والی بیچاری خاتون ہیں یا فلم کی ولن۔

اصل میں دونوں خواتین کی دوستی اور ایک دوسرے کی سپورٹ کے ذریعے ہدایتکار شازیہ علی فلم میں خواتین کو بااختیار بنانے (Women Empowerment) کا عنصر شامل کرنا چاہتی تھیں لیکن پلاٹ میں گہرائی نہ ہونے کی وجہ سے فلم یہ پیغام دینے میں کامیاب نہ ہوسکی۔

کرن کے شوہر کا کردار عدنان جعفر نے ادا کیا ہے جو پوری فلم میں صرف گھرآتے، گھر سے جاتے، سیڑھیاں چڑھتے اترتے، شراب نوشی کرتے یا اخبار پڑھتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کردار بھی کبھی بیوی پر ہاتھ اٹھانے والے ظالم شوہر کا بن جاتا ہے تو کبھی ملازمہ پنکی کے کندھے پر سر رکھ کر رونے والے ایک بیچارے مرد کا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ پوری فلم دیکھ لینے کے باوجود بھی آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ عدنان جعفر کا فلم میں اصل کردار کیا تھا؟

ہدایتکار شازیہ علی خان نے یقیناً ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی لیکن ایک بھی تیر صحیح نشانے پر نہیں لگا۔ پوری فلم میں کبھی ایسا لگتا ہے کہ فلم ویمن ایمپاورمنٹ کے بارے میں ہے تو کبھی لگتا ہے کی یہ دبئی میں رہنے والے پاکستانیوں کے مسائل پر مبنی ہے، کبھی تاثر ملتا ہے کہ فلم کا مقصد خود شناسی اور ذاتی نکھار ہے۔ فلم میں کہانی کس سمت میں جارہی ہے یہ بتانا مشکل ہے۔ شاید فلمساز نے یہ سوچ کر فلم بنائی ہے کہ جس کو جو سمجھ آئے وہ فلم کے پلاٹ کو اسی چیز کا نام دے دے۔ بدقسمتی سے فلم کی کمزور کہانی اور کمزور کلائمکس کی وجہ سے اس کی مرکزی کردار پنکی فلم کے اختتام پر ناظرین پر یاد رہ جانے والا تاثر چھوڑنے میں ناکام رہی۔

فلم پنکی میم صاب کو ایشین فلم فیسٹیول میں بہترین ایشین فلم کا ایوارڈ ملنے کی یقیناً کچھ وجوہات ہیں اور یہ پاکستان کے لیے باعث فخر بھی ہے لیکن جب تک ایسی فلمیں خصوصاً عام پاکستانی عوام کے لیے اور مضبوط پلاٹ پر نہیں بنائی جائیں گی تب تک پاکستانی عوام کے دل جیتنا مشکل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم