داعش سربراہ نے امریکہ سے مل کر ساتھی جنگجوؤں کو دھوکہ دیا؟

داعش کے موجودہ سربراہ نے 68 جنگجوؤں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

عبدالرحمن المولا کے مطابق دشمن کے لیے درجنوں جنگجووں کو دھوکا دیا ( ٹوئٹر)

’تفتیش کاروں نے مجھے چھ صفحات دکھائے جو 20 تصاویر پر مشتمل تھے، میں نے انہیں ضروری معلومات فراہم کیں۔‘

یہ بے ہنگم جملہ 2008 میں امریکہ کی ایک ایسے شخص سے پوچھ گچھ کے دوران گفتگو کا حصہ ہے جو اب عالمی دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ یا داعش کا سربراہ ہے۔

یہ اعترافی بیان اہم بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کیسے انہوں نے ایک بار اپنے درجنوں ساتھی جنگجوؤں کو دشمن کے ساتھ مل کر دھوکہ دیا تھا۔

تفتیش سے متعلق یہ معلومات، جو کبھی خفیہ دستاویز کی صورت میں موجود تھیں، اب نیویارک کے ویسٹ پوائنٹ میں واقع امریکی فوجی اکیڈمی کے ’کمبیٹنگ ٹریرازم سینٹر‘ نے جاری کی ہیں۔

اس دستاویز میں القاعدہ کے مشتبہ ارکان کی تصاویر موجود ہیں اور سید عبد الرحمن المولا کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی بدولت اس شدت پسند گروپ میں ان کے کردار، ان کے ساتھیوں اور ان کے خاندان کے افراد تک کے حوالے سے وسیع پیمانے پر مواد موجود ہے۔

المولا کے ایک اور سیگمنٹ میں کہا گیا ہے کہ ’داعش کے لیے کام کرنے کے دوران مجھے اس گروپ کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل تھیں جن میں پھانسی، قتل، اغوا، تاوان اور دیگر ضروری چیزیں شامل تھیں۔‘

اس کے علاوہ تفصیل میں موصل میں تنظیم کے تنظیمی ڈھانچے، ارکان کے نام اور ان کے رینک تک درج تھے۔ چارٹ میں درج یہ معلومات بہت کارآمد ثابت ہوئی۔

المولا سے پوچھ گچھ  2008 میں برطانوی زیر انتظام جنوبی عراق میں امریکی جیل ’کیمپ بُکا‘ میں ہوئی تھی۔

المولا نے 68 اسلام پسند جنگجوؤں کے بارے میں معلومات فراہم کیں، وہ معلومات جن کی بنیاد پر مغربی افواج نے سلسلہ وار آپریشن کیے۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں مشتبہ افراد کی گرفتاری اور ہلاکتیں ہوئیں جن میں اس وقت گروپ کے نائب سربراہ مراکشی شہری ابو جاسم ابو قصورہ بھی شامل تھے۔

اس کے بعد المولا کا جہادی تنظیم میں عروج جاری رہا اور یہاں تک کہ وہ پچھلے سال امریکی سپیشل فورسز کی ایک کارروائی میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کے بعد ان کے جانشین بن گئے۔

داعش نے اپنے نئےسربراہ المولا کو الہاشمی القریشی کا نام دیا ہے جب کہ واشنگٹن نے اب ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے المولا پر الزام لگایا تھا کہ وہ عراق میں یزیدی کمیونٹی پر ظلم و ستم ڈھانے میں ملوث ہیں۔

داعش نے سنجار کے علاقے پر اپنا قبضہ سنبھالتے ہی پانچ ہزار سے زیادہ یزیدیوں کو ہلاک اور اس برادری کی سینکڑوں لڑکیوں اور خواتین کو جنسی غلامی کے لیے فروخت کر دیا۔

المولا کی اپنے ہی ساتھیوں کے ساتھ غداری کا انکشاف ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب کہا جا رہا ہے کہ داعش، جس نے القاعدہ کے بعد عراق اور شام میں جہاد کے نام پر قدم جما لیے تھے، میں اندرون خانہ پھوٹ پڑ چکی ہے۔

ایک برطانوی سکیورٹی عہدیدار نے بتایا: ’ان افشا دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ داعش (دولت اسلامیہ) کی اعلیٰ ترین قیادت دھوکہ دہی میں گھیری ہوئی ہے جبکہ اس تنظیم نے اپنا علاقہ کھو دیا ہے اور داعش اپنے حقیر بیانیے کا پرچار اور آن لائن تشدد کو بھڑکاتا ہے تاہم یہ پروپیگنڈا اس وقت بے اثر ہو جاتا ہے جب سب کو معلوم ہو جائے کہ ان کے رہنما نے اپنے ہی ساتھیوں کو دھوکہ دیا ہے۔‘

لیکن مغربی عہدے داروں نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ شام میں اپنے بیشتر قابض علاقوں سے جبری طور پر بے دخل کیے جانے، البغدادی سمیت ہزاروں جنگجوؤں کی ہلاکت اور گرفتاریوں کے بعد داعش مختلف ممالک میں قائم اپنی 20 ذیلی تنظیموں کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر دوبارہ ابھرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔

جمعرات کو جیسے ہی المولا سے کی گئی تفتیش کی معلومات جاری کی گئیں۔ امریکی ’نیشنل کاؤنٹر ٹریرازم سنٹر‘ کے ڈائریکٹر کرسٹوفر ملر نے کہا کہ اس گروپ نے ’درمیانے درجے کے مگر آزمودہ کمانڈروں، تنظیم کے لیے وقف کیڈرز، وسیع خفیہ نیٹ ورکس کی بدولت اور انسداد دہشت گردی کے دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے چھ سالوں میں شدید نقصانات سے دوچار ہونے کے باوجود ثابت قدم رہنے کی صلاحیت کا بار بار مظاہرہ کیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملر نے واشنگٹن میں امریکی ایوان کی ہوم لینڈ سکیورٹی کمیٹی کو بتایا کہ داعش نے شام اور عراق میں قتل و غارت گری جاری رکھی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ شمالی شام میں ہزاروں جنگجوؤں اور ان کے اہل خانہ کو جیل سے آزاد کروانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور غیر ملکی حکومتوں کے مابین ان قیدیوں کے حوالے سے کسی بھی معاہدے کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ملر نے مزید کہا کہ اگرچہ داعش کو بعض علاقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن یہ افریقہ کے کچھ حصوں میں مضبوط ہو رہی ہے۔

جمعرات کو اس گروپ نے اگست میں نائجر میں فرانسیسی امدادی کارکنوں اور ان کے دو مقامی کارکنون کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

43 سالہ المولا شادی شدہ ہیں اور ایک بیٹے کے باپ ہیں۔ صدام حسین کی فوج میں بطور مترجم 18 ماہ خدمات انجام دینے سے پہلے انہوں نے موصل کے اسلامک سائنسز کالج سے شریعت میں گریجویشن مکمل کی تھی۔

اگرچہ بعد میں انہیں امریکی جیل ’کیمپ بُکا‘ میں قید کر دیا گیا لیکن انہیں اپنے ہی ساتھیوں کی مخبری کرنے کے بدلے 2009 میں آزاد کیا گیا تھا اور پھر وہ القاعدہ میں شامل ہو گئے تھے۔

دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ المولا نے البغدادی کے لیے تقریریں لکھیں اور موصل کی الفرقان مسجد کے امام مقرر ہوئے جہاں داعش کے رہنما نے متعدد مواقع پر تبلیغ کی تھی۔

سابق فوجی المولا خود کو سلفی اسلام کا علمبردار سمجھتے ہیں تاہم اسلامی حلقوں میں المولا کے مخالفین نے ان کی مذہبی اسناد پر سوال اٹھائے ہیں۔

ان افواہوں کے درمیان کہ داعش کے جنگجو غیر عرب کو بطور رہنما قبول کریں گے، المولا کے بارے میں یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ ان کا تعلق ترکمانستان سے تھا۔

جاری کی گئیں دستاویزات میں المولا کے پاس عراقی شناختی کارڈ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک عربی ہیں جو محلبیہ نامی قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا