خلا کس کی ملکیت ہے؟

اگر ڈونلڈ ٹرمپ، ناسا اور ایلون مسک کا بس چلے تو امریکہ چاند، اسٹرورائیڈز اور دیگر اجرام فلکی کا مالک ہو گا۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ہم سب کو ضرور آواز اٹھانی چاہیے۔

امریکی خلاباز بز آلڈرن  اپالو11 مشن کے دوران چاند پر اترنے کے بعد امریکی جھنڈے کو  سلیوٹ کر رہے ہیں (ناسا)

جب سازشی نظریہ ساز چاند پر پہلے قدم کا شک کی نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں تو وہ جھنڈے کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں یہ ہوا میں لہراتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

’آہا‘! وہ چیختے ہوئے کہتے ہیں، ’لیکن چاند پر تو ہوا چلتی ہی نہیں، اس لیے یہ سارا معاملہ ہی جعلی تھا اور ہالی وڈ کے کسی سیٹ پر شاید کسی ہوائی مشین کی مدد سے فلمایا گیا تھا۔‘

لیکن ظاہر ہے جھنڈا چاند یا کسی بھی جگہ پر گاڑھا جائے وہ ایسا ہی کرے گا جیسا جھنڈے کیا کرتے ہیں۔ سازشی نظریہ ساز جو سامنے کا اہم ترین نکتہ نظر انداز کر جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ امریکی جھنڈا ہے جسے چاند پر لگایا جا رہا ہے۔ نیل آرم سٹرانگ اور بز آڈرن وہی کر رہے تھے جو اس سے پہلے کپٹن کُک نے باٹنی بے اور اس سے پہلے کولمبس نے کیا، یعنی اپالو 11 کی طرح کسی زمین اور اس کے قرب و جوار میں جھنڈا لگا کر اس علاقے کی ملکیت کا دعویٰ کرنا۔

بس ایک فرق ہے کہ اس بار زمین نہیں چاند کی سطح تھی۔ یہ واقعی اس دنیا سے باہر تھا۔ خلائے بسیط کے لیے جدوجہد یہاں سے شروع ہوئی اور یہ داستان ابھی جاری ہے۔ تاحال یہ سٹار وارز نہیں۔ لیکن غیرارضی وجود کی ٹکڑوں میں جائیداد کی طرح تقسیم کا عمل اس وقت جاری ہے۔ فرانسیسی فلسفی ژاں ژاک روسو نے کہا تھا عدم مساوات اس دن شروع ہوئی تھی جس دن پہلے شخص نے کسی زمینی ٹکڑے پر لائن کھینچتے ہوئے کہا، ’یہ میری ہے!‘

اب ایسی لکیریں دوسرے سیاروں، چاند اور سیارچوں پر کھینچی جا رہی ہیں۔ روسی خلائی کو آپریشن روسکاسموس کے سربراہ دمتری روگوزن نے حال ہی میں دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا، ’زہرہ روسی سیارہ ہے۔‘ جب کہ امریکہ نظام شمسی کے گرد گردش کرنے والی ہر چیز پر اپنے نام کی مہر ثبت کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

یہاں کام کرنے کا ایک بنیادی اصول ہے کہ بچوں کی طرح ہر چیز اپنے ہاتھ میں لینے پہ بضد ہونا۔ اگر ہم پہلے اس پر ہاتھ ڈال سکیں یا چاہے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اسے قابو کر لیں تو یہ ہماری ہے۔ لاطینی میں اسے کہتے ہیں یہ کسی کی ملکیت نہیں۔ یہاں کوئی نہیں رہتا۔ ایسا ہی جھوٹ آسٹریلیا کے متعلق گھڑا گیا اور سامراج نے بار بار پوری دنیا میں اسے دہرایا۔ اگر آپ جراثیم کو شمار کرنے نہ بیٹھ جائیں تو اس بار سوائے جراثیم کے واقعی وہاں کوئی نہیں۔ لیکن بہت جلد یہاں آمد شروع ہو جائے گی۔ کیا کس کا ہے اس بات پہ جھگڑا پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ اس کا بہت واضح جواب ملے گا، ’ہمارا ہے۔‘

نیشنل ازم صرف بین الاقوامی نہیں بالکل بین سیاراتی مسئلہ ہے۔ دراصل نوآبادیت کبھی ختم ہوئی ہی نہیں بلکہ اب راکٹوں کے دوش پہ یہ نہایت بے باکی سے وہاں تک پہنچ گئی جہاں پہلے کسی کی رسائی نہ تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہوس مال و دولت کی ہے اگرچہ وہ لاکھوں میل دور ہے۔ ایل ڈورڈو شاید مریخ یا زحل پہ ڈھونڈ ہی لیا جائے۔ 

اس ہفتے جریدے’سائنس‘ میں چھپنے والے ایک مضمون ’امریکہ کی منصوبہ بندی سے خلا کی پرامن ترقی کو درپیش خطرہ‘ بحث کرتا ہے کہ امریکہ خلائے بسیط میں بھی ’پہلےامریکہ‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ’سائنس‘ امریکی ایسوسی ایشن برائے ترقیِ سائنس کا موقر اور مستند مجلہ ہے جو نہ صرف سائنسی تحقیقات شائع کرتا ہے بلکہ سائنسی پالیسیوں کا جائزہ بھی لیتا ہے۔ نپے تلے لیکن سخت تنقیدی مضمون کے دو لکھاری ہیں۔ وینکور کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی میں ارون بولی ماہر فلکیات ہیں جب کہ مائیکل بئیرز پولیٹیکل سائنسدان ہیں۔

اگست میں وہ دونوں ’خلا میں کان کنی پر کھلے عالمی خط‘ کی مہم کے روح و رواں تھے جس پہ تین نوبل انعام یافتگان سمیت سو سے زیادہ لوگوں نے دستخط کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ خلا میں کان کنی کے لیے نیا کثیر الجہتی ڈھانچہ وضع کیا جائے۔ 

بئیرز نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا، ’طاقتور ممالک ہمیشہ عالمی نظام کو اپنے مطابق تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ امریکہ کبھی اقوامِ متحدہ کا بانی رکن تھا۔ موجودہ امریکی انتظامیہ فیصلہ کر چکی ہے کہ زمین یا کسی بھی سیارے پر کثیر الجہتی حکمت عملی کی تائید نہیں کرے گی۔‘

اس سال اپریل میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے کہا کہ تجارتی بنیادوں پر خلا میں کان کنی قانونی ہے۔ ستمبر میں ناسا نے اعلان کیا کہ وہ چاند کی مختلف النوع سطح ’رگولیتھ ‘ پر کھدائی کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔  نیوکلئیر فیوژن کے ممکنہ توڑ کے طور پر ہیلیم 3 اور پانی کی تیاری کے لیے ہائیڈروجن اور آکسیجن کی کان کنی پر بھی بات کی گئی۔

چاند کی مٹی سود مند ثابت ہوتی ہے یا نہیں اصل بات روایت قائم کرنے کی ہے۔ اگر ہم ماورائے زمین علاقوں سے ٹکڑے اکھیڑ سکتے ہیں تو پھر کسی کی پروا کیے بغیر ہم یہ کرتے ہیں اور مستقبل میں بھی یہی کرتے رہیں گے۔ 

بئیرز کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ ’اپنے روایتی اتحادیوں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ خلائی قانون کے معاملے پر اس کے ترجیحی نقطہ نظر کی حمایت کریں۔‘

امریکہ نام نہاد آرٹیمس معاہدہ دوسری قوموں پر تھوپ رہا ہے جو تجارتی خلائی کان کنی کو بین الاقوامی کے بجائے قومی بنیادوں پر استوار کرے گا۔ بظاہر ’مذاکرات‘ جاری ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ آرٹیمس معاہدے پر دستخط نہیں کرتے تو ناسا کے کسی بھی خلائی پروا گرام میں شرکت کا موقع نہ ملے گا۔ 

بئیرز کہتے ہیں، ’یہ قانون کی تشریح ہے، لیکن دراصل یہ ایک چال ہے۔‘ جیسا بئیرز اور بولی نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے، ’اگر امریکہ کی ’تشریح‘ قبول کر لی جاتی ہے تو ’وہ چاند، سیارچوں اور دیگر اجرام فلکی کا خود بخود نگران بن جائے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ خاموشی عالمی قوانین میں منظوری سمجھی جاتی ہے اس لیے امریکہ کے تمام اجرام فلکی پر قبضہ جما نے سے پہلے باقی اقوام کو فوری طور پر فکر مند ہونا چاہیے اور اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ان کا مضمون بغاوت کی دعوت ہے یا جیسا کہ بئیرز کہتے ہیں، ’یہ آگاہی پھیلاؤ مہم ہے باقی ممالک کو بھی صدائے احتجاج بلند کرنی چاہیے۔‘

عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ کا قانون پہلے سے خلا میں اپنی عمل داری پر زور دے رہا ہے۔ 2015 میں کمرشل سپیس لانچ کمپیٹیٹونس ایکٹ کے مطابق امریکہ قانون کے مطابق امریکہ کے شہریوں کو اجرام فلکی پر پلاٹ خریدنے اور بیچنے کی اجازت ہے۔ مریخ، زحل یا اہل زمین اس معاملے میں کیا رائے رکھتے ہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔

یہ کوئی آفاقی نقطہ نظر نہیں سوائے یہ کہ آپ امریکہ کو ہی کل کائنات سمجھتے ہوں۔ لکسمبرگ نے بھی اس کی پیروی کی۔ حالانکہ میری معلومات کے مطابق ان کے پاس کوئی راکٹ بھی نہیں۔

بہت جلد ہم سب کسی معروضی حقیقت کے بغیر اپنے حقوق کا راگ الاپتے کسی نہایت تیز رفتار بینڈ ویگن پہ اچھلتے ہوئے محو سفر ہوں گے۔ یہ بات کسی کے لیے حیران کن نہ ہو گی کہ ٹرمپ کے انتظامی احکامات اقوام متحدہ کے مون ایگریمنٹ 1979 کو غیر متعلق کہتے ہوئے ’عالمی مشترکات‘ کے نظریے کو رد کرتے ہیں جس کے مطابق خلا ’انسانیت کی مشترکہ میراث‘ ہے۔

خلائی معاہدے 1967 کے آرٹیکل دو کے مطابق ’خلائے بسیط، چاند اور دیگر اجرام فلکی کسی خود مختار ریاست، طاقت یا کسی بھی طرح سے کسی قوم سے مخصوص نہیں ہوسکتے۔‘

ناسا کہتا ہے وہ بسیط خلائی معاہدے کے مطابق چل رہا ہے۔ لیکن کسی کثیر جہتی خیال یا مشترکہ نقطہ نظر کے بغیر خلا کی کان کنی یکطرفہ ہی ہے۔ زمین یا کسی بھی سیارے پر پہلے امریکہ انسان کے لیے چھوٹا سا قدم مگر امریکی باشندوں کے لیے لمبی چھلانگ ہے۔ ناسا اور ایلون مسک سپیس پرائیویٹ انیشیٹوز ( بہت جلد جیف بیزوس کا بلیو اوریجن بھی اس میں شامل ہو جائے گا) نئی کہکشانی سامراجیت قائم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ 

روس نے بالخصوص آرٹمس معاہدے کو خلائی معاہدے سے راہ فرار کی امریکی سازش قرار دیا ہے۔ ناسا کے ناظم امور جم بریڈنسٹن سمندری حدود پہ ماہی گیری اور خلا کے درمیان مشابہت تلاش کرتے ہوئے اسے کسی قومی عمل داری سے بالاتر قرار دیتے ہیں۔ ایک مچھلی پر اس وقت تک دعوی نہیں کیا جاسکتا جب تک وہ سمندر میں ہے لیکن پکڑنے کے بعد مچھیرا اس کا مالک ہوتا ہے۔ سیاروں پر خلائی کان کنی بھی مچھلی پکڑنے جیسا ہے۔ جیسا کہ بئیرز اور بولی نے لکھا ہے: ’بغیر کسی سائنسی ضابطے کے ماہی گیری اکثر استحصال بلکہ بعض اوقات اس سے بڑھ کر تمام ذخیرے کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔‘

مسئلہ صرف قانونی یا نظریاتی نہیں بلکہ اپنے نتائج میں ماحولیاتی ہے۔ ہم اس زمین اور دوسری دنیاؤں میں آلودگی، صحت اور تحفظ کی بات کر رہے ہیں۔ کان کنی کبھی بھی محفوظ اور خطرے سے خالی نہیں سمجھی گئی۔ بہت زیادہ کان کنی کے خطرات کی فہرست اتنی لمبی ہو گی جتنا یہ مضمون۔ کوئلے کی گانٹھیں اور دوسرے قابل قدر ذخائر نکالتے ہوئے جان دینے والوں کا ذکر کیا جائے تو زمین سے آسمان تک پھیل جائے۔ 

اب تصور کیجیے خلا میں رہنا کیسا ہو گا؟ زیادہ محفوظ؟ میرا نہیں خیال۔ چاند بالخصوص سیارچوں پر کشش ثقل بہت کم یا صفر ہے۔ کوئی بھی چیز جو زمین سے قدم اٹھاتی ہے اچھلتی ہی رہتی ہے۔ خلا ملبے سے بھرنے جا رہا ہے۔ چیزیں واپس زمین پر پھینکی جائیں گی۔ جو اوپر جاتا ہے بالآخر واپس زمین پر آتا ہے اور ہم زمینی لوگ بالکل نشانے پر ہوں گے۔ مجھے اندیشہ ہے اگر کوئی سیارچہ اچانک زمین سے ٹکراتا ہے جیسا ہمارے ڈراؤنے خوابوں میں ہوتا ہے تو یہ اس لیے ہو گا کیونکہ ہم نے اس کا رخ زمین کی طرف کیا اور پھر ہمارے قابو سے نکل گیا۔

یہ وہی عمل ہوگا جسے بئیرز اور بولی ’بشری شہاب ثاقب‘ کہتے ہیں۔ کون سی عدالت مشتری میں مقناطیس کی کان کنی پر مقدمہ چلائے گی؟ اگر امریکہ درمیان میں ہے تو کوئی بھی نہیں۔ نظام شمسی جنگلی مغرب یا گولڈ رش کے دنوں جیسے الاسکا کی طرح بننے جا رہا ہے اگرچہ نیا رگولتھ رش ممکنہ طور پر ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کام چلائے گا۔ ماحول کی متوقع تباہ کاری کے ساتھ ممکنہ طور پر ویسی ہی عاقبت نااندیش اور تباہ کن جارحیت غالب آئے گی۔ اب یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں کہ دراصل ہم خلا میں بلیک ہول کھود رہے ہوں گے۔

سپیس ایکس کے پاس پہلے سے ٹیسلا برقی کار ہے جو خلا میں کم و بیش مریخ کی طرف چکر کاٹ رہی ہے۔ اسرائیل چاند پر خلائی گاڑی اتار چکا ہے جس پہ تادیر زندہ رہنے والے ’ٹارڈیگریڈز‘ نامی چھوٹے جانور، جو شاید اب جھنڈ کی شکل میں ’سکون کے سمندر‘ میں ٹہل رہے ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آخر آخر خلا میں وکیل اس بات پہ بحث کر رہے ہوں گے کہ کون کس کا مالک ہے۔ لیکن تب تک ہمارے پاس زمین پر خلا کے بہت سے وکیل موجود ہیں۔

کرسٹوفر نیومین نیوکیسل کی نارتھمبریا یونیورسٹی میں خلائی قانون اور پالیسی کے پروفیسر ہیں اور اس موضوع پر پہلے سے بہت کچھ شائع کروا چکے ہیں۔ میں بورس جونسن سے پوری توقع رکھتا ہوں کہ وہ اعلان کریں گے کہ ہم خلائی قانون کے عہد میں ’سب سے اچھی زندگی‘ جی رہے ہیں۔

نیومین واضح کرتے ہیں کہ خلائی قانون کا معاملہ ابہام کا شکار ہے۔ ’یہ ٹھیک ہے کہ بسیط خلائی معاہدے کا آرٹیکل 2 قومی تصرف سے روکتا ہے۔ لیکن آرٹیکل 1 کہتا ہے کہ ریاستیں بغیر کسی رکاوٹ کے خلا کو استعمال کرنے، دریافت اور کھوج لگانے میں آزاد ہیں۔' دوسرے لفظوں میں تمام اجرام فلکی اصولاً ’سب کی ملکیت‘ یا ’ساری انسانیت کا گھر‘ ہونا چاہیے۔ لیکن عملی طور پر یہ لفظ ’استعمال‘ بہت وسیع المعانی ہے۔

ممکن ہے آپ کہیں اگر آپ کسی سیارے پر کان کنی کر رہے ہیں تو خود بخود اسے اپنا بنا رہے ہیں۔ لیکن تجارتی ادارے کہیں گے وہ معدنیات اور دوسرے قدرتی ذخائر دریافت کر تے ہوئے سطح زمین کے ماحول کو بہتر بنا رہے ہیں۔ وہ کوئی بڑا دعویٰ نہیں کر رہے زیادہ سے زیادہ یہ کہ کارن وال میں ٹن کے کان کن کہہ رہے تھے کارنوال ان کا ہے۔ نیومین کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے جب امریکیوں نے پہلا انسان چاند پر اتارا اور جھنڈا لہرایا انہوں نے زور دے کر کہا، ’وہ ملکیت کا دعویٰ نہیں کر رہے تھے، وہ فقط یہ کہہ رہے تھے ہم امریکی ہیں اور یہاں موجود ہونے پر بہت خوش ہیں۔‘

نیومین بئیرز اور بولی کے بجائے آرٹیمس معاہدے کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں: ’اس میں بہت سی چیزیں قابل فہم ہیں۔ ڈیٹا کے اشتراک، ملبے کی دیکھ بھال اور سیفٹی زون کو بنانے کے لیے پہلے سے بہت سا قانون موجود ہے۔ اور کوئی بھی چیز جو خلا کو بہتر بنائے اس کی ستائش کی جانی چاہیے۔‘

 1979 کا چاند پر ہونے والا معاہدہ بہت واضح انداز میں کہتا ہے، ’اجرام فلکی یا چاند پر ہونے والی ہر قسم کی کان کنی بین الاقوامی ادارے کے ماتحت ہونی چاہیے۔‘

لیکن جیسا کہ نیومین کہتے ہیں، خلا کے اہم ترین کھلاڑیوں امریکہ، روس، چین، جاپان میں سے درحقیقت کسی ایک نے بھی معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ ’دراصل اکیلے امریکہ نے اسے واضح طور پر مسترد کیا اور پرامید ہے کہ آرٹیمس معاہدہ چاند پر تجارتی سرگرمیوں کا تسلیم شدہ قانون بنے گا۔‘

امریکہ بری طرح اوریجنل الائن فلم پر انحصار کر رہا ہے۔ خلا میں کوئی آپ کی چیخ پکار نہیں سن سکتا۔ قانونی حق تلفیوں یا خلا میں اُڑتے کچرے سے گدلے ہونے پر آپ کی احتجاجی آواز بھی کوئی نہ سنے گا۔ وہاں ’پوسٹ ٹرتھ‘ کا سکہ رائج ہے۔ ماہرِ فلکیات رائل، لارڈ مارٹن ریس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خلا میں کان کنی کے لیے ابھی کوئی ’بین الاقوامی معاہدہ فوری طور پر ضروری ہے کیونکہ 'جب تجارتی دباؤ بڑھ گیا تو یہ بہت مشکل ہوجائے گا۔‘

سائنس میں شائع شدہ مضمون میں بئیرز اور بولی کہتے ہیں امریکہ کو خلائے بسیط کے پرامن استعمال والی اقوامِ متحدہ کی کمیٹی، جس نے خلائے بسیط معاہدوں کا مسودہ تحریر کیا، اس سے بات چیت کرنی چاہیے۔ لیکن امریکی صدر کی تبدیلی اور 180 ڈگری کے زاویے سے کثیر القومی نقطۂ نظر اپنائے بغیر ایسا ممکن نہیں -

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس