اسے ایک بے ضرر سا تعلق سمجھا جانا چاہیے جیسا کہ کبھی سمجھا جاتا تھا۔ ہم جنس پرستی کی ویب سائٹ پر پُرکشش تعارف، چند ایک یونہی سے پیغامات، تصاویر کا تبادلہ اورملاقات کے بارے میں گفتگو۔ بس اتنا ہی! لیکن دراصل ایسا نہیں ہوتا۔
38 سالہ سرگئی (جن کا اصل نام یہاں حذف کیا جارہا ہے) کہتے ہیں کہ جب اُن دونوں کی روسی دارالحکومت ماسکو کے جنوب مشرقی نواحی علاقے شابولووکا (Shabolovka) میں ملاقات ہوئی توانہیں لگا کہ سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ جب یہ جوڑا گھر پہنچا اور فلیٹ کے دروازے سے اندر داخل ہوا تو دو حملہ آور پردے کے پیچھے سے چھلانگ لگا کر باہر آگئے۔ تب سرگئی کو احساس ہوا کہ صورت حال کتنی بگڑ چکی ہے۔
حملہ آوروں نے سرگئی سے کہا کہ اس کی ڈیٹ حقیقت میں کم عمربچے کی ساتھ تھی۔۔۔ حالانکہ وہ تعارفی تفصیل اور وضع قطع کے اعتبارسے کم ازکم 20 برس کا دکھائی دیتا تھا۔ حملہ آوروں نے اپنے شکار کو ڈرا دینے والا الٹی میٹم دے دیا اور کہا کہ 20 ہزارروبل (250 ڈالرز) دو ورنہ ثبوت کے طور پر اسے باہر نکال کر اس کا تعارف بچوں سے جنسی تعلق کے شوقین کے طور پر کروایا جائے گا۔
سرگئی خوش تھا کہ فوج میں 20 برس گزارنے کے بعد وہ اس قابل تھا کہ حملہ آوروں کا جسمانی طورپر مقابلہ کرسکتا تھا۔ ایک گھنٹے بعد وہ انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ اسے باہرجانے دیا جائے تاکہ وہ کیش پوائنٹ سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کرسکے۔ باہرنکلنے کے بعد وہ وہاں سے فرار ہوگیا۔
سرگئی کی کہانی اُن کئی جرائم میں سے ایک ہے جو گذشتہ ماہ ماسکو میں ہم جنس پرستوں کے خلاف کیے گئے۔ دی انڈیپنڈنٹ نے تین متاثرہ ہم جنس پرستوں سے بات کی، جن کا کہنا تھا کہ دارالحکومت ماسکو میں سرگرم گروہ ہم جنس پرستوں کو آسان اور خاموش شکار سمجھتے ہیں۔
ہربار ان کا طریقہ کار ایک سا ہوتا ہے۔ خوبصورت نوجوان، سادہ لوح افراد کو ڈیٹنگ کی موبائل فون ایپلی کیشنزاور ویب سائٹس پر پھانستے ہیں۔ اپنے شکار کو اپارٹمنٹ میں آنے کی ترغیب دیتے ہیں جہاں گروہ کے دوسرے کئی افراد پہلے سے انتظارمیں ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں:برونائی میں ہم جنس پرستوں کو سنگسار کرنے کا فیصلہ
حملہ آورمتاثرہ شخص کی فلم بناتے ہیں، اس سے رقم نکلوانے کے بعد اسے فلم انٹرنیٹ پرجاری کرنے یا اس سے بھی زیادہ برے نتائج کی دھمکی دی جاتی ہے۔ عام طور پر متاثرہ افراد پرسکون زندگی کے لیے رقم دے دیتے ہیں۔ بعض اوقات وہ رقم نہیں دیتے اور ایسی صورت میں نتیجہ پرتشدد ہوسکتا ہے۔
یہ واقعات روس میں ہم جنس پرستوں کی مشکلات کی یاد دلاتے ہیں۔ ایسے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ یہ ہم جنس پرستی سے بیزاری کی بدترین مثالیں ہیں۔
تقریباً چاربرس قبل روس میں ہم جنس پرستوں پر تشدد کے واقعات انتہا کو پہنچ گئے تھے۔
قوم پرست میکسم مارٹسنکیویچ Maxim Martsinkevich)) ، جنہیں کلہاڑا بھی کہا جاتا ہے کی قیادت میں گروہوں نے درجنوں ہم جنس پرستوں کو پھانسا، کیمرے پرریکارڈنگ کرتے ہوئے ہوئے انہیں مارا اور ان کی بے عزتی کی۔ مارٹسنکیویچ اور ان کا گینگ 2013 میں ہم جنس پرستوں کے خلاف بنائے گئے بدنام سرکاری قانون کی طرز پر کام کرتے ہیں۔
مارٹسنکیویچ اور اس کے کارندے رقم کے بجائے ایک پُرپیچ نظریے کے فروغ پر یقین رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستوں کے خلاف حالیہ جرائم زیادہ تر مالی فائدے کے لیے تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی پرتشدد واقعہ نہیں ہوا۔ بہت سے مواقع پرنوجوان خون میں لت پت پائے گئے۔ بظاہر انہیں لوٹنے کی کوشش کی گئی جبکہ عمارت میں زبردستی داخلے کے آثار بھی نہیں ملے۔
تاہم آج کل کے گینگزمیں تشدد کا رجحان نسبتاً کم ہے۔ یہ گینگ جرائم کو ممکنہ حد تک پوشیدہ رکھنے کے لیے معاشرے میں ہم جنس پرستی کے خلاف موجود خیالات کا سہارا لیتے ہیں۔
ہم جنس پرستی سے متعلق نیٹ ورک کے سربراہ آئگور کوکتکوف کہتے ہیں کہ یہ خاصی موثرحکمت عملی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ پولیس کے پاس جانے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہ اپنی شناخت سامنے نہیں لانا چاہتے۔ سرکاری حکام کے ہم جنس پرستی کے خلاف باقاعدگی سے سامنے آنے والے بیانات بھی ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔
آئیگور کا کہنا ہے کہ روس میں متاثرہ ہم جنس پرستوں کی مدد کے لیے عدالتیں قائم نہیں کی گئیں۔ جب کوئی معمول سے ہٹا ہوا مقدمہ عدالت میں پہنچتا ہے تو اسے غنڈہ گردی یا لوٹ مار کے مقدمے کے طورپر لیا جاتا ہے۔ نفرت انگیزی کو مقدمے کا حصہ نہیں بنایا جاتا جو اسے سنگین تر بناتی ہے۔ 2014 میں مارٹسنکیویچ کو بالآخر نسل پرستی پر مبنی ویڈیو بنانے پر گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا، تاہم مقدمے میں ہم جنس پرستی کے خلاف جذبات کا کوئی پہلو نہیں تھا۔
آئیگور کے مطابق یہ بات صاف ہے کہ ہم جنس پرستی کے خلاف جرائم ہو رہے ہیں جیسا کہ چیچنیا میں ہوا۔ ریاست عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے یہ سب کچھ کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:برطانیہ: سکولوں میں ہم جنس پرستی سے متعلق مضامین پر مسلمان والدین کا احتجاج
ہم جنس حقوق سے متعلق پروگرام اور تنظیم سٹمولس ((Stimulus کے ڈائریکٹرآندرے پیٹروف کہتے ہیں کہ کامیاب عدالتی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے کسی ہم جنس پرست کو ملاقات کے لیے بلا کراس سے رقم نکلوانے کی کارروائی عام ہوگئی ہے۔
آندرے پیٹروف کی تنظیم کے زیراہتمام 2018 میں کرائے گئے سروے کے مطابق ہم جنس پرست برادری کے ہر پانچ ارکان میں سے ایک نے بتایا کہ اسے نفرت پر مبنی جرائم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ متاثرہ افراد میں سے ایک فیصد ہی پولیس سے رجوع کرتے ہیں اور اس سے بھی کم جرائم کی ضروری چھان بین ہوتی ہے۔
اس تنظیم نے فیصلہ کیا ہے کہ روسی عدالتوں میں پیشرفت نہ ہونے کی وجہ سے ہم جنس پرستوں کے خلاف جرائم کی انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں پیروی کی جائے گی۔
سٹمولس کی پہلی آزمائش 2017 کا ایک معاملہ تھا جو جانے پہچانے طریق کارکے مطابق تھا۔
39 سالہ یوف گینی (اصلی نام نہیں) نے ڈیٹنگ کی مقبول ویب سائٹ میل ڈاٹ آر یو ((mail.ru پرکرائے گئے ایک تعارف کا جواب دیا۔ تصاویرکا تبادلہ ہوا اور طے پایا کہ جوڑا ماسکو کے نواح میں رہائشی فلیٹ میں ملاقات کرے گا۔ اس باربھی تنبیہی نشانیاں موجود تھیں۔ ویب سائٹ پرفریق ثانی نے اپنا نام ڈیما بتایا تھا لیکن بعد میں اپنا تعارف ڈنیلا کہہ کر کرایا۔ صورت حال کو نظراندازکرتے ہوئے یوف گینی بالائی منزل کے فلیٹ میں جانے پر تیار ہوگئے۔
فلیٹ میں آٹھ افراد کا گینگ ان کا منتظرتھا۔ جلد ہی یوف گینی کی ملاقات رقم کے مطالبے اور بری طرح مارپیٹ پر ختم ہوئی اور انہیں دھمکی دی گئی ان پر بچہ بازی کا الزام لگا کر پولیس کو بلالیا جائے گا۔
بالآخریوف گینی نے ہمت کی اور واقعے کی اطلاع پولیس کو دے دی لیکن اُس وقت سے دوسال گزر چکے ہیں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ تفتیش کارفوجداری بنیاد پرچھان بین کے لیے تیارنہیں ہیں۔
یوف گینی کے مطابق ’میرے خیال میں پولیس ملزموں کی پردہ پوشی کررہی ہے، مجھے کوئی شک نہیں ملزم اپنے آپ کو ناقابل گرفت سمجھتے ہیں۔‘
ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اورمتاثرہ افراد کا الزام ہے کہ خود روسی حکومت کے ہم جنس پرست مخالف رویے نے بھتہ خوری کے دھندے کو ہوا دی ہے۔
متاثرہ ہم جنس پرست سرگئی کے مطابق ہم جنس پرستوں کے خلاف جرائم میں ملوث افراد اس لیے بچ نکلتے ہیں کہ وہ اورپولیس ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔ ایک شے دوسری کو جنم دیتی ہے۔ انہیں علم ہے کہ وہ ریاستی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں۔