کیا بھوت پریت کا واقعی وجود ہے؟ سائنس کیا کہتی ہے؟

حال ہی میں ہالووین کا تہوار گزرا ہے جب اس دنیا اور روحانی دنیا کے درمیان حائل فاصلے کم ہو جاتے ہیں۔ ڈیوڈ بارنیٹ پوچھتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ لوگ بھوتوں پر یقین رکھتے ہیں۔

(پکسا بے)

نینا گل مردہ لوگوں کو دیکھتی ہیں۔ یہ اس وقت شروع ہوا جب وہ چار سال کی تھیں اور پاکستان میں رہائش پذیر تھیں۔ ایک پڑوسی خاتون بچی کی پیدائش کے دوران دم توڑ گئی تھیں اور نینا گل کی والدہ اس قبل از وقت پیدا ہونے والی (پری میچور) بچی کی دیکھ بھال کر رہی تھیں، تاکہ وہ صحت مند ہوجائے اور اسے اس کے والد کے پاس بھیجا جاسکے۔

نینا کو نہیں بتایا گیا تھا کہ بچی کی ماں مر چکی ہے لیکن وہ گھر کے اردگرد انہیں مسلسل دیکھتی رہی۔ وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’میری ماں بہت وسیع النظر ہونے کے باوجود ڈر گئی تھیں کیونکہ وہ خود کئی بار بالخصوص آئینے دیکھتے ہوئے اس بچی کی ماں کو دیکھ چکی تھیں۔ جب بچی تھوڑی بڑی ہو گئی تو اپنے باپ اور بہن بھائیوں کے حوالے کر دینے کے بعد مجھے اس کی ماں کبھی نظر نہ آئی تب میری ماں نے مجھ بتایا کہ وہ مر چکی ہیں۔‘

30 سالہ نینا اب اپنے خاوند سیموئل کے ساتھ ووسٹرشائر میں رہتی ہیں۔ ان کا یہ پہلا مافوق الفطرت تجربہ تھا لیکن یقیناً آخری نہیں۔ وہ چار بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ 1996 میں چھ سال کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ نانی کی دیکھ بھال کے لیے انگلینڈ آ گئیں۔ 

وہ کہتی ہیں، ’میرا خیال تھا غیر موجود لوگوں کو دیکھنا اور ان سے ملنا جلنا معمول کی بات ہے۔ جب ہم انگلینڈ آئے تو ایک پرانے چار منزلہ وکٹورین طرز کے مکان میں منتقل ہو گئے اور میں ایک عجیب و غریب لباس والی لڑکی سے تہہ خانے میں کھیلتی تھی۔ میں نے اپنی ماں کو اس کے متعلق بتایا تو انہوں نے بعد میں مجھے کچھ وکٹورین عہد کے بچوں کی تصاویر کے ذریعے ان کا لباس دکھایا اور یہ بالکل ویسا تھا جو میں پہلے بیان کر چکی تھی۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا، ’او ہاں یہی ہے جو وہ پہنتی ہے۔‘

 نینا کی نانی خود روحانیت پر یقین رکھتی تھیں اور نینا انہیں اپنے ساتھ پیش آنے والے جن بھوتوں کے تجربات کے متعلق بتایا کرتی تھیں۔ نانی اماں نو سال پہلے دنیا سے گزر گئیں لیکن اس سے پہلے وہ اس پہ بات کر چکی تھیں کہ ان کے جانے کے بعد کیا ہو گا اور نینا ان سے دوبارہ کیسے ملنا پسند کرے گی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتی ہیں، ’ان کے گزر جانے کے کچھ ہفتے بعد میں نے خواب دیکھا جس میں وہ زندہ لوگوں کی طرح بات چیت کر رہی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کیا آپ خیریت سے ہیں؟ کیا آپ خوش ہیں؟ وہ مرنے سے پہلے بہت زیادہ بیمار تھیں لیکن اب ٹھیک لگ رہی تھیں۔ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا 'میں آپ کو افیم کے سرخ پھولوں کی شکل میں اپنی خیریت کے بارے میں اشارہ کر دوں گی۔‘ میری ماں اور میں گھر کے قریب کھیتوں میں اکثر ہفتہ وار چھٹیوں میں چکر لگایا کرتی تھیں۔ کچھ دن بعد کھیت افیم کے پھولوں سے بھرے تھے۔ ماں سے اپنا یہ خواب بیان کرتے ہوئے میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میری ماں نے تب بتایا کہ سرخ افیم کے پھول ان کے والد کے پسندیدہ پھول تھے۔ مجھے اپنے نانا سے ملنے کا اتفاق نہ ہوا تھا کیونکہ میری پیدائش سے وہ کافی عرصہ پہلے فوت ہوچکے تھے۔‘

اب خود ایک بچے کی ماں نینا کے تمام روحانی تجربات صرف خوشگوار ہی نہیں ہوا کرتے تھے۔ 24 سال کی عمر میں ایک تعلق کے ٹوٹنے اور نوکری کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک پرانے وکٹورین گھر منتقل ہوئیں جہاں فوراً ناگواری کا احساس ہونے لگا جیسے ان کی نگرانی کی جا رہی ہو۔ روشنیاں خود بخود جلنا بجھنا شروع ہو جاتیں اور ان کی بلی کونوں کو دیکھ کر غراتی۔ نینا کہتی ہیں ’میرا خیال ہے منفی ہستیاں لوگوں سے بالخصوص جب وہ مشکل میں ہوں، استفادہ کر سکتی ہیں۔‘

معاملات مزید بگڑتے گئے جب وہ اپنے ہونے والے خاوند سیموئل سے ملیں اور انہیں بھی اپنے ساتھ گھر میں رکھ لیا۔ انہوں نے بوسٹن نامی ایک کتا پال رکھا تھا۔ ایک بار اسے ڈائنگ روم میں بند کرنے کے بعد خود بخود دروازہ کھلا اور پھر ایک مردانہ آواز نے کتے سے مخاطب ہو کر کہا، ’آ جاؤ۔‘ سیموئل نیچے تھے اس لیے نینا نے تنہا دیکھا کہ اس کے کمرے کے کھلے دروازے پر ایک بلند قامت شخص سر پہ ٹوپی رکھے کھڑا تھا۔ گرد سے اٹے شیشے پر درمیان میں ایک ستارے کے ساتھ ایک دائرہ کا عجیب نشان کھینچا گیا۔ شروع میں شکوک و شبہات کا شکار سیموئل بھی بہت جلد یقین کرنے لگے۔

نینا کہتی ہیں مکان پر چھائے سیاہ سایوں اور روز روز کے عجیب و غریب واقعات برداشت کرتے کرتے وہ تنگ آ گئیں۔ ہم شادی کے لیے پیسہ بچا  رہے تھے لیکن خاندان کی مدد قبول کرتے ہوئے اپنے گھر منتقل ہو جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم عاجز آ گئے تھے۔ میں نے سابقہ مالک مکان کو سب کچھ بتایا تو پھر انہوں نے کہا کہ وہ جانتی ہیں گھر میں کچھ ہے اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ جو بھی ہو، انسانوں کو پسند نہیں کرتا۔‘

 نینا اپنے تجربات کے متعلق مکمل طور پر حقیقت پسند ہیں۔ وہ ان کے متعلق سرعام بات کرتی ہیں لیکن اس کا مقصد کسی چیز کا حصول نہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’جب آپ نے براہ راست سب کچھ دیکھا ہو تو بھوتوں پر یقین نہ رکھنا کافی مشکل ہے۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ لوگ کیوں نہیں مانتے۔ ظاہر ہے جو چیز آپ سمجھ نہیں سکتے اور نہ آپ کے تجربے میں آتی ہے اس پر یقین کرنا بہت مشکل کام ہے۔ میرا خیال ہے غالباً اپنے تجربے میں آنی والی کچھ چیزوں کے بارے میں میری دلچسپی بہت زیادہ تھی۔‘

لیکن اصل میں انہوں نے کیا محسوس کیا؟ یہ مافوق الفطرت سرگرمیاں دراصل ہیں کیا؟ جن بھوت سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا یہ مردہ لوگوں کی روحیں ہیں جو کسی بھی وجہ سے زندگی کے بعد جو کچھ ان کا منتظر ہو اس طرف نہیں جاتیں؟ کیا ان مکانوں میں عمر بسر کرنے والوں کی بازگشت خراش زدہ ویڈیو ریکاڈنگز کی طرح ہوتی ہے؟ یا کیا یہ بہت زیادہ فعال تخیل کا نتیجہ ہے؟

اس سوال کا جواب دینا ڈکٹر کالم ای کوپر کا روزگار ہے۔ وہ نارٹھمپٹن یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات میں لیکچرر ہیں اور ان کا زیادہ تر کام نفسیات کی شاخ متوازی نفسیات میں ہے جو مافوق الفطرت واقعات کی توجیہ پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

 اچھا کوپر آپ ایک سائنسدان ہیں۔ نینا کو درپیش تجربات کی کوئی نہ کوئی عقلی وضاحت ہونی چاہیے۔ ٹھیک ہے؟ یہ پہلی غلطی ہے۔ غیر فطری واقعات کو مشکوک نقطہ نظر سے دیکھنے کے باوجود کوپر نینا جیسے لوگوں کی باتوں پر غیر منطقی کی چھاپ لگانا پسند نہیں کرتے۔ 

وہ کہتے ہیں، ’اس کے بجائے میں اسے روایتی منطق کہنے کو ترجیح دوں گا۔‘

ان روز مرہ کے دلچسپ واقعات کو ہی لے لیجیے جیسے فون کی گھنٹی بجنے سے پہلے یہ جان لینا کہ کون فون کر رہا ہے یا ایسا محسوس ہونا کہ کوئی گھور رہا ہے اور مڑ کے دیکھنا تو واقعی کوئی گھور رہا ہوتا ہے۔ کئی جائزوں کے مطابق 70 فیصد سے زیادہ لوگ ان تجربات سے گزرتے ہیں جس کا مطلب ہوا وہ کم تعداد میں نہیں ہیں۔ اس لیے یہ غیر معقول نہیں کہ وہ ان تجربات کو محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت عام ہیں۔ اس لیے ہم ان کے لیے روایتی کا لفظ استعمال کرتے ہیں اگرچہ ایسی چیزیں روایتی سانچے میں پوری طرح نہیں سماتیں لیکن اس کے باوجود یہ بہت عام ہیں۔

’مثال کے طور پر جب وہ کہتی ہیں کہ ’ہم شادی کے لیے رقم اکٹھی کر رہے تھے لیکن پھر خاندان کی مدد قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے گھر منتقل ہو گئے۔ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔‘ یہ ہرگز غیر منطقی نہیں ہے بلکہ بہت معقول ہے، بس روایتی۔ فون کی گھنٹی بجنے سے پانچ منٹ پہلے یہ اندازہ کرنا کہ آپ کی ماں آپ کو فون کرنے والی ہیں اور سر پہ ٹوپی رکھے کسی سائے کو کمرے کے دروازے سے اندر آتے ہوئے دیکھنے میں بہت زیادہ فرق ہے۔

پھر یہ جن بھوت کیا ہیں؟ کئی بار اس سوال کا سامنا کرنے والے کوپر کا کہنا ہے، ’اس کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ بھوت کسے کہتے ہیں۔‘

کوپر 1982 میں قائم کردہ سوسائٹی فار فزیکل ریسرچ کے رکن ہیں جو اپنے کئی دوسرے پیراسائیکالوجسٹ ساتھیوں کے ساتھ اس بات کا جواب فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ بھوت کیا ہیں یا ان لوگوں کو ایسا کیا تجربہ ہوتا ہے جو کہتے ہیں ہم نے انہیں دیکھا ہے۔ 

اس وقت ان کی خصوصی توجہ موت سے متعلق مافوق الفطرت تجربات کی طرف ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق کسی پیارے کی جدائی کے صدمے سے گزرنے والے 50 سے 60 فیصد لوگوں کو ایسے تجربات ہوتے ہیں جنہیں ہم مافوق الفطرت سے منسوب کرتے ہیں۔ کوپر کہتے ہیں، ’میرے خیال میں ایک تو یہ امید پیدا کرتے ہیں جو ہماری اہم ترین ادراکی قوت ہے۔ یہ مایوسی کے لمحات میں آگے بڑھنے اور راستہ تلاش کرنے میں مدد کرتے ہیں کہ کیسے کسی چیز پر اتفاق کر کے اس کے حصول کی جدوجہد کرنی ہے۔‘

لہٰذا ان تجربات نے لوگوں کو احساس دلایا کہ ان کے حق میں کچھ اور چیزیں بھی ساتھ چل رہی ہیں اور وہ یہ سوچتے ہوئے پیش رفت جاری رکھتے ہیں ’اچھا وہ کسی نہ کسی طرح ابھی تک میری نگرانی کر رہے ہیں۔ یا وہ ابھی بھی میرے ساتھ ہیں تو میں آگے بڑھ سکتا ہوں، میں اہداف مقرر کر سکتا ہوں، میں لوگوں سے میل جول رکھ سکتا ہوں۔ مجھے اپنی زندگی کی بنیاد ان کے بغیر نئے سرے سے رکھنی ہے۔ اس طریقے سے کئی لوگوں نے مقابلہ کرتے ہوئے معاملات سدھار لیے۔‘

کیا اس کا مطلب ہے تمام بھوت دماغ کی پیداوار ہیں؟ کوپر کی موت سے متعلق تھیوری نینا کی نانی کی موت اور اس کے زیر اثر تجربات سے تو بالکل مطابقت رکھتی ہے لیکن اس سے پہلے اور بعد میں جو ہوا اس سے نہیں۔

مختصر جواب یہی ہے کہ باقی بہت سے سائنسی مضامین کی طرح نفسیات کے پاس بھی ابھی تک تمام سوالات کا جواب نہیں ہیں۔ لیکن مافوق الفطرت تجربات پر سائنسی طریقے لاگو کرنے کا مطلب ہے آپ نے غیر اعتقادی منزل سے سفر آغاز کیا۔

کسی بھی ایسے واقعے کو لے لیجیے۔ مثال کے طور پر ایک ایسی میز سے پیالی کا گرنا جس کے نزدیک کوئی نہیں۔ ممکن ہے اسے دیکھتے ہی فوراً کچھ لوگ کہیں کہ بھوت پریت کا کام ہے۔ کوئی اور وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ یہی وہ بات ہے جسے کا نفسیات دانوں نے کھوج لگانا ہے۔ اس کام کے لیے وہ ’اوکمز ریزر‘ (Occam’s Razor) کی تھیوری لاگو کریں گے جس کے مطابق کسی بھی واقعے کی بہترین وضاحت بالعموم وہی ہوتی ہے جو سادہ ترین ہوتی ہے۔

اس لیے سائنسی نقطہ نظر کے مطابق ہمارے فرضی پیالے کی توجیہات کچھ یوں کی جا سکتی ہیں کہ میز کے نیچے پڑی کرسی پر بیٹھی بلی نے کپ گرایا یا میز ڈھلوانی سطح پر رکھا تھا یا ساتھ کچن میں چلتی واشنگ مشین کے ارتعاش کے سبب پیالہ کونے کی طرف سرکتا گیا۔ کسی سائنس دان کو یہ عمل کسی مردہ شخص کی بدروح کے ذمے لگانے سے پہلے بے شمار سائنسی نظریات کو غلط ثابت کرنا پڑے گا۔

کوپر کہتے ہیں، ’کسی بھی شعبے کے سائنس دان کو متشکک ہونا چاہیے۔ آپ جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں اس کی جانچ پڑتال اور تنقیدی انداز میں دیکھنا ضروری ہے۔ جب آپ کوئی تجربہ کرنے اس نیت سے بیٹھتے ہیں کہ آپ نے اسے غلط ہی ثابت کرنا ہے تو پھر فراڈ کے سامنے رکاوٹ بنتی حسی صلاحیت کو پابند کر کے آپ کیا تجربہ کرسکتے ہیں۔ اگر انوکھا پن پھر بھی برقرار رہے تو یہ مزید توجہ کے قابل ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سائنسدان کی لازمی تشکیک ہمیشہ بے نقاب کرنے کی غرض سے ہو جس کی ایک مثال اس مہینے مرنے والے جیمز رینڈی تھے۔ یقیناً گذشتہ صدی میں یہی خیال تھا کہ جو شخص مافوق الفطرت تجربات بتاتا ہے وہ ان پڑھ یا کند ذہن ہی ہو گا۔

فزیکل ریسرچ سوسائٹی کے 1930 کی دہائی میں سربراہ اور کوپر کے سینئر ڈاکٹر والٹر فرینکلن پرنس نے 1928 میں اس نقطہ نظر کو غلط ثابت کرنے کے لیے Noted Witnesses For Psychic Occurrences نامی کتاب لکھی ۔ کوپر کہتے ہیں، ’ان کا خیال تھا یہ بات بالکل بے تکی ہے۔ انہوں نے پولیس افسروں، ججوں، قانون دانوں، میڈیکل ڈاکٹروں اور نرسوں کے انٹرویو کیے۔ وہ یہ ثابت کرنے کے لیے معاشرے کے تمام معزز طبقوں سے ملے کہ ہر سطح کے لوگ ایسے تجربات کا شکار ہوتے ہیں۔‘ 

اگرچہ کوپر موت سے متعلق مافوق الفطرت تجربات پر کام کر رہے ہیں لیکن وہ کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ لوگوں کی دیکھی سنی ہر چیز کی وضاحت وہ نہیں کر سکتے۔

 وہ کہتے ہیں، ’ان مختلف لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے جو آپ کے غم میں شریک نہیں ہیں لیکن انہوں نے بھی ایسے واقعات دیکھے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص گیس کا میٹر چیک کرنے آتا ہے اور وہ بھی سایہ دیکھتا ہے تو اس کے متعلق کیا کہا جائے؟ پھر ہو کیا رہا ہے؟ ایک جائزہ ایسا بھی منعقد کیا گیا جس میں تجہیز و تکفین کے انتظامات کرنے والوں اور بھوت پریت کے معاملے کو دیکھا گیا۔ وہ جائزہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ متعلقہ میت سے کسی قسم کا کوئی جذباتی تعلق نہ ہونے کے باوجود انہوں نے روحیں دیکھیں۔‘

متوازی نفسیات کے پاس تمام سوالات کے جواب نہیں ہیں لیکن یہ درست سوالات اٹھانے کی کوشش ضرور کر رہی ہے۔ کوپر مفروضہ آسیب زدہ جگہوں پر کئی بار تحقیق کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹی وی شو ’موسٹ ہانٹڈ‘ کی طرح نہیں ہے جس میں نائٹ وژن کیمرے میں بہت سے سائے حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں سی سی ٹی وی والے کمرے میں نوٹ پیڈ لے کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ابھی تک انہیں کوئی ایسا تجربہ نہیں ہوا جس پر وہ اوکمز ریزر کا نظریہ لگا کر اس غیر متوقع نتیجے پر پہنچیں کہ جو کچھ ہوا وہ روح نے کیا۔ لیکن ہر حال میں اس کا مطلب یہ نہیں کہ چیزیں 10، 20 یا 50 سال میں تبدیل نہ ہوئی ہوں۔

 وہ کہتے ہیں، ’جب نفسیاتی تحقیق کے ادارے کا آغاز ہوا تو مرکز تحقیق سحر زدہ اور مدہوش ہونا تھا لیکن اب یہ ہمارے دائرہ کار کا حصہ نہیں۔ اب ہم ایما پذیری اور اس کے لوگوں پر اثرات سے واقف ہیں۔ یہی معاملہ خوابوں کا ہے۔ ہم آج بھی پوری طرح نہیں جانتے کہ لوگ خواب اور پیشگی آگاہی کے خواب کیوں دیکھتے ہیں۔ لیکن بتدریج یہ نفسیات اور متوازی نفسیات کا موضوع بن گئے۔‘

آخرکار کیا سائنس بھوت پریت کا وجود ثابت کرسکتی ہے؟ کوپر کہتے ہیں، ’ثابت کرنا بہت بڑا لفظ ہے جو استعمال کرنے پہ سائنس آمادہ نظر نہیں آتی۔ یہ کسی چیز کے ثبوت کی تلاش اور اس کے بعد اس کے عدم یا وجود کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘

ہم نے بھوت پریت اور مافوق الفطرت واقعات پر طویل مدت سے یقین کیا شاید تب سے جب سے ہم اس کرہ ارض پر موجود ہیں۔ لیکن وکٹورین عہد کے لوگوں کا شکریہ کہ ہم نے اسے گہرائی میں دیکھنا شروع کیا۔

 برمنگھم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی محقق ایملی ونسنٹ 19ویں صدی کی خواتین مصنفین کی ڈراؤنی کہانیوں پر تحقیق کر رہی ہیں کہ کیسے وہ اپنے عہد کی روحانیت کے متوازی اپنا راستہ وضع کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے، ’انیسویں صدی میں جنّوں کے متعلق کہانیوں میں اضافہ روحانیت کی نئی مذہبی تحریک کے ابھرنے سے ہوا جس میں کسی زندہ شخص کی استدعا پر بالعموم محفل کشف کے دوران روحانی شخص مردے سے کلام کیا کرتا تھا۔ یہ تحریک متوسط طبقے میں بہت تیزی سے مقبول ہوئی اور الزبتھ بیرٹ براؤنگ اور ملکہ وکٹوریہ سمیت کئی نامور وکٹورینز کو بھی متاثر کیا۔ بلکہ یہ افواہ بھی گردش میں رہی کہ ملکہ وکٹوریہ محفل کشف کی میزبان ہوتی تھیں۔ جیسے جیسے کشف کی ایسی محفلیں عوامی مقامات سے گھروں کی چار دیواری میں منتقل ہونا شروع ہوئیں گھروں میں مافوق الفطرت آسانی سے میسر ہونے لگے۔‘

ونسنٹ کے بقول شرلاک ہومز کے مصنف سر آرتھر جانن ڈوئل جیسےادیبوں  نے بہت جوش و خروش سے روحانیت کا دفاع کیا اور عوام میں مافوق الفطرت اعتقادات مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈوئل نے بکثرت بھوت پریت پر اپنے پرجوش اعتقاد کی تصویر کشی کی اور محفل کشف کے تجربات پر مضامین لکھ کر مجموعے کو روحانیت کی تاریخ کے نام سے چھپوایا۔ 

وہ کہتی ہیں: ’روحانی کتابوں اور اخبارات کا پھیلاؤ، روحانی شخصیات کی فراوانی اور جنّوں کے متعلق کہانیوں کی بڑے پیمانے پر مقبولیت مثلاً ڈکنز کے ناول ’کرسمس کیرل‘ کا مطلب تھا وکٹورین عہد کے لوگوں نے بھوت پریت کے وجود کی مخالفت میں نہیں سوچا۔‘

وکٹورین دور صنعتی ترقی کا دور تھا جیسے آج ہمارا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ پھر کیوں عظیم سائنسی ترقی کے عہد میں مافوق الفطرت اعتقادات نہ صرف موجود ہیں بلکہ پھیل رہے ہیں؟

ونسنٹ اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’19ویں صدی کی طرح آج بھی مافوق الفطرت روزمرہ زندگی کے نامانوس اور حوصلہ شکن تجربات کا نتیجہ ہے۔ آج ہم مقامی اور عارضی حد بندیوں کو نظر انداز کر کے عجیب و غریب ٹیکنالوجیوں کو بطور بھوتوں کا عکس دیکھ سکتے ہیں جو ہماری روز مرہ زندگی کو آسیب کی طرح چمٹی ہوئی ہیں۔ ہم آئی فون یا زوم پہ معجزاتی طور پر مختلف وقت میں سانس لیتے بہت دور دراز بیٹھے شخص سے بات کر سکتے ہیں بالکل جیسے وکٹورین عہد کے لوگ محفل کشف کی ٹیکنالوجی کی مدد سے ان لوگوں سے بات کرتے تھے جو ان کے دائرے سے باہر جا چکے تھے۔ مواصلات مافوق الفطرت عقیدے کے مرکز میں ہے۔ جیسے اکیسویں صدی میں ہماری ڈیجیٹل مواصلات سے گہری وابستگی ہے اسی طرح تب وہ لوگ بھی مواصلات کی سرحدیں پھیلانگ کے دوسری دنیا تک رسائی چاہتے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں، ’وکٹورین عہد میں فزیکل ریسرچ کا ایک حیران کن رجحان یہ بھی تھا کہ نہایت عقلیت پسند سائنس دانوں نے بھوتوں کے متعلق مشاہداتی جانچ پرکھ کے ذریعے مافوق الفطرت مظاہر کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ سائنسی انداز نظر سے غیر فطری واقعات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بھوتوں کو زندہ انسانوں کا سایہ کہا اور آسیب زدہ گھروں کو ان سایوں کی آماجگاہ کا نام دیا۔ آج ممکن ہے یہ ٹی وی شو موسٹ ہانٹڈ کی کوئی قسط لگے لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ نہایت عقلیت پسند انسان بھی دوسری دنیا کے اعتقادات کو تھیوری کی شکل میں پیش کرنا دلچسپ محسوس کرتے ہیں۔‘

ونسنٹ اور کوپر دونوں کا ذکر کردہ موسٹ ہانٹڈ شو 2002 میں شروع ہوا اور لاکھوں خواہشمندوں کے لیے بھوتوں کو ٹی وی سکرین پر لے آیا۔ سابقہ بلیو پیٹر پریزنٹر یوئیٹ فیلڈنگ اور ان کے خاوند کارل بیٹ کا تیار کردہ یہ شو 23 سیزنوں تک چلا۔ اس کی غیر فطری تحقیقات کی پوری ٹیم تھی جس میں روحانی شخصیت ڈیرک ایکورا بھی شامل تھے جنہوں نے ملکی اور غیر ملکی معروف بھوت بنگلوں میں کئی بھرپور راتیں گزاریں۔ 

فیلڈنگ کہتی ہیں: ’جی ہاں، میں بھوتوں پر یقین رکھتی ہوں۔ میں ہمیشہ تھوڑا بہت خوفزدہ لیکن ماورائی چیزیوں کے متعلق تجسس سے بھری ہوتی تھی۔ میں ڈراؤنی فلموں سے بالکل ہی لطف نہیں اٹھا سکی۔ میں گھر جاتی، تمام بلب روش کرتی اور لحاف میں پسینے سے بھیگ جاتی۔ جب کارل اور میں نے ٹی وی شو کا خیال سوچا جس میں ہم بھوتوں کا پیچھا کریں گے تو مجھے بہت اچھا لگا لیکن ساتھ ساتھ خوف کے مارے بری حالت تھی۔‘

 لیکن وہ ایک مخصوص واقعہ تھا جس نے انہیں ماورائی وجود کا قائل کر دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’میں نے اس وقت یقین کرنا شروع کیا جب میں نے تین دوسرے لوگوں کے ساتھ بغیر جسم والی دو ٹانگوں کو ڈروری لین لندن کے رائل تھیئٹر کی مرکزی سیڑھیوں پر اوپر جاتے دیکھا۔ ہم سب ادھر ہی ساکت ہوگئے اور بری طرح خوفزدہ ہو گئے۔ جیسے ہی عجیب و غریب بھوت اوجھل ہوا ہم بھاگ کھڑے ہوئے۔ بیس سال پہلے کا وہ واقعہ اور اب غیر فطری وجود کے بارے ہزاروں تحقیقات کے بعد میں کہہ سکتی ہوں کہ میرے خیال میں مختلف وجوہات کی بنا پر ہم جن بھوت دیکھتے ہیں۔‘ 

بھوت پریت کا وجود ’ثابت‘ کرنے کے لیے موسٹ وانٹڈ نائٹ ویژن کیمرے اور کولڈ سپاٹ سینسرز استعمال کرتا ہے، لیکن کوپر اس سے گریز کرتے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں شو کبھی حتمی طور پر بھوتوں کا وجود ثابت نہیں کر سکا، مگر ایویٹ چیلنج کرتی ہیں کہ کوئی ان کی تحقیق کو غلط ثابت کر دکھا دے۔ 

وہ کہتی ہیں، ’میں نے بہت ساری ایسی چیزیں دیکھی ہیں میں جن کی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ وہ منظر ہوتا ہے جب کسی تفتیشی ساتھی کو جسمانی نقصان پہنچتا ہے۔ جسم پر جلنے کے نشانات یا کھال پر خراشیں بہت دلخراش ہوتی ہیں اور میں خود سے سوال کرتی ہوں کہ یہ میں کیا کر رہی ہوں؟ ایسے منفی تجربات کے بعد رات کو اچھی نیند کے لیے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ بعض اوقات میں چرچ جا کر برکت حاصل کرتی ہوں۔‘

 فیلڈنگ کے لیے اپنے شو موسٹ ہانٹڈ میں سائنسی ساز و سامان سب سے اہم چیز نہیں تھی جو آج موسٹ ہانٹڈ ایکسپیرئنس کے نام سے جاری ہے جس میں لوگ پیسوں کے بدلے عملے کی تحقیقات کا حصہ بنتے ہیں۔

 وہ کہتی ہیں، ’میں مافوق الفطرت چیزوں کو نئے زاویوں سے جاننے میں دلچسپی رکھتی ہوں۔ بہت سے لوگ کئی آلات استعمال کرتے ہیں لیکن میں اپنی حسیات کو ترجیح دیتی ہوں۔ لیکن میں ای وی پی (Electronic voice phenomena ) کے استعمال کو پسند کروں گی۔ جو سازوسامان ہم استعمال کرتے ہیں میرے لیے ان میں وہ سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔ میں چاہتی ہوں سائنسدان غیرفطری مظاہر کو زیادہ سنجیدگی سے لیں۔ میں نے بہت سے صوتی مظاہر ریکارڈ کیے ہیں جو پختہ یقین کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمیں سائنسدانوں کی ضرورت ہے جو ریکارڈنگ کو سنیں بلکہ تحقیقات میں ہمارا ساتھ دیں۔ میرے لیے یہ بہت اہم ہے۔ موسٹ ہانٹگ ایکسپیریئنس کی ملک میں بنیاد اسی لیے رکھی تاکہ امریکہ کے لوگ مجھے اور میری ٹیم کو جوائن کر سکیں اور دیکھیں کہ یہ محض ٹی وی شو نہیں بلکہ اصلی ہے اور مظاہر بھی حقیقی ہیں۔‘

جب ہم انتہائی چھوٹے مالیکیول اور دور دراز کے سیاروں کو ہم دیکھ سکتے ہیں اور سائنس اپنی بلند ترین حدود کو چھو رہی ہے، ایسے عہد میں بھوت پریت پر یقین بہت عجیب و غریب چیز ہے۔ جو اسے رد کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ثبوت کے بغیر اسے کبھی قبول نہیں کر سکتے۔ لیکن مافوق الفطرت مظاہر کی تحقیق کے لیے مخصوص سائنس تک یہ کہتی ہے کہ ایسی غیر مرئی ناقابل گرفت چیزوں کے ثبوت تو بہت دور یہاں تک کہ ان کی وضاحت ناممکن ہے۔

ونسنٹ کہتی ہیں، ’ذاتی طور پر میں بھوت پریت پر یقین نہیں رکھتی۔ لیکن وکٹورین عہد کے مافوق الفطرت مظاہر کی تحقیق اور انیسویں صدی کی روحانیت نے مجھے ان لوگوں کا ہمدرد بنا دیا ہے جو ماضی میں یا آج بھوت پریت پر یقین رکھتے ہیں۔ میرے لیے روحوں پر یقین کے برے مضمرات سے زیادہ اہم اس کے پیچھے موجود اچھے ارادے ہیں۔ مافوق الفطرت پر یقین رکھنے والے اکثر لوگ زندہ اور مردہ کا فاصلہ مٹانے کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ وہ کھوئے ہوئے لوگوں سے جڑ سکیں اور موت کے بعد زندہ رہنے کے خیال سے وجودی تسکین پا سکیں۔‘

 فیلڈنگ کہتی ہیں، ’میرا خیال ہے ہوشیار لوگوں کا غیر مرئی تجربات کے حامل افراد کو مسترد کرنا یا مذاق اڑانا غلط ہے۔ دیکھنے کا مطلب یقین کرنا ہے اور جب تک وہ ایسے تجربے سے خود گزر نہ لیں انہیں اتنی جلدی شک کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ موسٹ ہانٹڈ کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے میں زندگی بعد از موت پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ میرا خیال تھا جب آپ مر گئے تو مر گئے اور اب محض زیر زمین مٹی ہیں۔ میں ایک خوش باش انسان تھی لیکن موت کا خوف کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا۔

’اب جبکہ میں بے شمار بھوتوں کو دیکھ اور ان کی آوازیں سن چکی ہوں تو میں بغیر کسی شک کے جانتی ہوں کہ ہم یہاں سے کہیں اور جاتے ہیں اور اس علم نے میری زندگی میں خوشگوار تبدیلی پیدا کی ہے۔ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ توانائی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ہم مرتے نہیں ہمارا شعور زندہ رہتا ہے۔ ذاتی طور پر میں اس سفر کے لیے بے چین ہوں لیکن ابھی نہیں۔‘ 

نینا کا معاملہ کیا ہوا جو مردہ لوگوں کو دیکھتی ہیں اور ایک چوتھائی صدی سے ایسا کرتی آ رہی ہیں؟

ان کے تجربات کو کوئی سائنس واضح نہیں کر سکتی اور انہیں اس بات پر کوئی شکوہ نہیں۔ جو کچھ انہوں نے سنا اور دیکھا وہ جانتی ہیں اور جو ان کی بات ماننے سے انکار کرتے ہیں ان کے لیے ان کی طرف سے ایک پیغام ہے۔

’میں کہوں گی یہ آپ کی مرضی ہے کہ نہ تسلیم کریں اور میں اس کا احترام کرتی ہوں لیکن جب آپ پر کوئی ایسی چیز گزرے جس کی وضاحت نہ کی جا سکے تو یہ بات آپ کو تبدیل کر دیتی ہے۔ میرا خیال ہے اس زندگی اور زمین پر اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو ہماری آنکھ دیکھتی ہے اور اگر ہم خود کو اس کے لیے تیار کر سکیں تو اچھے برے ہر طرح کے تجربات حاصل کر سکتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق