جب سلمان خان کو بی گریڈ فلموں کے ہدایت کار نے دھکے دے کر نکلوایا

سلمان خان آج بالی وڈ کے کامیاب ترین اداکاروں میں سے ایک ہیں لیکن ان کے کیریئر کا آغاز دھکے کھانے سے ہوا۔

سلمان خان اور بھاگیشری فلم میں نے پیار کیا میں (راج شری پروڈکشنز)

16، 17 سال کے خوبرو اور پرکشش نوجوان کی بغل میں فائل دبی تھی جس میں اس کی ماڈلنگ کی مختلف تصاویر تھیں اور وہ بالوں میں کسی ہیرو کی طرح ہاتھ پھیرتے ہوئے ہدایت کار آنند گردھار کے سامنے بیٹھا تھا۔

بی گریڈ فلموں کے ہدایت کار نے نوجوان کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے کہا، ’میری فلم میں تمہارے لیے کوئی کردار نہیں ہے۔‘

نوجوان نے مایوسی اور نامیدی کے عالم میں آنند گردھار کے کمرے میں لگے ہوئے ان فلمی پوسٹروں کوٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا جو ہیجان خیزی کی رنگین داستان بیان کررہے تھے۔ ہدایت کار سستی اور بی گریڈ فلمیں بنانے کی وجہ سے خاصے بدنام تھے۔ بے آبرو اور بد نصیب کے بعد وہ ’بدنام‘ بنانے جا رہے تھے جس میں کام کرنے کی آرزو لیے یہ نوجوان آیا تھا۔

آنند گردھار نے بے زاری کے عالم میں نوجوان کو بتایا کہ انہیں سکول ٹیچر کے کردار کے لیے کسی پختہ عمرکے اداکار کی تلاش ہے اور وہ کسی صورت اس میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ نوجوان نے اس جواب پر جھٹ پٹ فائل کھول کر اپنی تصاویر دکھانی شروع کر دیں۔ وہ پرعزم انداز میں کہہ رہا تھا، ’یہ دیکھیں سر۔۔ میں نے ماڈلنگ دو تین کمرشلز میں کی ہے۔ ان کی تصاویر دیکھیں۔ آپ کو ضرور پسند آئیں گی۔‘

اب ہدایت کار کا بلڈ پریشر ہائی ہونے لگا تھا۔ انہوں نے ناگواری کے ساتھ کہا، ’تمہارے اگر میں داڑھی مونچھیں بھی لگا دو نا تب بھی تم اس کردار کے لیے مناسب نہیں۔۔ جاؤ۔ کوئی فلم ہوئی تو بلا لوں گا تمہیں۔‘

نوجوان گڑگڑانے کے انداز میں بولا، ’سر مجھے صرف ایک بریک دے دیں۔ یقین جانیں میں مایوس نہیں کروں گا۔‘

آنند گردھار کی اب برداشت کی حد پار ہونے کو تھی۔ انہوں نے انتہائی تلخ لہجے میں کہا، ’تم سلیم خان کے لڑکے ہو نا؟‘ لڑکے نے اثبات میں سر ہلایا۔ ہدایت کار کا غصہ بتدریج بڑھنے لگا تھا۔ ’اپنے ابا سے کہو کہ وہ کریں تمہارے لیے کوششیں۔ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اب فوراً نکل لو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوجوان تو جیسے قسم کھا کر آیا تھا کہ آج بی گریڈ کی کسی نہ کسی فلم میں ضرور کام لے کر جائے گا۔ وہ گویا ہوا، ’سر صرف ایک چانس دے دیں۔‘

آنند گردھار نے کوئی جواب دینے سے پہلے گھنٹی بجائی۔ نوجوان سمجھا کہ وہ ضرور کسی اسٹنٹ کو بلا رہے ہیں۔ دروازہ کھول کر جب چپڑاسی آیا تو ہدایت کار نے غصے میں کہا، ’اسے نکالو کمرے سے۔ آئندہ یہ نظر نہ آئے آفس کے آس پاس۔‘ چپڑاسی جو اس کام میں ماہر لگتا تھا، یکدم آگے بڑھا اور نوجوان کو کندھے سے پکڑ کر کرسی سے اٹھا کر باقاعدہ دھکے دے کر کمرے سے نکال دیا۔

معمولی سے کردار کی بھیک مانگنے والا یہ نوجوان کوئی اور نہیں سلمان خان تھا۔ مشہور سکرین رائٹر سیلم خان کا بیٹا۔ انہیں ابتدا سے ہی اداکاری کا شوق رہا۔ پروڈکشن ہاؤسز کے چکر لگاتے اور صرف ایک کردار کے لیے حصول کے لیے پورا دن بسوں میں لٹک کر ایک سٹوڈیو سے دوسرے کا سفر طے کرتے۔

اس واقعے کے کچھ دنوں بعد یعنی 1987 میں وہ ایک بار پھر ہدایت کار جے کے بہاری کے دفتر میں موجودتھے جو فلم ’بیوی ہو توایسی‘ میں فاروق شیخ کے چھوٹے بھائی کے لیے مختلف اداکاروں کا انتخاب کررہے تھے مگر ہر کوئی انہیں مایوسی کرتا جا رہا تھا۔

ایسے میں انہوں نے اپنے اسٹنٹ کو بلا کر باقاعدہ جھلا کر کہا، ’اب جو بھی آئے گا میں اس احمق کو کاسٹ کر لوں گا کیونکہ باقیوں نے میرا دماغ خراب کر دیا ہے۔‘

سلمان خان کی خوش قسمتی ہی کہیے کہ اگلی باری انہی کی تھی جنہیں ہدایت کار جے کے بہاری نے اپنی بات کا پاس رکھتے ہوئے سائن کر لیا۔ سلمان کی خواہش تو پوری ہو گئی لیکن عکس بندی کے دوران یہ غم سہنا پڑا کہ فلم میں ان کے مناظر پر کوئی اور اپنی آواز استعمال کرے گا۔

مگر سلمان خان اسی پر خوش تھے کہ کم از کم فلم تو مل گئی۔ لیکن یہ خوشی بھی اُس وقت مایوسی میں بدل گئی جب ’بیوی ہو تو ایسی‘ نمائش پذیر ہوئی تو سلمان خان کے بیشتر مناظر ایڈنٹنگ کے دوران نکال باہر کر دیے گئے، بالکل ایسے ہی جیسے آنند گردھار نے انہیں دفتر سے نکال باہر کیا تھا۔ یعنی وہ فلم میں ہوتے ہوئے بھی نہیں تھے۔

اس مایوسی کے لگ بھگ آٹھ نو ماہ تک ان کے پھر پروڈکشن ہاؤسز پریڈ شروع ہو گئی۔ گویا جہاں سے سفر شروع کیا تھا وہیں آ کھڑے ہوئے تھے۔ اس دوران ماڈل اور اداکارہ سنگیتا بجلانی سے ان کی دوستی بڑھی اور وہ ان کے ساتھ مختلف فلمی تقریبات میں نظر آنے لگے اور سنگیتا بجلانی کے بوائے فرینڈ کے طور پر شناخت کیے جاتے لیکن فلمیں پھر بھی نہ ملیں۔

 سلمان خان کی خوش قسمتی ہی کہیے کہ 1989 کے اوائل میں راج شری فلمز نئی فلم ’میں نے پیار کیا‘ کے ذریعے نوجوان سورج برجاتیہ ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھنے جا رہے تھے۔ چونکہ وہ خود نوجوان تھے تو کہانی بھی نوجوان جوڑے کے پیار و محبت کی تھی۔ سلمان خان کا نام ایڈ ڈائریکٹر شبانہ نے تجویز کیا جو ان کے ساتھ ایک اشتہار میں کام کر چکی تھیں۔ سلمان کا معصومانہ انداز‘ سادگی اور سب سے بڑھ کر نوجوان ہونا اس کردار کے لیے آسانیاں پیدا کر گیا اور پھر سب نے دیکھا کہ ’میں نے پیار کیا‘ سنیما گھروں کی زینت بنی تو اس کے گانے، بھاگیہ شری اور سلمان خان کی اداکاری اور کہانی نے جیسے کھڑکی توڑ کامیابی دلائی۔

کیا یہ اعزاز کم تھا کہ اگلے سال ہونے والے فلم فئیر ایوارڈز میں اس فلم نے مختلف شعبوں میں 12 نامزدگیاں حاصل کیں، جبکہ ان میں سے چھ ایوارڈز کی حقدار ٹھہریں۔ سلمان خان کو بہترین نیا چہرہ کے ساتھ بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی ملا۔

لیکن اگر سلمان یہ سمجھے ہوں کہ ان کا کیریئر پٹری پر چڑھ گیا ہے تو یہ ان کی خوش فہمی ہی کہی جا سکتی ہے کیوں کہ ’میں نے پیار کیا‘ کی ریلیز کے بعد سلمان خان سپر اسٹار تو بن گئے مگر کم و بیش 11 مہینے تک انہیں کسی فلم میں کاسٹ ہی نہیں کیا گیا۔ وہ ذہنی پریشانیوں کا شکار ہونے لگے، مایوسی اور ناامیدی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔

اس مرحلے پر والد سلیم خان نے خالصتاً فلمی چال چلی۔ رمیش سپی کے والد جی پی سپی سے مل کر انہیں یہ مشورہ دیا کہ وہ فلم نہ بنائیں لیکن صرف یہ فرضی اعلان کر دیں کہ سلمان خان کو انہوں نے اپنی نئی فلم میں شامل کر لیا ہے، سپی فلمز بڑا نام تھا اور یہ اعلان ہو جائے گا تو سلمان خان دوسرے پروڈیوسروں اور ہدایت کاروں کی نگاہوں میں آ جائیں گے۔

جی پی سپی نے سینیئر قلم کار سلیم خان کی بات کا مان رکھتے ہوئے ’پتھر کے پھول‘ بنانے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ سلمان خان اس فلم کے ہیرو ہوں گے۔ فلمی دنیا زیادہ تر بھیڑ کی چال چلتی ہے، چنانچہ سلمان خان جو کامیاب فلم کے باوجود پس پردہ چلے گئے تھے، اچانک ہی خبروں میں آ گئے اور پروڈیوسروں نے دھڑا دھڑ انہیں کاسٹ کرنا شروع کر دیا۔

’پتھر کے پھول‘ جو صرف اعلان کی حد تک تھی، سلمان خان کی اسی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر فرضی اعلان سے حقیقت کا روپ بھی دھار گئی اور سلیم خان ہی نے اس کی کہانی لکھی اور اس میں مرکزی کردار سلمان خان ہی نے ادا کیا۔ 

اسی ماسٹر سٹروک سے سلمان خان کی کامیابی اور کامرانی کا وہ دور شروع ہوا، جو آج تک آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔

سلمان خان اعتراف کرتے ہیں کہ اگر ہدایت کار آنند گردھار اُ س دن دھکے دے کر انہیں اپنے دفتر سے نہ نکالتے تو ممکن ہے ان کا سفر بی گریڈ فلموں تک ہی محدود ہو کر ختم ہو جاتا کیونکہ سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ فیصلہ کر چکے تھے کہ اب مزید محنت اور جستجو کرنی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم