ایران نے جوہری مذاکرات میں شامل کرنے کا سعودی مطالبہ مسترد کردیا

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ہفتے کے روز یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے موقع پر سعودی حکومت سے مکمل مشاورت کی جائے۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی جانب سے  مذاکرات کے موقع پر سعودی حکومت سے مکمل مشاورت  کا مطالبہ ایرانی  وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے مسترد کردیا۔(فائل تصویر: اے ایف پی)

ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر ہونے والی کسی بھی ممکنہ گفت و شنید اور مذاکرات کے لیے سعودی عرب کی طرف سے خلیجی ریاستوں کی شمولیت کے مطالبے کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ہفتے کے روز یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے موقع پر سعودی حکومت سے مکمل مشاورت کی جائے۔

ان کا یہ مطالبہ پیر کو ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے مسترد کردیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ہر کسی کو بات کرنے کی آزادی ہے ، لیکن بہتر ہے کہ وہ اپنی سطح سے اوپر بات نہ کریں تاکہ وہ خود کو شرمندہ نہ کریں۔'

واضح رہےکہ امریکہ کے حال ہی میں منتخب کردہ صدر جو بائیڈن نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ امریکہ 2015 کے اس جوہری معاہدے میں واپس شمولیت اختیار کر لے گا، جے سی پی او اے کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ معاہدہ 2018 سے اس وقت سے آخری سانسیں لے رہا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف 'زیادہ سے زیادہ دباؤ' کی مہم کے سلسلے میں اس سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ سے پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

2019 کے بعد سے ایران پابندیوں کے جواب میں آہستہ آہستہ اہم جوہری بندشوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ایران معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عمل کو یقینی نہ بنانے کو یورپ کی ناکامی قرار دیتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تہران نے موقف اختیار کر رکھا ہے کہ اگر معاہدے کے دوسرے فریق اپنے وعدے پورے کرتے ہیں تو معاہدے کی بندشوں پر مبنی شقوں کو بحال کیا جاسکتا ہے۔

سعودی عرب میں معروف شیعہ عالم دین کی پھانسی کے بعد ایران میں سعودی سفارت خانے پر مظاہرین کے حملے کے بعد سے ہی ریاض نے تہران سے تعلقات منقطع کر رکھے ہیں۔

دونوں ممالک شام سے یمن تک کے تنازعات میں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔

گذشتہ سال خلیج میں ٹینکروں پر سلسلہ وار حملوں کے بعد دونوں ممالک کے مابین دشمنی اور گہری ہوگئی۔ ایران کی ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کے باوجود واشنگٹن نے ان کارروائیوں کا الزام تہران پر عائد کیا تھا۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے جوہری معاہدے کی تجدید کے خلاف ایران کے موقف کا اعادہ کیا اور کہا کہ 'جے سی پی او اے پہلے ہی لکھا جا چکا ہے۔'

انہوں نے جرمنی کی جانب سے اس معاہدے میں توسیع کی حالیہ درخواست کو بھی مسترد کردیا جو برطانیہ، چین، فرانس اور روس کے ساتھ اس معاہدے کا حصہ ہے۔

خطیب زادہ کا کہنا ہے کہ 'ایران اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اس پر کوئی گفت و شنید کی جائے گی۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ ' ہمیں امید ہے کہ یورپ اپنی جگہ جانتا ہے اور اسے یہ جان لینا چاہیے کہ جو کام زیادہ سے زیادہ دباؤ کے ذریعے حاصل نہیں ہوسکتا، وہ دوسرے ذرائع سے بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔'

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا