ایران سے مذاکرات میں ہم سے بھی مشورہ کیا جائے: سعودی وزیر خارجہ

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو امریکہ اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والی کسی بھی بات چیت میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔

شہزادہ فیصل بن فرحان بحرین میں ’منامہ ڈائیلاگ‘ کے نام سے ہونے والی سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو امریکہ اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والی کسی بھی بات چیت میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔

نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ہفتے ہی عندیہ دیا ہے کہ وہ اگلے ماہ صدر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالنے کے بعد 2015 کے جوہری معاہدے (جے سی پی او اے) میں دوبارہ امریکہ کی واپسی کے لیے اقدامات کریں گے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کو یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے نکال لیا تھا۔

بحرین میں ’منامہ ڈائیلاگ‘ کے نام سے ہونے والی سکیورٹی کانفرنس سے ہفتے کو اپنے خطاب میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا: ’بنیادی طور پر ہم جو توقع کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم سے پوری طرح سے مشاورت کی جائے۔ ایران کے ساتھ ہونے والے کسی بھی براہ راست مذاکرات کے حوالے سے ہم سے اور ہمارے علاقائی دوستوں سے صلاح مشورہ کیا جائے۔ کسی ایسے پائیدار معاہدے تک پہنچنے کا واحد راستہ اسی طرح کی مشاورت سے ہی ممکن ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں ہم نے جے سی پی او اے کے بعد کے اثرات کے نتائج دیکھے ہیں کہ علاقائی ممالک کو شامل نہ کرنے کے نتیجے میں عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے اور حقیقی تشویش اور خطے کی سلامتی پر پڑنے والے حقیقی اثرات نظر انداز ہوتے ہیں۔‘ 

شہزادہ فیصل نے کہا کہ کسی بھی نئے معاہدے کا مقصد جے سی پی او اے میں بہتری لانا ہونا چاہیے۔ 

’میں بحال شدہ جے سی پی او اے کے بارے میں نہیں جانتا ہوں حالانکہ کوئی بھی جے سی پی او اے پلس پلس دیکھ سکتا ہے جو جے سی پی او اے سے زیادہ اچھی چیز ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کیوں کہ جے سی پی او اے کو اس کی موجودہ شکل میں بحال کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم اسی مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں سے ہم چلے تھے۔ جو ایک نامکمل معاہدہ ہے جو تمام معاملات کو حل نہیں کرتا۔‘

اس سے قبل شہزادہ فیصل نے قطر کے ساتھ سفارتی تنازع حل کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے جون 2017 میں قطر پر ایران سے قربت اور دہشت گردی کی مبینہ مالی اعانت کا الزام لگاتے ہوئے دوحہ کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعودی وزیر نے عندیہ دیا کہ جلد ہی قطر کے ساتھ معاملات میں  پیشرفت نظر آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم اس عمل میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور حتمی معاہدے کے لیے جو امکانات نظر آ رہے ہیں وہ بہت مثبت ہیں۔‘

سیاسی تجزیہ کار حمدان الشہری نے عرب نیوز کو بتایا کہ ایران قطر سے تعلقات کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور ایسا اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک دوحہ چار ممالک کے گروپ میں واپس نہیں آ جاتا۔

الشہری نے کہا کہ ’سب سے پہلے یہ کہ قطر کو خطے کی سلامتی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اس گروپ کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ ایران کے ساتھ پھنس جانے کی وجہ سے قطر کی یہ کمزور پوزیشن یا تو خوف کے باعث ہے یا بے باکی کی وجی ہے اور دونوں صورتوں میں اسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔‘

الشہری نے کہا کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ تناؤ کا ذمہ دار نہیں ہے۔

’ہمارے پاس بیلسٹک میزائل نہیں ہیں۔ ہم پورے خطے میں پراکسی نہیں بھیج رہے، ہمارے پاس جوہری ہتھیاروں کا پروگرام بھی نہیں ہے۔ مسئلہ اس میں شامل دوسرے فریق کا ہے۔‘ 

(بشکریہ عرب نیوز)

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا