جو بائیڈن ایران سے دوبارہ جوہری معاہدے کے خواہش مند

نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ’ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو روکنا امریکہ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔‘

نومنتخب صدر نے کہا کہ وہ عراق، یمن اور لبنان میں عسکریت پسندوں اور شامی حکومت کے لیے ایران کی حمایت کے بارے میں امریکی خدشات کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ (اے ایف پی)

امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے اور کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے جوہری معاہدے میں امریکہ کو واپس حصہ دار بنائیں گے اور دوسرے اہم مسائل پر بات چیت کریں گے۔  

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ سے بات چیت میں کہا کہ وہ اب بھی 2015 میں سابق صدر براک اوباما کے دور میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے حامی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورہ اقتدار کے دوران یک طرفہ طور پر امریکہ کو اس معاہدے سے باہر نکال لیا تھا۔

بائیڈن نے اخبار کے کالم نگار تھامس فریڈمین کو بتایا: ’ایسا کرنا مشکل ہو گا لیکن اگر ایران  (معاہدے) پر عمل درآمد کرتا ہے تو امریکہ دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہو جائے گا۔‘

بائیڈن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:’ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو روکنا امریکہ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ دنیا کے اس حصے میں جوہری صلاحیت کی تشکیل آخری چیز ہونی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ معاہدے میں واپس جانے کے بعد ’اپنے حامیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مشاورت کر کے ہم مذاکرات اور دیگر معاہدے کریں گے تاکہ ایران پر جوہری پابندیاں سخت اور لمبی ہوں اور ان کے میزائل پروگرام کو بھی دیکھیں گے۔‘

نومنتخب صدر نے کہا کہ وہ عراق، یمن اور لبنان میں عسکریت پسندوں اور شامی حکومت کے لیے ایران کی حمایت کے بارے میں امریکی خدشات کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس معاہدے، جیسے پہلے جے سی پی او اے کے نام سے جانا جاتا تھا، سے امریکہ کے یورپی اتحادی یقیناً خوش ہوں گے جنہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دستبرداری کے بعد بھی اس معاہدے کو بچانے کی سرتوڑ کوششیں کی تھیں۔

فریڈمین نے لکھا ہے کہ بائیڈن ایران کے عرب پڑوسیوں جیسے سعودی عرب جسیے اتحادی ممالک سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں جو تہران کے ساتھ امریکی تعلقات کو تنقید کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

اسرائیل بھی اس معاہدے کی سختی کے ساتھ مخالفت کرتا ہے جس پر حال ہی میں ایرانی ایٹمی سائنس دان محسن فخری زادہ کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ اگر جو بائیڈن ٹرمپ انظامیہ کی طرف سے عائد پابندیاں اٹھا لیتے ہیں تو ان کا ملک فورا جے سی پی او اے کے وعدوں پر عمل درآمد شروع کر دے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تجزیہ کار کا خیال ہے کہ بائیڈن ان پابندیوں کو کم از کم ابتدا میں بطور طاقت استعمال کریں گے جس میں ایران کے تیل کی تمام برآمدات کو فائدہ اٹھانے کے طور پر روکنے کی امریکی کوششیں بھی شامل ہیں۔

واشنگٹن میں قائم ’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ میں ایران پروگرام کے ڈائریکٹر الیکس وتانکا نے کہا: ’ایران میں ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ بائیڈن کا رویہ تہران کے لیے نرم ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’وہ (ایرانی) توقع کر رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر جتنا ہو سکے حالات کو درست کرنے کی کوشش کریں گے لیکن وہ زیادہ حقیقت پسندانہ شخص ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’انہیں ان سے امید ہے کہ وہ آ کر صورتحال سے جتنا زیادہ ہو سکے فائدہ اٹھائیں۔ مگر وہ زیادہ حقیقت پسند ہیں اور زیادہ اہم ہیں، وہ ایسے ہیں جنہوں نے ان کو نام نہیں دیے، لہذا ان سے بات کرتے ہوئے آپ کی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچے گا۔‘

وتانکا کہتے ہیں کہ ایران ٹرمپ کے ساتھ جو کہ ڈپلومیٹک فتوحات اپنے نام کرنے کے لیے پرجوش تھے کافی فائدہ مند معاہدہ کر سکتا تھا گر وہ ایران کو ’ذلیل‘ کرنا چاہتے تھے۔

جنوری میں عہدے سے فارغ ہونے والے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے زور دے کر کہا تھا کہ 2015 کے معاہدے کا پیمانہ خطرناک حد تک کم تھا۔

انہوں نے ایران سے میزائل سرگرمیاں اور خطے میں اپنی پراکسی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ وہ مطالبات تھے جو کبھی پورے نہیں ہوئے۔ ایسی صورت حال کو بہت سے لوگوں نے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اقتدار میں آنے والی واشنگٹن مخالف حکومت کو گرانے کے لیے کوڈ کے طور پر دیکھا تھا۔

وتانکا نے کہا: ’اومابا کی طرح بائیڈن کی نیندیں بھی شام میں ایرانی کردار کی بجائے تہران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے اڑی ہوئی ہیں۔‘

انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں ایران کے حوالے سے سینیئر تجزیہ کار نیسن رفاتی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جے سی پی او اے میں واپسی ’دوسرے معاملات کی قربانی نہیں بلکہ پہلے طے کی جانے والی ترجیح‘ ہے۔

انہوں نے کہا: ’ایسا لگتا ہے جیسے نو منتخب صدر اور ان کی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جے سی پی او اے معاہدے کو مضبوط بنانا ان تمام معاملات کو گھسٹنے کی بجائے ان تمام معاملات کو حل کرنے کا ایک بہتر طریقہ ہے۔‘ 

اگرچہ بائیڈن ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ایران پر نافذ زیادہ تر پابندیوں کو ختم کرسکتے ہیں تاہم انہیں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عہدہ چھوڑنے کے موقع پر ٹرمپ انتظامیہ ایران پر انسانی حقوق اور جوہری پھیلاؤ کی بنیاد پر پابندیوں کو دوگنا کررہی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ ایسی پابندیوں کو ختم کرنا سیاسی طور پر زیادہ مشکل ہو گا۔

مستقبل کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے دیکھی جانے والی اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے بائیڈن کے انٹرویو پر یہ کہتے ہوئے رد عمل کا اظہار کیا کہ ’ایران کے آیت اللہ کے بازووں میں بھاگتے واپس جانا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔‘

ایران میں جون میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے امیدوار آیت اللہ کے حمایت یافتہ سخت گیر رہمنا ہیں جو کہتے ہیں کہ امریکہ پر اعتماد کرنا سب سے بڑی غلطی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا