داعش کے خلاف ایرانی مدد کی پیشکش افغان معاملات میں مداخلت: طالبان

ایران کے وزیر خارجہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر کابل چاہے تو افغان شیعہ تارکین وطن پر مشتمل ایرانی ملیشیا ’فاطمیون‘ کے جنگجو داعش کے خلاف جنگ میں اس کی ’مدد‘ کر سکتے ہیں۔

(فائل فوٹو  فاطمیون، تسنیم نیوز ایجنسی)

افغان طالبان نے ایرانی وزیر خارجہ کے اس بیان کو ’افغانستان کے داخلی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت‘ قرار دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ افغان شیعہ تارکین وطن پر مشتمل ایرانی ملیشیا ’فاطمیون‘ کے جنگجو داعش کے خلاف جنگ میں کابل حکومت کو ’مدد‘ فراہم کر سکتے ہیں۔

عرب نیوز کے مطابق فاطمیون ڈویژن کو قدس فورس کی ماتحت تنظیم سمجھا جاتا ہے جو بیرون ملک کارروائیوں کے لیے مخصوص ایرانی پاسداران انقلاب کور (آئی آر جی سی) کی ایک شاخ ہے اور جسے امریکہ اور بہت سے دوسرے ممالک ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ’اسلامی امارات‘ اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی کسی فہرست میں شامل نہیں اور ایرانی وزیر خارجہ کا اس حوالے سے بیان خراب معلومات پر مبنی ہے۔ ’ہم ایرانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس طرح کے غیر ذمہ درانہ بیانات کے ذریعے افغانستان میں نازک صورتحال کو بڑھاوا نہ دیں۔‘

انہوں نے جاری بیان میں مزید کہا کہ ایرانی حکام کے اس طرح کے غیر ذمہ درانہ بیان سے دو پڑوسی اور دوست ملکوں کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان ایران سمیت تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ مثبت تعلقات قائم اور جاری رکھنا چاہتے ہیں اور ’ہم ان ملکوں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں لہٰذا ہم زور دیں گے کہ وہ مستقبل میں ایسے بیانات سے باز رہیں تاکہ ہم ردعمل دینے پر مجبور نہ ہوں۔‘

سینیئر افغان تجزیہ کاروں نے بھی اتوار کو ایرانی وزیر خارجہ کے بیان پر سخت تنقید کی تھی۔ امریکہ میں مقیم افغان سکالر طابش فروغ نےکہا کہ افغانستان کو ’ملک میں غیر ضروری فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مشرق وسطیٰ کی جنگ میں استعمال ہونے والے کرائے کے فوجیوں کی طرح کابل کسی بھی حالات میں آئی آر جی سی ملیشیا کے جنگجوؤں کو بھرتی نہیں کرسکتا۔

ہفتے کو ’طلوع نیوز‘ پر نشر ہونے والے ایک پرومو میں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا: ’یہ (فاطمیون) بہترین طاقت ہے۔ اگر افغان حکومت چاہے تو وہ (داعش) کے خلاف جنگ میں افغان حکومت کی مدد کرسکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان سرکاری عہدے داروں نے جواد ظریف کے انٹرویو پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ظریف کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب غنی حکومت اور افغان طالبان دوحہ میں امن مذاکرات میں مصروف ہیں اور امریکی فوج موسم بہار تک افغانستان سے ایک منصوبے کے مطابق مکمل انخلا کی تیاری کر رہی ہے۔

جواد ظریف نے ایرانی حکومت کی جانب سے فاطمیون نیٹ ورک کی تشکیل کا بھی دفاع کیا، جس پر الزام ہے کہ اس نے لاکھوں شیعہ جنگجوؤں کو پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک سے بھرتی کر کے شام کی جنگ میں جھونک دیا۔ تاہم ایران ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

فاطمیون ڈویژن پر امریکہ نے گذشتہ سال پابندی لگا دی تھی۔ ایک اور افغان تجزیہ کار شفیق حق پال نے عرب نیوز کو بتایا: ’ہمیں کرائے کے جنگجوؤں کو استعمال کرنے کی بجائے امن کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے خیال کی تائید کرنا آگ کو تیل دکھانے کے مترادف ہے جو بالآخر ایک بڑا آلاؤ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان ایک اور شام یا عراق بن جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا