کرونا وائرس کی نئی قسم: کیا اس پر ویکسین کام کرے گی؟

برطانیہ میں کرونا وائرس کی نئی نسل سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا اس پر ویکسین کام کرے گی؟

لندن اور اس کے نواح میں چوتھے درجے کا لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ لوگوں گھروں تک محدود ہیں (روئٹرز)

برطانیہ سے کرونا (کورونا) وائرس کی نئی قسم وجود میں آنے کی خبروں نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور نتیجتاً کئی ملکوں نے برطانیہ سے پروازیں معطل کر دی ہیں۔

برطانیہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس کی یہ نئی قسم 70 فیصد زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ یہ نئی قسم کیا ہے اور ہمیں اس سے کتنا ڈرنے کی ضرورت ہے؟

وائرس کی نئی شکل کیسے پیدا ہوتی ہے؟

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ وائرس بیماری کیسے پھیلاتا ہے، پھر ہم دیکھیں گے کہ اس کی نئی شکل کیسے وجود میں آتی ہے۔ کرونا وائرس کی ساخت کیا ہے، پروٹین کے خول میں لپٹی ہوئی چند مختصر جینیاتی ہدایات اور بس۔

جب یہ وائرس جسم کے کسی خلیے  میں داخل ہوتا ہے تو پروٹین کا چھلکا باہر رہ جاتا ہے اور مغز یعنیٰ جینیاتی ہدایات خلیے کے اندر داخل ہو کر خلیے کی مشینری پر قابض ہو جاتی ہیں۔

بالکل ایسے ہی جیسے کوئی ہائی جیکر جہاز کو اغوا کر کے اسے اپنی مرضی کی منزل تک لے جاتا ہے۔ ویسے ہی وائرس کی جینیاتی ہدایات انسان کی جینیاتی مشینری کو ہائی جیک کر کے اس سے اپنی کاپیاں تیار کروانے لگتی ہیں اور یوں ایک وائرس سے ہزاروں وائرس وجود میں آ جاتے ہیں۔

یہ وائرس پہلے تو اسی خلیے کو تباہ کرتے ہیں، پھر باہر نکل کر دوسرے خلیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور یہ عمل نئے سرے سے شروع ہو جاتا ہے۔ اسی سے کوویڈ 19 کی بیماری پیدا ہوتی ہے، جس سے اب تک دنیا میں 17 لاکھ کے قریب لوگ ہلاک اور ساڑھے سات کروڑ سے زیادہ بیمار ہو چکے ہیں۔

ہم نے اوپر ذکر کیا کہ وائرس جسم کی جینیاتی مشینری کو ہائی جیک کر کے اس سے اپنی ہزاروں نقلیں تیار کرواتا ہے۔ یہ نقلیں عام طور پر اصل کے مطابق ہوتی ہیں، لیکن لاکھوں، کروڑوں نقلوں میں سے کہیں کوئی غلطی رہ جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بہت اچھا ٹائپسٹ بھی ٹائپنگ کرتے وقت کبھی کبھار غلطی کر بیٹھتا ہے، جسے ٹائپو کہتے ہیں۔ جینیات کی زبان میں اس غلطی کو میوٹیشن یا تقلیب کہا جاتا ہے۔

اکثر جینیاتی ٹائپوز بےضرر ہوتے ہیں، یعنیٰ ان کا نہ تو کوئی فائدہ ہوتا ہے نہ نقصان۔ بالکل ایسے ہی جیسے کتاب میں کہیں کوئی چھوٹی موٹی کتابت کی غلطی ہو تو کتاب کے مجموعی مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اکثر لوگوں کو تو اس ٹائپو کا پتہ بھی نہیں چلتا۔

لیکن اگر اتفاق سے یہ ٹائپو کسی ایسے اہم مقام پر ہو جائے جہاں سے فقرے کا مطلب ہی غلط ہو جائے تو اسے نقصان دہ غلطی کہا جائے گا۔ مثلاً آپ نے کسی دوست کو لکھنا چاہتے تھے، ’مجھے 10 روپے بھیج دو،‘ لیکن غلطی سے 1 ٹائپ ہونے سے رہ گیا اور فقرہ یہ بن گیا، ’مجھے 0 روپے بھیج دو۔‘ ظاہر ہے کہ یہ نقصان دہ غلطی ہے۔

جانداروں میں اس طرح کی میوٹیشن سے جینیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ آپ نے تھیلیسیمیا نامی جان لیوا بیماری کے بارے میں سنا ہو گا۔ یہ بیماری بچے کے ڈی این اے میں صرف ایک حرف کے ٹائپو سے پیدا ہوتی ہے۔

اس سے بھی زیادہ شاذ و نادر ایسی غلطیاں ہوتی ہیں، جو ہوتی تو غلطیاں ہی ہیں، مگر ان سے الٹا فائدہ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بھورے ریچھ جب قطبِ شمالی میں آباد ہونا شروع ہوئے تو ان میں کسی ایک بچے کے ڈی این اے میں میوٹیشن کی وجہ سے اس کا رنگ بھورے کی بجائے سفید ہو گیا۔

یہ میوٹیشن باقی جگہوں پر تو نقصان دہ ہوتی لیکن یہاں برف کی وجہ سے اس کا الٹا فائدہ ہوا اور اس سفید رنگت والے ریچھ کی نسل دوسروں کی نسبت زیادہ پھلی پھولی اور قطبِ شمالی میں بھورے رنگ کے ریچھ ناپید ہو گئے۔

70 فیصد زیادہ تیزی سے پھیلنے والی نسل

یہ ضروری پس منظر سمجھنے کے بعد اب آ جاتے ہیں کرونا وائرس کی نئی تقلیب شدہ یا میوٹیٹڈ شکل پر۔ گذشتہ برس ووہان میں سر اٹھانے کے بعد سے اب تک SARS COV-2 نامی اس وائرس میں مسلسل تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت دنیا میں کہیں بھی یہ وائرس اس شکل میں موجود نہیں ہے جیسا ووہان میں گذشتہ دسمبر میں دیکھا گیا تھا تو غلط نہیں ہو گا کیوں کہ ہر جگہ اس وائرس میں تبدیلیاں آئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، ان میں سے اکثر تبدیلیاں بےمعنی ہیں لیکن کچھ تبدیلیاں ایسی بھی ہیں جن کا اس وائرس کو فائدہ ہوا۔ برطانیہ کے چیف سائنسی افسر سر پیٹرک ویلس کے مطابق نئی نسل میں 23 جگہوں پر جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، جن کی وجہ سے اس کی ایک انسان سے دوسرے میں پھیلنے کی صلاحیت 70 فیصد بڑھ گئی۔

یہ تبدیلیاں وائرس کے جینیاتی مواد میں نہیں بلکہ اس کے چھلکے والی پروٹین میں رونما ہوئی ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس نئی نسل سے بیماری کی شدت یا شرحِ اموات میں اضافہ نہیں ہوتا۔

یہ تبدیلیاں وائرس کے جینیاتی مواد میں نہیں بلکہ اس کے چھلکے والی پروٹین میں رونما ہوئی ہیں۔ یہ بات اس لیے اہم ہے کہ حال میں تیار ہونے والی ویکسینیں اسی پروٹین کو ہدف بناتی ہیں اور خدشہ ہے کہ اگر یہی پروٹین بدل جاتی ہے تو ممکن ہے اس پر ویکسین ہی اثر کرنا چھوڑ دیں۔

کیا نئی نسل کے خلاف ویکسین کام کرے گی؟

اس کا جواب ہے، ہاں۔ دراصل ابھی تک جتنی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، وہ اتنی قابلِ ذکر نہیں کہ پروٹین کی شکل کو مکمل طور پر بدل دیں۔ اتنی تعداد میں تبدیلیاں رونما ہونے کے لیے چند مہینے نہیں بلکہ کئی سال درکار ہوتے ہیں۔

 سر پیٹرک ویلس نے کہا کہ سائنس دانوں کا تخمینہ ہے کہ اس وائرس کے خلاف ویکسینیں کارگر رہیں گی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ’ہمیں اس بارے میں چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔‘

یہ نئی نسل کہاں تک پھیل چکی ہے؟

اس نئی قسم کے پہلے نمونے برطانیہ میں ستمبر میں دیکھے گئے۔ نومبر میں لندن میں کرونا کے ایک چوتھائی مریضوں میں یہ نئی قسم پائی گئی۔ اب دسمبر کے وسط میں حاصل کردہ نمونوں کے مطابق دو تہائی مریضوں میں یہ نئی قسم دیکھی جا رہی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ یہ نسل بہت تیزی سے پھیل کر پرانے کرونا وائرس کی جگہ لے رہی ہے۔ فی الحال یہ وائرس جنوبی انگلستان میں زیادہ دیکھا گیا ہے۔ البتہ ڈنمارک، ہالینڈ، بیلجیم، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا میں بھی اس کے کیس سامنے آئے ہیں۔

تاہم نئے وائرس کے مریضوں کی تعداد سے حتمی طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ یہ نسل زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت