جب اخبارکا بے چینی سے انتظار ہوتا تھا

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اخبار کا سب سے عمدہ استعمال اماں سے بہتر کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔

گھر میں اخبار نہ آتا تو ہاکر کے پاس کھڑے کھڑے اپنی پیاس بجھا لیتے (اے ایف پی)

اخبار کی بھی کیا چاہ ہوتی تھی جناب۔ اس کی مخصوص مہک تو جیسے خمار جیسی کیفیت سے دوچار کرتی۔ ہمیں تو ہوا کے گھوڑے پر سوار اخبار ڈالنے والوں پر بھی حیرت ہوتی جو موسم کی سختی اور نرمی کو برداشت کیے بغیر تاک کر نشانہ ایسا لیتے کہ ہدف سے ہٹتا ہی نہیں تھا۔

صبح سویرے جب ربڑ بینڈ میں لپٹا ہوا اخبار، گھر کے آنگن میں گرتا تو اسے خوش آمدید کہنے کے لیے ہم اپنی بانہیں وا کر دیتے اور بھرپور پروٹوکول کے ساتھ ڈرائنگ روم کی زینت بنانے کے لیے خوش دلی کے ساتھ لاتے۔

تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا آیا تو اخبار کی ایک ایک سطر تک چاٹ جاتے۔ ایسے دھتی تھے کہ ضرورت رشتہ تک کے اشتہارات تک کو نہیں چھوڑتے۔ بسا اوقات یہ سوچتے کہ اتنی امیر کبیر اور خوبصورت دوشیزاؤں کو آخر کیوں ضرورت پڑ جاتی ہے کہ اخبار میں ’سستی شہرت‘ کا اشتہار دے کر اپنا ڈھنڈورا پیٹنے کی؟

ابا کی تاکید تھی کہ اردو بہتر بنانی ہے تو اخبار پڑھا کرو۔ کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے وہ دفتر سے واپسی پر انگریزی اخبار بھی لے آتے اور ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہتے کہ ’ذرا بلند آواز میں کوئی خبر پڑھ کر سنانا۔‘

ہماری کیفیت اُس پاکستانی کھلاڑی جیسی ہوتی جس سے لگے بندھے سوالوں کے بجائے اگر انگریزی میں کوئی ٹیڑھا سوال دریافت کر لیا جائے تو اس کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ ابا کو چکر دینے کے چکر میں ہمیشہ اس خبر کا انتخاب کرتے جو تین سے چار سطروں کی ہوتی ۔

اس آزمائش میں سرخرو ہونے کے بعد اب اگلا مرحلہ اردو اخبار سے مشکل الفاظ کی تلاش اور ان کے معنی لکھنے کا ہوتا۔ جس کابھرپور فائدہ آج تک ہو رہا ہے۔ صبح جب تک ابا دفتر جانے کو تیار ہوتے، اُس وقت تک ہماری کوشش ہوتی کہ جتنا ہو سکے اخبار پڑھ لیا جائے کیونکہ اس کے بعد ابا ہوتے اور اخبار۔

بسا اوقات اسی مطالعے کی بنا پر وہ دفتر کے لیے تاخیر سے بھی اٹھتے۔ سچی بات پوچھیں تو ایک وقت وہ بھی تھا جب صبح کی چائے گلے سے اُس وقت تک نہیں اترتی تھی، جب تک اخبارکی سرخیاں نہ دیکھ لیں اور اب یہ عالم ہے کہ چائے ہو یا کھانا، سمارٹ فون پرانگلیاں مادھوری ڈکشٹ کی طرح تھرک رہی ہوتی ہیں۔ پتہ ہی نہیں ہوتا جو کھا یا پی رہے ہیں اس کا ذائقہ کیا ہے۔

اخبار پڑھتے وقت ہماری جان تو ہماری اس ’بقیہ‘ سے جاتی جو صفحۂ اول کی تقریباً خبر کے آخر میں لیٹا ہمارا منہ چڑا رہا ہوتا۔ تلاش کرتے رہو، ’صفحہ نمبر چار کالم نمبر تین۔‘ عجیب سی جھنجھلاہٹ اور اضطرابی کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا۔ صفحات پلٹ پلٹ کر مطلوبہ خبر کی ’باقیات‘ کی کھوج لگانا ایسا ہی کام لگتا جیسے کسی کو قرض دینے کے بعد اسے تلاش کرنا۔ بعض اوقات یہ سانحہ بھی گزرتا کہ اداکارہ بابرہ شریف کی خبر کا بقیہ تلاش کرتے تو مذکورہ نمبر پر نوابزادہ نصراللہ کی خبر نکلتی۔

کبھی مہینے کے آخری دنوں میں جب گھر کا بجٹ آؤٹ ہو جاتا تو اماں ذہین ماہر اقتصادیات اور بہترین مشیر خزانہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے سب سے پہلے بجلی اخبار پر ہی گراتیں۔ داخلی اخراجات کو قابو کرنے کے خاطر اخبار والے کو منع کر دیا جاتا کہ وہ کل سے اخبار ڈالنے کی زحمت نہ کرے۔

اس اعلان پر سب سے زیادہ ہمیں افسوس ہوتا، اور ہم اس ملال کو پورا کرنے کے لیے قریبی ہاکروں پر جا کر وہاں لگے اخباروں کے بالائی صفحات کو پڑھنے میں لگ جاتے کیونکہ ذیلی حصہ تو لپیٹ کر رکھا جاتا۔

ابا کی بھی مطالعہ کمزوری تھی اسی لیے ’سمارٹ لاک ڈاؤن‘ کی طرح یہ فیصلہ کیا جاتا کہ صرف چھٹی والے دن ہی اخبار آیا کرے گا۔ ڈیڑھ دو مہینے تک یہ سلسلہ چلا لیکن پھر ہم نے ہمت کر کے ایک دن ابا کے گوش گزار کیا کہ چھٹی والے دن لگتا ہے اشتہارات کے لیے اخبار شائع کیا جاتا ہے۔

ڈھونڈ ڈھونڈ کر خبر نکالنی پڑتی ہے۔ پھر اُس پر اخبار سے اتنے بروشر اور پمفلٹ نکلتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ اردو بازار کے کسی پرنٹنگ پریس کے باہر کھڑے ہو کر اخبار کو ترتیب دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں کیا یہ بہتر یہ نہ ہو گا کہ جس دن اخبار کے ساتھ رنگین میگزین آئے اسی دن اِسے لگوایا جائے؟ اس تجویز پر ابا ہی نہیں گھریلو کابینہ ارکان نے بھی اتفاق کیا۔

خیر دور حاضر میں تو خبر نگاری تو وہیں کی وہیں ہے البتہ اشتہار سازی میں جدت آ گئی ہے۔ کبھی پورے پورے آدھے صفحے پر اشتہار تو کبھی کوئی دلکش نین نقش والی حسینہ کا ہوش اڑاتا پوز اس مہارت سے اخبار میں شائع ہوتا ہے کہ اس کی نازک نازک سی کمر کے اوپر کسی سیاست دان کا بھاری بھرکم بیان لگا ہوتا ہے۔

اخبار میں ہمارے پسندیدہ صفحات فلم اور کھیل کے ہوتے۔ خاص کر وہ بھی جس میں سنیما گھروں میں لگنے والی فلموں کے اشتہارات ہوتے۔ جنرل ضیا کے دور میں اِن اشتہارات میں ہم تو نے یہ بھی دیکھا کہ کسی ہیروئن کے ہو شربا اور قیامت خیز بجلیاں گراتے انداز پر کالک مل کر اس کے ’کرتوتوں‘ کو دنیا سے چھپایا جاتا۔ غضب خدا کا سنسر شپ کے خوف کی وجہ سے بے چارے ٹارزن کی ایک فلم کے اخباری اشتہارمیں ہم نے اس غریب کردار کو اس قدر سیاہ ہوتے دیکھا کہ لگا جیسے ویسٹ انڈیز کا کوئی کھلاڑی ہو۔

ایک زمانے میں تو ہیجان خیز او ر ہوشربا چٹ پٹی تصویریروں اور خبروں کے حوالے سے ایک اخبار خاصا بدنام تھا۔ جو تھا تو شام کا لیکن آتا دوپہر گیارہ بارہ بجے کے قریب تھا۔ اس میں سنسنی خیزی ایسی ہوتی کہ جس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دور حاضر کے بیشتر ٹی وی چینل رواں دواں ہیں۔

 کیونکہ گئے زمانے میں ایک ہی ٹی وی چینل تھا اور سوشل میڈیا کا تو دور دو ر تک کوئی وجود نہیں تھا۔ اسی لیے ہر ایک کے لیے اخبار خاصی اہمیت کا حامل تھا۔ اہم خبریا سانحہ کا ضمیمہ نکلتا جسے ’آج کی تازہ خبر‘ کی صدا لگا کر گلی گلی محلے محلے فروخت کرنے اخبار فروش نکل پڑتا۔

اسی طرح ٹی وی ڈراموں پر تابندہ لاری کے بے لاگ اور غیر جانبدار انہ تبصرے بھلا کون فراموش کرسکتا ہے۔ پورے ہفتے اِن کے کالم کا انتظاررہتا جو ہر ایک کے خیالات کی عکاسی کرتا۔ پھر ان کے بعد تو جیسے ٹی وی تبصرہ بھی کمرشلائزیشن کی نذر ہو گیا۔ یہاں تک کہ سننے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ فلم یا ڈراموں کی تشہیر کے لیے باقاعدہ رقم خرچ کرکے تعریفوں کے پل بندھوائے جاتے ہیں اور بعض دفعہ منفی تبصروں کے ذریعے بھی اپنے مقصد کو حاصل کیا جاتا ہے۔

کھیلوں میں منیر حسین مرحوم کا کرکٹ تبصرہ بھی کیا خوب ہوتا۔ 1987میں جب پوری قوم عالمی کپ کے بخار میں تپ رہی تھی اور سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے ہم شکست کھا بیٹھے تو پاکستان میں سوگ اور الم کا سماں تھا۔ ایسے میں یہ منیر حسین ہی تھے جنہوں نے ’ستاروں سے آگے جہاں اور‘ کی نوید دی۔ جس کے بعد اگلے عالمی کپ میں ہم فاتح ٹھہرے۔ جس نے کھیل ہی نہیں ملکی سیاست میں بھی انقلاب برپا کردیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اخبار کا سب سے بہترین استعمال اماں سے بہتر کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔ پرانے اخبارات کو بڑا سنبھال کر رکھتیں۔ الماری کے خانوں میں یہی اخبار بچھائے جاتے۔ بقر عید ہوتی تو اسی میں گوشت کی پڑیاں بنا کر رشتے دار وں اور پڑوسیوں کو قربانی کا گوشت تقسیم کیا جاتا۔ ابا لنچ باکس دفتر بھول جاتے تو پھر اگلے دن اسی اخبار میں دوپہر کا کھانا پیک کرکے انہیں تھمایا جاتا۔

یہی نہیں جناب کئی بار ہماری درسی کتاب تک پر اِس کے رنگین صفحات کو قرینے کے ساتھ جلد بنا کر پیش کر دیا جاتا، جس پر ہم جماعت مذاق بھی اڑاتے۔ مہینے کے اختتامی دنوں میں یہی اخبار، ردی والے کو فروخت کرکے کچھ نہ کچھ زرمبادلہ حاصل کرنے کا ذریعہ بھی بنتا ۔

آپس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ہم اماں کے اخبار والے خزانے میں کئی بار خرد برد کر چکے تھے لیکن کرپشن پکڑی بھی جاتی تو’ لاڈلے‘ ا ور ’چہیتے‘ ہونے کی وجہ سے ہمیں کم ا زکم ’این آر او‘ ضرور مل جاتا۔

انگریزی کو ردی والوں تک کے یہاں بھی فوقیت حاصل تھی جبکہ اردو کی ناقدری کا اندازہ یوں لگائیں کہ انگریزی کے مقابلے میں اِس کے تول کے کم ہی نرخ ملتے۔

حالیہ دنوں میں مطالعے کا فقدان کا اندازہ ٹین ڈبے والوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے، جن کے پاس ٹین ڈبے تو ہوتے ہیں لیکن ردی کے نام پر اخبار ذرا کم ہی ملتے ہیں۔ فی زمانہ بیشتر اخبارات کے آن لائن ایڈیشن دستیاب ہیں جبھی بازاروں میں ہاکر تو نظر آتے ہیں لیکن خریدار نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ