حکومت کی اتحادی فنکشنل لیگ کی مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرنے کی تجویز

فنکشنل لیگ کے وفد کی کوٹ لکھپت جیل میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف سے ملاقات، پارٹی سربراہ صبغت اللہ راشدی پیر پگاڑا کا خصوصی پیغام پہنچایا۔

شہباز شریف سے ملاقات کے بعد  محمد علی درانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے (تصویر فنکشنل لیگ )

پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے وفد نے پارٹی کے جنرل سیکریٹری محمد علی درانی کی سربراہی میں جمعرات کو کوٹ لکھپت جیل میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کی، جس میں انہوں نے اپنی پارٹی کے سربراہ صبغت اللہ راشدی پیر پگاڑا کا خصوصی پیغام پہنچایا۔

شہباز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے درانی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے پارٹی قائد کی جانب سے جو تجاویز دی ہیں ان میں ٹکراؤ کی پالیسی ترک کر کے مذاکرات شروع کرنا بھی شامل ہے۔

درانی کے مطابق پیرا پگارا نے ملک میں گرینڈ ڈائیلاگ کے لیے بات چیت اور ٹکراؤ سے پہلے مفاہمت کا راستہ اپنانے کا مشورہ دیا۔ ’پاکستان کے موجودہ حالات میں ٹکراؤ شدید تکلیف کا باعث ہے، ایسی گفتگو ہو جس میں مخالف بھی اکٹھے بیٹھ جائیں، پارلیمنٹ کو دوبارہ سے اپنا کام شروع کرنا چاہیے، ملک میں آئین پارلیمنٹ کی بالا دستی ہو۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ استعفوں کی آگ جمہوریت، معیشت، بین الاقوامی خطرات میں بڑی مشکلات کا سبب بنے گی۔ ’اس (استعفوں) کے بعد بھی ڈائیلاگ ہی ہونے ہیں تو پہلے کیوں نہیں ہوسکتے؟ شہباز شریف اپوزیشن اور پی ڈی ایم کو متحد کرنا چاہتے ہیں، پیر پگارا قومی لیڈر کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ٹکراؤ کا ماحول ختم کر کے بات چیت کے لیے ایک میز پر بیٹھنا ہوگا، پاکستان میں مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرنے اور ہم خیال گروپوں کو ساتھ ملانے کی بھی تجویز دی گئی جس سے شہباز شریف نے اتفاق کیا ہے۔

وفد میں شامل فنکشنل لیگ پنجاب کے جنرل سیکرٹری میاں مصطفیٰ رشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پیر پگاڑا کا پیغام شہباز شریف کو پہنچا دیا جس میں تمام مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن، ق، فنکشنل اور ض سمیت تمام دھڑوں کو اکھٹا کر کے متحدہ مسلم لیگ بھی تشکیل دی جا سکتی ہے، تاہم ہر پارٹی اپنے عہدےداروں سے مشاورت کے بعد جواب دے گی۔ ’اس معاملے پر حکمت عملی بعد میں تیار کی جائے گی کہ سب دھڑے کس طرح ایک ہو سکتے ہیں اور پلیٹ فارم کا نام کیا ہوگا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے )کے پلیٹ فارم پر حکومت کی اتحادی فنکشنل لیگ اپوزیشن جماعت ن لیگ سے اتحاد کیسے کر سکتی ہے؟ تو انہوں نے کہا جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے سیاست اپنی جگہ لیکن آئندہ کا سیاسی لائحہ عمل ہر جماعت کا حق ہے۔’ہم یہ کوشش جمہوریت کی مضبوطی اور انتشار روکنے کے لیے کر رہے ہیں جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر کامران مائیکل نے کہا کہ مسلم لیگ ن ایک سیاسی جماعت ہے، اگر مسلم لیگ کے دوسرے دھڑے بھی متحد ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس معاملے پر پیر پگاڑا نے شہباز شریف کو بطور صدر مسلم لیگ ن پیغام بھجوایا ہے تاہم وہ اس حوالے سے پارٹی اجلاس میں تمام تجاویز رکھیں گے اور مشاورت کے بعد لائحہ عمل بنائیں گے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر فنکشنل لیگ ٹکراؤ ختم کرانا چاہتی ہے تو انہوں نے پی ڈی ایم کی بجائے شہباز شریف سے ہی ملاقات کیوں کی؟

انہوں نے جواب دیا کہ ن لیگ کا پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر کردار جاری رہے گا اور شہباز شریف بھی پی ڈی ایم کا حصہ ہیں، وہ یقینی طور پر یہ تمام تجاویز اور پیش کش پی ڈی ایم قیادت کو بھی پہنچائیں گے۔’ بہرحال جو بھی فیصلہ ہوگا اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے ہوگا۔ اپوزیشن کی تحریک سے متعلق ہماری جماعت اکیلے فیصلہ نہیں کرسکتی۔اگر ہم سیاسی طور پر اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر سکتے ہیں تو ن لیگی دھڑوں سے اتفاق کیوں نہیں ہوسکتا؟‘

مسلم لیگ ن کے سینیٹر کیپٹن(ر)شاہین بٹ نے کہا کہ مسلم لیگ کے تمام دھڑے پہلے ایک ہی تھے، بعض اختلافات پر علیحدہ ہونے والے ایک دوسرے کے تحفظات دور کر کے پھر اکھٹے ہو سکتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا ق لیگ ہو، فنکشنل یا کوئی اور دھڑا، جو بھی اصولوں کے مطابق شرائط پر پورا اترےگا ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بات تو سب سے ہوسکتی ہے، اہم یہ ہے کہ ہم اپنی ترجیحات اور موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ بھی اتحاد بنانے پر غور کریں گے۔’اس ساری صورتحال سے نواز شریف کو آگاہ کیا جائے گا جو وہ فیصلہ کریں گے اس پر عمل درآمد ہوگا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست