غدار سازی اور ناپسندیدگی

کیا ہم ’دو نہیں ایک پاکستان‘ کے اصول کے تحت امید رکھیں کہ قانون جس نظر سے حزب اختلاف کو دیکھ رہا ہے اسی نظر سے ڈی چوک کی روشن تاریخ کو بھی دیکھ پائے گا؟

(اے ایف پی)

سیاست بند گلی سے راستہ نکالتی ہے، یہ کیسی سیاست ہے جو سب کو بند گلی میں دھکیل رہی ہے۔ بند گلی بھی وہ جس کی نکر پر ’غداری سٹریٹ‘ لکھا ہے۔

حکومتیں تو ناراض اور متحارب گروہوں کو بھی قومی دھارے میں لانے کی کوشش کرتی ہیں، یہ کیسی دانائی ہے کہ اہل سیاست پر بغاوت اور غداری کے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں؟

طالبان کے بارے میں عمران خان کا موقف ہمارے سامنے ہے۔ وہ آخری لمحے تک اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ ان سے بات چیت کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ اس موقف کی خود عمران خان متعدد بار شرح بیان کر چکے ہیں کہ حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ آخری حد تک کوشش کی جائے کہ متحارب عناصر واپس قومی دھارے میں آ سکیں۔ سوال یہ ہے وہ حکمت اور بصیرت اس وقت بروئے کار کیوں نہیں آ رہی جب سیاسی حریفوں پر غداری اور بغاوت کے مقدمے بنا کر انہیں قومی دھارے سے کاٹ کر دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے؟

 ایک پارلیمانی نظام کا یہ حسن ہے کہ اختلافی آوازیں اٹھتی رہیں اور ان میں گاہے شدت بھی آ جائے تو پارلیمانی جمہوریت میں اسے بڑی حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے۔ تعزیرات پاکستان میں بلا شبہ یہ دفعات پہلے سے موجود ہیں اور اس بات کی گنجائش بھی ہے کہ حکومت پر تنقید کرنے والے حضرات کو Sedition کے جرم میں عبرت کا نشان بنا دیا جائے لیکن پارلیمانی جمہوریت کی الف ب سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ آخری حربے کے طور پر کی گئی قانون سازی ہے جس کا بنیادی کام ڈیٹرنس کا ہے۔ اس سے پہلے اور بہت سے مقامات آتے ہیں۔

ایسے نہیں ہوتا کہ شروعات ہی اس انتہا سے کی جائیں اور جن کی عمر اس ملک کے آئین سے وفادای کا حلف اٹھاتے اور پارلیمانی سیاست کرتے گزری ہو انہیں کھڑے کھڑے باغی، ملک دشمن اور غدار قرار دے کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملک دشمن غداروں کی اس مبینہ فہرست پر ذرا نظر تو ڈالیے۔ سابق سپیکر، وزرا اور وزرائے اعظم سے لے کر سابق جرنیل اور گورنرز تک سب اس کی زد میں آئے پڑے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا انہیں ’پاکستان کے خلاف جنگ‘ یعنی Waging war against Pakistan کا مجرم قرار دیا جا سکتا ہے؟ اہل سیاست کا موقف جتنا بھی سخت اور نامناسب ہو اس کا ایک پس منظر اور شان نزول ہوتی ہے۔ اس موقف کو اس پس منظر سے جدا کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ معاشرے کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں اور ان کی آواز بلند ہوتے رہنا نہ صرف معاشرے میں زندگی کے آثار کی علامت ہے بلکہ یہ سماج کو گھٹن سے بھی بچاتی ہے۔ انسانی تجربات بتاتے ہیں سماج میں گھٹن بڑھ جائے تو حادثے کو جنم دیتی ہے۔ سیاست معاشرے کے فکری اور نفسیاتی بہاؤ کا نام ہے۔ اس میں مد اور جزر دونوں کا امکان موجود ہے لیکن اس بہاؤ کو اس کی خوبیوں خامیوں سمیت آخری درجے تک برداشت کرنا چاہیے۔ الا یہ کہ، کوئی اور راستہ باقی نہ رہے اور حجت تمام ہو جائے۔

تعزیرات پاکستان کے جس باب کا اطلاق حزب اختلاف کے رہنماؤں پر کیا گیا ہے یہ باب خاصا قدیم ہے۔ جب تحریک انصاف ڈی چوک میں اخلاقیات سے لے کر نظم اجتماعی سب کو للکار اور روند رہی تھی تب بھی یہ قانون موجود تھا۔ اس قانون کی دفعات کا اہل سیاست پر اطلاق کرنا ہی ہے تو اس کی موزوں ترین اور حسب حال صورت حال ڈی چوک میں برپا کی گئی۔ یعنی ان قوانین کو اگر ’سیفٹی والو‘ سمجھنے کی بجائے لاگو ہی کرنا ہے تو ڈی چوک اس قانون کے نفاذ کے لیے سب سے مثالی مقام ہے۔ تو کیا ہم ’دو نہیں ایک پاکستان‘ کے اصول کے تحت امید رکھیں کہ قانون جس نظر سے حزب اختلاف کو دیکھ رہا ہے اسی نظر سے ڈی چوک کی روشن تاریخ کو بھی دیکھ پائے گا؟

بالغ نظری اور حکمت کے باب میں کسی پاکستانی حکومت کا ہاتھ اتنا تنگ بھی ہو سکتا ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم پر بغاوت اور غداری کا مقدمہ قائم کر دیا جائے، جو خطہ پاکستان سے محبت کا استعارہ بنا ہوا ہے اس کے منتخب وزیر اعظم پر یہ دفعات لگا ئی جا رہی ہیں۔ حکومت کے رجال کار کو سماج، سیاسیات، معاشرت اور بین الاقوامی سیاست کی مبادیات سے کچھ آگہی ہے یا معاملات طفلان خود معاملہ کے ہاتھ میں آ گئے ہیں؟ کیا کسی کو احساس ہے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر پر اس طرح کے مقدمے کی سنگینی اور معنویت کتنی ہے؟ کیا حکمت اور بصیرت کو حکومت نے طلاق بائن کبریٰ ہی دے ڈالی ہے؟

جمہوریت بند گلی سے راستے نکالتی ہے۔ یہ مگر ’پہلی بار‘ ہو رہا ہے کہ جمہوری حکومت سماج کو بند گلی میں دھکیل رہی ہے۔ حکومت محض شعلہ بیانی اور افتاد طبع کا نام نہیں، حکمت بھی کار ریاست کا اہم جزو ہے۔ جی ایم سید کا موقف کتنا شدید تھا لیکن جب وہ علیل ہوئے تو جنرل ضیاء الحق نے ان کی عیادت کی اور گلدستہ بھجوایا۔ حکومت لوگوں کو جوڑتی ہے اور ساتھ لے کر چلتی ہے۔ وہ لوگوں کو بند گلی میں دھکیل کر گلی کی نکڑ پر غدار سازی کی فیکٹری نہیں لگاتی۔

روایت ہے کہ جناب وزیر اعظم نے ان مقدمات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات مگر روایت اور متن ہر دو کے اعتبار سے کمزور ہے۔ راوی اس کے فواد چودھری ہیں۔ متن کی کہانی بھی اس روایت کی نفی کرتی ہے۔ یہ وزیر اعظم ہی تھے جنہوں نے کہا کہ نواز شریف بھارت کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، بھارت کا بیانیہ بول رہے ہیں اور بھارت کی مدد سے پاکستان کے خلاف خطرناک کھیل، کھیل رہے ہیں۔

پولیس نے تو جناب وزیر اعظم کے مقدمے کے متن کو کاغذ پر لکھ کر قانونی شکل دی ہے۔ مقدمہ تو جناب عمران خان کی فکرِ رسا نے خود قائم کیا تھا۔ اب اظہار ناپسندیدگی کیسا؟ کس بات پر اظہار ناپسندیدگی؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر