سال 2020 میں کورونا کی عالمی وبا نے زندگی کے ہر شعبے کی طرح کرکٹ کو بھی متاثر کیا اور جس قدر کرکٹ کھیلی گئی وہ روایتی انداز کے بغیر رہی، بے رنگ اور بے ذائقہ۔
وبا کے ابتدائی پھیلاؤ نے فروری میں سب سے پہلے نیوزی لینڈ کے آسٹریلیا کے دورے کو متاثر کیا جہاں آخری دو ایک روزہ میچ وبا کی عالمی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے منسوخ کر دیے گئے۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا کا بنگلہ دیش کا دورہ اور انگلینڈ کا سری لنکا کا دورہ بھی منسوخ ہو گیا۔
سب سے اہم ایونٹ آئی پی ایل کو وقتی طور پر موقوف کر دیا گیا اور نئے شیڈول کے ساتھ عرب امارات میں خالی میدانوں میں منعقد کیا گیا جس نے ایونٹ کو مالی طور پر بہت متاثر کیا۔ سال کے اختتام پر بھارت آسٹریلیا کا دورہ کر رہا ہے جس میں دو ٹیسٹ مکمل ہو چکے ہیں اس سے قبل ٹی 20 اور ون ڈے سیریز بھی کھیلی گئی۔
پہلے ٹیسٹ میں 36 کے مختصر سے سکور پر بھارتی ٹیم آؤٹ ہوکر تیسٹ ہار گئی تھی لیکن دوسرے ٹیسٹ میں آسٹریلیا کو شکست دےکر حساب بے باق کر دیا۔ ویسٹ انڈیز نے اس سال انگلینڈ میں تین ٹیسٹ میچ اور دو ٹیسٹ میچ نیوزی لینڈ میں کھیلے جہاں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں جگہ تماشائیوں کو آنے نہیں دیا گیا۔
پاکستان کا اس وبا نے زیادہ نقصان تو نہیں کیا لیکن پاکستان سپر لیگ کے اختتامی میچوں منسوخ کرنے پڑے جو نومبر میں خالی میدانوں میں کھیلے گئے۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت رہا کہ پی ایس ایل تقریباً مکمل ہو گئی اور کوئی بڑا مالی نقصان نہیں ہوا۔
پاکستان کی اس سال اولین سیریز بنگلہ دیش کے ساتھ تھی جو کافی تگ ودو کے بعد دو حصوں میں کھیلی گئی لیکن وبا کے باعث صرف ایک ٹیسٹ میچ ہی کھیلا جا سکا دوسرا ٹیسٹ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا جا چکا ہے۔ پاکستان نے اس سال سخت حفاظتی قواعد و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے انگلینڈ کا دورہ کیا جہاں تین ٹیسٹ اور اتنے ہی ٹی 20 میچ کھیلے۔
عالمی وبا کے دوران سارے میچ خالی سٹیڈیم میں کھیلے گئے جس نے کھیل کا روایتی مزہ کرکرا کر دیا۔ سال کے آخر میں پاکستان نے کیویز کے دیس نیوزی لینڈ کا دورہ کیا ہے جہاں دو ٹیسٹ اور تین ٹی 20 میچ کھیلے گئے ہیں۔ دوٹیسٹ میچوں میں سے ایک ٹیسٹ گذشتہ روز ختم ہوا جس میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا
ٹی 20 عالمی کپ
عالمی کپ کے اکتوبر میں انعقاد پر سال کے شروع میں ہی پرچھائیاں پڑنے لگی تھیں۔ جیسے جیسے عالمی وبا بڑھتی گئی عالمی کپ کا انعقاد مشکل ہوتا گیا اور آخرکار ملتوی کر دیا گیا۔ کچھ ناقدین اس التوا کے پیچھے بھارت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جس نے آئی پی ایل کے لیے ستمبر اکتوبر کا انتخاب کیا تھا اور اسے عالمی کیلینڈر میں تاریخیں خالی چاہیے تھیں۔
پاکستان کی کارکردگی
فروری میں پاکستان اپنی ہوم سیریز میں بنگلہ دیش کو واحد ٹیسٹ میں شکست دینے میں کامیاب رہا۔ میچ کی خاص بات بابر اعظم اورشان مسعود کی سنچریاں اور نسیم شاہ کی تباہ کن بولنگ تھی۔ نسیم شاہ نے اس میچ میں ہیٹ ٹرک بھی کی اور وہ ہیٹ ٹرک کرنے والے کم عمرترین بولر بن گئے۔
دورہ انگلینڈ
پاکستان نے جولائی میں انگلینڈ کا دورہ کیا جس میں 0-1 سے سیریز ہار گیا۔ مانچسٹر ٹیسٹ جس میں پاکستان کوشکست ہوئی ایک مرحلے پر پاکستان کے حق میں جاتا نظر آ رہا تھا لیکن کرس ووکس اور جوز بٹلر کی رفاقت نے پاکستان سے فتح چھین لی۔ اگلے دو ٹیسٹ ساؤتھ ہیمپٹن میں بارش سے متاثر رہے۔ اس طرح کم وقت ملنے کے باعث کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے
اس سیریز میں پاکستان کی طرف سے اظہر علی نے سب سے زیادہ رنز 210 سکور کیے جبکہ بولنگ میں یاسر شاہ 11 وکٹ لے کر سرفہرست رہے۔ ٹی 20 سیریز میں دونوں ٹیموں نے ایک ایک میچ جیتا جبکہ ایک بارش کی نذر ہو گیا اور سارے میچ خالی میدانوں میں کھیلے گئے۔ زمبابوے کی ٹیم نے پاکستان کادورہ کیا اور ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی سیریز کھیلی جس میں سوائے ایک میچ کے سب میچ پاکستان آسانی سے جیت گیا۔
دورہ نیوزی لینڈ
سال کے آخر میں نیوزی لینڈ کا دورہ کچھ کھلاڑیوں میں کورونا وائرس کے مثبت رپورٹ ہونے سے مشکلات کا شکار ہو گیا اور قرنطینہ کی مدت بڑھنے سے ٹیم کو تیاری کا مناسب وقت نہیں مل سکا۔ ٹی 20 سیریز میں نیوزی لینڈ نے پہلے دو میچ باآسانی جیت لیے لیکن آخری میچ میں محمد رضوان کی شاندار بیٹنگ نے فتح سےہمکنار کر دیا۔
ابتدائی ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست ہوئی لیکن فواد عالم اور محمد رضوان کی شاندار بیٹنگ نےمیچ کو کافی حد تک ڈرا کی طرف موڑ دیا تھا۔ ان دونوں کے علاوہ بقیہ بلے باز ناکام رہے۔ فواد عالم نے 11 سال کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کی اور کیریئر کی دوسری شاندار سنچری بناکر دنیا بھر سے داد وصول کی۔
انفرادی کارکردگی
انفرادی کارکردگی میں اگر بلے بازوں کو دیکھیں تو بابر اعظم سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے چھ ٹیسٹ اننگز میں 338 رنز بنائے۔ ایک روزہ میچوں میں 221 رنز بنائے البتہ ٹی 20 میں 415 رنز بناکر محمد حفیظ ان سے آگے رہے۔ بولنگ میں ٹیسٹ میچوں میں یاسر شاہ 18 وکٹیں لے کر سر فہرست رہے جبکہ ٹی 20 میں عثمان قادر نے چار وکٹ لے کر نمایاں رہے۔
پاکستان نے اس سال صرف پانچ ٹیسٹ میچ کھیلے اس لیے کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا۔ مجموعی طور پر صرف بابر اعظم ہی نمایاں کھلاڑی رہے جن کی کارکردگی روز بروز بہتر ہو رہی ہے۔
پاکستان سپر لیگ
کرونا کے باعث آخری میچ ملتوی کر دینے سے لیگ میں دلچسپی کا عنصر بنتا اور بگڑتا رہا۔ کراچی کنگز نے پہلی دفعہ لیگ ٹائٹل جیتا۔ بابر اعظم نے لیگ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا اور ان کی بیٹنگ نے فائنل میں بھی لاہور قلندرز کو بے بس کیے رکھا۔ سپر لیگ میں کرونا وبا کے باوجود غیر ملکی کھلاڑیوں نے پہلے سیشن میں شرکت کی لیکن نومبر میں دوسرے سیشن میں زیادہ تر کھلاڑی نہیں آ سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انٹرنیشنل رینکنگ میں پاکستان کی طرف سے پہلے دس کھلاڑیوں میں صرف بابر اعظم ہی نظر آئے۔ تینوں فارمیٹ میں وہ پہلی پانچ پوزیشن پر براجمان رہے۔ اگرچہ نیوزی لینڈ کے دورے پر ٹی 20 سیریز اور پہلا ٹیسٹ ہاتھ زخمی ہونے کے باعث نہیں کھیل سکے، تاہم ان کی رینکنگ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
بابر اعظم کے برعکس ان کے ہم عصر سٹیو سمتھ اور ویرات کوہلی اس سال تنزلی کا شکار ہیں، البتہ کین ولیمسن بابر اعظم سے بہترنظر آتے ہیں۔ البتہ بولنگ میں کوئی بھی پاکستانی عالمی منظر نامے میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔
کپتانی کے مسائل
سال کے پہلے چھ ماہ میں کپتانی اظہر علی کے پاس رہی مگر نیوزی لینڈ کے دورے سے قبل انھیں یہ کہہ کر ہٹا دیا گیا کہ وہ کمزور کپتان ہیں اور کپتانی کا تاج بابر اعظم کے سر پر سجا دیا گیا۔ جب نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں وہ دستیاب نہیں تھے تو محمد رضوان نے کپتانی کی اور ناقدین کو اپنی کپتانی سے حیران کر دیا۔
پاکستان ٹیم کی مجموعی کارکردگی ملی جلی رہی۔ کمزور حریف کے خلاف تو کارکردگی اچھی رہی لیکن انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کےخلاف پریشانیوں کے شکار رہی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس سال ڈومیسٹک کرکٹ پر بھرپور توجہ دی اور قائید اعظم ٹرافی کے میچ عمدگی سے کرائے گئے اور اکثرمیچ لائیو ٹیلی کاسٹ کیے گئے۔ اس کے ساتھ ٹی 20 کے نیشنل کپ اور پاکستان کپ بھی منعقد ہوئے جن سے عبداللہ شفیق اور دوسرے کھلاڑیوں کی قومی ٹیم تک رسائی ہو سکی۔
آئی سی سی کی دہائی کی متنازع ٹیم
آئی سی سی نے اس سال گذشتہ دس سالوں پر محیط عرصہ میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کرکٹروں پر مشتمل دہائی کی ٹیموں کااعلان کیا۔ تینوں فارمیٹ کی ٹیموں میں کوئی پاکستانی جگہ نہ بنا سکا، جبکہ بھارتی کھلاڑیوں کا راج رہا۔
اس انتخاب پر دنیا بھر سے تنقید کی گئی، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ سوائے بابر اعظم کے کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کی کارکردگی اتنی زبردست نہیں تھی کہ وہ بین الاقوامی ٹیم میں شمولیت کا حقدار ٹھہرتا۔
2020 کا سورج جب غروب ہو رہا ہے تو ہر ذہن میں یہی ایک سوال ہو گا کہ گزرتے ہوئے سال میں عالمی وبا کے سبب کھیلوں کے مقابلوں پر جو پابندیاں لگائی گئیں اور کرکٹ سمیت ہر کھیل کا روایتی رنگ پھیکا پڑ گیا، کیا 2021 میں ہم اس سے نجات حاصل کرسکیں گے؟
کھیلوں پر عالمی وبا کے اثرات سے اس کی نوعیت اور اس کی اصل شکل تو مدھم پڑ گئی ہے لیکن آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز کی آمدنی کم ہوجانے سے مالی مشکلات پیدا ہونے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔