جب محمد رضوان کے والد نے ان کی کرکٹ کٹ جلا دی

پشاور سے پہلی مرتبہ پاکستان کرکٹ کے کپتان محمد رضوان کے والد ان کے کرکٹ کھیلنے کے سخت خلاف تھے۔

 رضوان کے گھر میں ایک پورا کمرہ ان کے تمغوں اور تصاویر سے سجایا گیا ہے جب کہ ان کے گھر کو جانے والا راستہ بھی ’رضوان سٹریٹ‘ کے نام سے مشہور ہے (تصاویر بشکریہ محمد عباس)

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز کے تیسرے اور آخری میچ میں اپنے 89 رنز کی مدد سے پاکستان کو ’وائٹ واش‘ سے بچانے والے کھلاڑی محمد رضوان کو بابر اعظم کے زخمی ہونے پر کیویز کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ کی قیادت سونپی گئی ہے۔ 

رضوان پہلی مرتبہ ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کریں گے، یوں وہ پشاور کے پہلے اور خیبر پختونخوا سے دوسرے ٹیسٹ کپتان ہونے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

 

کرکٹ کیریئر کا آغاز کیسے کیا؟

رضوان بچپن ہی سے کرکٹ کے دیوانے تھے، جس کی وجہ سے 16 سال کی عمر میں انہیں اسلامیہ کالج میں سپورٹس کوٹے پر داخلہ مل گیا۔ رضوان کے اہل خانہ کے مطابق ان کے والد کو ان کا کرکٹ کھیلنا سخت ناپسند تھا اور وہ چاہتے تھے کہ رضوان اپنی توجہ پڑھائی پر مرکوز رکھیں اور مستقبل میں خاندان کے دیگر نوجوانوں کی طرح طب کا شعبہ اختیار کریں۔

جب رضوان کسی طور کرکٹ سے باز نہ آئے تو ان کے والد ان کے ساتھ سختی سے پیش آنے لگے، یہاں تک کہ ان کی کٹس کو بھی جلا دیا۔ تاہم جس دن انہیں خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج میں سپورٹس کوٹہ پر داخلہ ملا تو اس دن رضوان کو والد نے کھل کر کرکٹ کھیلنے کی اجازت دی، اور یوں انہوں نے پوری توجہ و توانائی کرکٹ پر صرف کرنا شروع کر دی۔

اسلامیہ کالج پشاور میں ان کے کوچ اور استاد محمد علی ہوتی نے رضوان کے لڑکپن کے دنوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ شروع سے ہی ایک اچھے، پرعزم اور محنتی کھلاڑی تھے۔

’اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے وہ اسلامیہ کرکٹ ٹیم اور دیگر کئی ڈومیسٹک میچز کے کپتان بنے۔ ایک وقت آیا جب مجھے لگا کہ رضوان کے لیے کھلاڑی کے طور پر سیکھنا زیادہ اہم ہے لہٰذا میں نے ان سے قیادت واپس لے لی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کھلاڑی کے طور پر ان کے سیکھنے کا عمل متاثر ہو۔‘

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنے والے محمد رضوان کے بھائی محمد عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رضوان کے کرکٹ کیریئر میں اہم موڑ وہ تھا جب 2010 میں وہ ایس این جی پی ایل  (سوئی ناردرن گیس پائپ لمیٹڈ) کے خلاف کھیل رہے تھے۔

’یہ میچ پشاور جیت گیا تھا، تاہم کھلاڑی کے طور پر رضوان کی اچھی پرفارمنس پر ایس این جی پی ایل نے انہیں پیشکش کی، جس کے بعد انہیں بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کا موقع ملا۔‘

 اگرچہ رضوان کو عالمی سطح پر قیادت کا موقع اتفاق سے ملا، تاہم ان کے اہل خانہ اور کرکٹ کی دنیا سے وابستہ ان کے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ نہ صرف قسمت نے ان کا ساتھ دیا بلکہ ان میں کپتان بننے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔

گھریلو پس منظر

رضوان کا تعلق درہ آدم خیل سے ہے لیکن ان کے آباؤ اجداد تعلیم و کاروبار کی غرض سے پشاور آکر بس گئے تھے۔  وہ تین بھائیوں اور دو بہنوں میں دوسرے نمبر پر اور شادی شدہ ہیں۔

ان کی والدہ نے، جو اپنے بیٹے کی کرکٹ مصروفیات سے قطعی لاعلم رہتی ہیں، روایتی قبائلی لہجے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں بیٹے کے کپتان ہونے کی کچھ معلومات نہیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا کر کہا: ‘میری نہ تو کرکٹ میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اس کی سمجھ ہے، تو میں کرکٹ دیکھتی ہی نہیں۔ باقی اولاد ہے تو دعائیں کرتی رہتی ہوں کہ اللہ انہیں کامیابی عطا کرے۔‘

رضوان کے گھر میں ایک پورا کمرہ ان کے تمغوں اور تصاویر سے سجایا گیا ہے جب کہ ان کے گھر کو جانے والا راستہ بھی ’رضوان سٹریٹ‘ کے نام سے مشہور ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بھائی محمد عباس نے کہا کہ رضوان نے کرکٹ کی دنیا میں بہت مشکلات جھیلی ہیں، جن میں بعض ایسے مرحلے بھی آئے جس نے خود انہیں بھی غمگین کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ ان باتوں کا برملا اظہار نہیں کرنا چاہتے۔

انہیں نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والے دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں کپتانی کی ذمہ داری ریگولر کپتان بابر اعظم کے انگوٹھے پر چوٹ  لگنے کی وجہ سے سونپی گئی ہے۔ رضوان نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ٹیسٹ سیریز سے قبل ٹی ٹوئنٹی میچ کھیل کر ان کے حوصلے بلند ہوئے جو کہ ٹیسٹ سیریز میں ان کے لیے کافی اہمیت کی حامل ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ