اظہر علی جیسے 'بے اختیار کپتان' سے اور کیا چاہتے ہیں ؟

اظہر علی کو ہر سیکنڈ کی ہدایت ڈریسنگ روم سے دی جاتی ہے اور وہ بھی اپنے استاد کی ہدایات سے روگردانی نہیں کرتے۔  جو لکھاہوا سبق ملتا ہے اس کو من و عن میدان میں دہرا دیتے ہیں۔

(اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا خواب تو سب ہی دیکھتے ہیں لیکن نصیب بس انہی کو ہوتی ہے جو یا تو بورڈ کو دباؤ میں لائیں یاپھر بورڈ کے دباؤ میں رہیں ۔

 قائدانہ صلاحیت کی بنا پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے بہت کم کپتان بنائے اور جو بن بھی گئے تو چند دن ہی رہ سکے ۔

پہلے کپتان سے لے کر موجودہ کپتان تک اکیلے جاوید میاں داد تھے جنھیں قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر  کپتانی کا تاج پہنایا گیا لیکن تیز مزاج اور بہت زیادہ بولنے کے باعث جلد ہی فارغ ہوگئے۔

عمران خان اور عبدالحفیظ کاردار بورڈ کو دباؤ میں لا کر کپتان بنے دونوں نے اپنی مرضی سے کپتانی کی اور مکمل سیاہ و سفید کےمالک رہے۔

عمران خان تو اس قدر خود مختار تھے کہ کھلاڑی تو کجا ٹیم کا مینیجر بھی ان سے پوچھ کر رکھا جاتا تھا جس کھلاڑی پر وہ ہاتھ رکھتے اس کو ٹیم میں شامل کرلیا جاتا، خود ٹرائلز لیتے اور منتخب کرتے تھے۔

ان کے بعد کوئی ایسا کپتان نہ آسکا جو اتنا خود مختار ہوتا ۔

وسیم اکرم اور وقار یونس حتی الامکان اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے تھے لیکن میچ فکسنگ کے الزامات اور لاہور کراچی کی گروہ بندی نے وسیم اکرم کو متنازعہ کپتانوں کی فہرست میں شامل کردیا ۔

یونس خان شاید آخری کپتان تھے جو اپنی بات منوانا چاہتے تھے لیکن ارباب اختیار نے انھیں اس قدر لاچار کردیا کہ وہ خود ہی گھربیٹھ گئے ۔

کچھ کپتان ایسے تھے جو چوائس نہ ہونے کی وجہ سے کپتان بن گئے جن میں رمیز راجہ، سلیم ملک، محمد یوسف، ماجد خان، جاویدبرکی وغیرہ شامل ہیں تو ان کا ذکر تو بے سود ہے ۔

کپتانی کا صحیح دور انضمام الحق اور مصباح الحق نے دیکھا دونوں نے طویل عرصہ کپتانی کی لیکن بورڈ سے الجھے نہ من مانی کی۔

 انضمام اپنی سادگی کے باعث مشہور ہوئے، اچھے اخلاق کی بدولت وہ کھلاڑیوں میں بھی مقبول رہے۔

مصباح الحق حقیقی معنوں میں ایک ڈمی کپتان تھے وہ بورڈ اور کوچ کے عین مطابق چلتے تھے۔ خوش قسمت رہے کہ ان کے دور میں زیادہ تر سیریز عرب امارات میں کھیلی گئیں جس نے ان کی جیت کا تناسب بہتر کردیا۔

خاموش کم گو مصباح کی اعلی تعلیم نے انھیں سابق کھلاڑیوں میں بھی مقبول رکھا جس کے نتیجے میں ان پر تنقید کم ہوئی۔ سلمان بٹ سکینڈل کے بعد وہ پاکستان ٹیم کی تعمیر نو کے معمار سمجھے جاتے ہیں حالانکہ وہ ایک کمزور فیصلے کرنے والے دفاعی کپتان تھے۔

وہ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی شکست سے بچاؤ کا سوچتے تھےوہ قلعہ بند ہوکر دفاع پر یقین رکھتے تھے ۔

مصباح کے جانے کے بعد ان کی مرضی کے خلاف سرفراز احمد کو کپتان بنایا گیا جو اگرچہ منکسر مزاج اور محنتی کھلاڑی  ہیں لیکن مسلسل شکستوں نے ان کا مستقبل تاریک کردیا۔

جتنی تنقید سرفراز پر ہوئی ہے شاید کسی اور کپتان پر ہوئی ہو۔

اظہر علی موجودہ کپتان مصباح کے شاگرد بھی ہیں اور مرید بھی، ان ہی کی طرح دفاعی حکمت عملی اور کمزور فیصلے ان کی پہچان ہیں۔

اظہر علی کو ہر سیکنڈ کی ہدایت ڈریسنگ روم سے دی جاتی ہے اور وہ بھی اپنے استاد کی ہدایات سے روگردانی نہیں کرتے۔  جو لکھاہوا سبق ملتا ہے اس کو من و عن میدان میں دہرا دیتے ہیں۔

گزشتہ مانچسٹر ٹیسٹ میں بھی اظہر صورت حال کے بجائے ہدایات کے مطابق کپتانی کرتے رہے۔

جہاں تیز بولرز کی ضرورت تھی وہاں وہ یاسر شاہ کو استعمال کرتے رہے  اور جب سپنرز کو استعمال کرنا چاہئیے تھا تو وہ فاسٹ  بولرز کے کوٹے پورے کررہے تھے ۔

روایتی طور پر اگر کم سکور ہو تو ہمیشہ فیلڈرز کو قریب لے کر بیٹسمینوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے لیکن اظہر  کلوز فیلڈنگ کے بجائےمحدود اوورز کی فیلڈنگ سیٹ کرتے رہے کیونکہ حکم ہی یہی تھا۔

مانچسٹر ٹیسٹ ہارنے کے بعد اظہر پر سابق کرکٹرز کی  تنقید بلاجواز ہے انہوں نے وہی کیا جو کہا گیا تھا۔

پاکستان ٹیم ہمیشہ چھ باقاعدہ بلے بازوں کے ساتھ کھیلتی رہی ہے اور اظہر بھی یہی چاہتے تھے لیکن دو سپنرز کا غل مچانے والےمصباح الحق نے  اپنی بات صحیح ثابت کرنے کے لیے چھٹے بیٹسمین کی جگہ دو سپنر کھلادیے  حالانکہ دوسرا سپنر پورے میچ میں چند ہی اوورز کرسکا ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ایک کپتان کو  ٹیم اپنے مطلب کی ملے اور نہ فیصلوں کی آزادی تو نتائج بھی اس کے سر نہ ڈالیے۔ بلکہ اس شکست کا آپریشن وہاں سے شروع کیجیے جہاں سے دفاعی اور کمزور سوچ رکھنے والے مصباح الحق کو پاکستان کرکٹ کے سارے اختیارات دے دیےگئے اور اس سارے نظام کو درہم برہم کرنے میں وہ ہی آگے آگے تھے جو آج اظہر علی پر گولہ باری کررہے ہیں۔

 کوچز کی بھرمار میں کپتانی کسی طوق سے کم نہیں۔ ہر کوچ اپنی طاقت کے مطابق ٹیم کی ٹانگ کھینچ رہا ہے۔  کسی کو نہیں پتہ کہ بولنگ، بیٹنگ، فیلڈنگ کے مختلف کوچز کے درمیان مصباح الحق کس چیز کے کوچ ہیں؟ ممکن ہے وہ کوچز کی کوچنگ کررہے ہوں ۔

ایک ایسے بے اختیار کپتان سے آپ اور کیا توقع کرتے ہیں جو مرضی سے ٹیم بنا سکے نہ آزادی سے فیصلے کرسکے۔

اگر لکھے ہوئے سکرپٹ کے مطابق قیادت کرنا پڑے تو نتیجے پھر مانچسٹر ٹیسٹ جیسے ہی آتے ہیں ۔

انگلینڈ کے دورے میں ابھی دو ٹیسٹ باقی ہیں شکست کے بوجھ سے دبے ہوئے اظہر علی سے آپ اور کیا چاہتے ہیں ؟

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ