سٹار بلے باز ویراٹ کوہلی اور روہت شرما کے بغیر میدان میں اترنے والی نئی انڈین ٹیم جب انگلینڈ میں 18 سال بعد ٹیسٹ سیریز جیتنے کی کوشش کرے گی تو تمام نظریں شبھمن گل پر مرکوز ہوں گی۔
شبھمن گل نے روہت شرما کی جگہ کپتانی سنبھالی ہے۔ روہت نے گذشتہ ماہ ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ کچھ دن بعد کوہلی نے بھی ریڈ بال انٹرنیشنلز کو خیرباد کہہ دیا تھا۔
اب گل کے لیے صرف قیادت ہی نہیں بلکہ بیٹنگ آرڈر میں کوہلی کی چوتھی پوزیشن پر بیٹنگ کرنے کی اضافی ذمہ داری بھی ہے۔
انڈیا کے نائب کپتان رشبھ پنت نے بدھ کو انکشاف کیا کہ انگلینڈ کے خلاف لیڈز میں جمعہ سے شروع ہونے والی پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں گل اسی نمبر پر بیٹنگ کریں گے۔
25 سالہ گل کا ٹیسٹ بیٹنگ سکور 35 میچوں میں اوسط 35 ہے جبکہ بیرونِ ملک یہ اوسط 29 ہے اور انگلینڈ میں تین میچوں کی بات کی جائے تو یہ 15 سے کم ہے۔
گذشتہ تین دہائیوں میں انڈین کرکٹ ٹیم میں چار نمبر پر بہترین بلے باز سچن ٹنڈولکر اور کوہلی کا غلبہ رہا ہے، جنہوں نے اس خاص نمبر پر 278 ٹیسٹوں میں 21,056 رنز بنائے۔
گل کا پہلا چیلنج اس بات کو یقینی بنانا ہو کہ کپتانی کا بوجھ اس کی بیٹنگ پر منفی اثر نہ ڈالے، جہاں انڈیا نے صرف تین ٹیسٹ سیریز جیتی ہیں — 1971، 1986 اور 2007 میں۔
اب تک گل کے بیانات مثبت رہے ہیں۔ گذشتہ ماہ انہوں نے کہا تھا: ’میں مثال بن کر قیادت پر یقین رکھتا ہوں صرف کارکردگی سے نہیں، بلکہ میرا خیال ہے کہ میدان سے باہر نظم و ضبط اور محنت سے بھی۔‘
شبھمن گل کو وکٹ کیپر بلے باز رشبھ پنت کا ساتھ حاصل ہو گا جو 2022 میں پیش آنے والے جان لیوا کار حادثے کے بعد کرکٹ میں واپس آئے ہیں، جبکہ اوپنر یشسوی جیسوال کھیل کے ابھرتے ہوئے ستاروں میں سے ایک ہیں۔
لیکن صرف بیٹنگ ہی نہیں، انڈیا کو اپنے تجربہ کار کھلاڑیوں کے بغیر دیگر شعبوں میں بھی مقابلہ کرنا ہو گا۔
جسپریت بمرا کو اس وقت دنیا کا بہترین آل فارمیٹ بولر مانا جاتا ہے، مگر کمر کی انجری سے واپسی کے بعد وہ مصروف شیڈول کے باعث ممکنہ طور پر پانچ میں سے صرف تین ٹیسٹ میچز کھیل سکیں گے۔
دوسری جانب، تجربہ کار آف اسپنر روی چندرن ایشون ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہو چکے ہیں، جبکہ فاسٹ بولر محمد شامی پچھلے سال کی ٹخنے کی سرجری کے بعد مکمل طور پر فٹ نہیں اور انہیں سکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا۔
’ان کے پاس قوت کافی ہے‘
اگر انڈیا کی جانب سے کسی ٹیسٹ میچ میں جیت کے لیے درکار 20 وکٹیں لینے کی صلاحیت پر شبہات پائے جاتے ہیں، تو یہی خدشات انگلینڈ کے متعلق بھی ہیں۔
گذشتہ سال انڈیا میں4 -1 سے شکست کھانے والی بین سٹوکس کی ٹیم سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ہوم گراؤنڈ پر صورت حال کا پلٹ کر رکھ دے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سیریز ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے نئے سائیکل کا آغاز ہے، جو جنوبی افریقہ کی جانب سے گذشتہ ہفتے لارڈز میں آسٹریلیا کو سنسنی خیز شکست دینے کے بعد شروع ہو رہی ہے۔
تاہم انگلینڈ کو اپنے دو ریٹائرڈ سٹار بولرز جیمز اینڈرسن اور سٹورٹ براڈ کی خدمات حاصل نہیں ہوں گی، جو مشترکہ طور پر 1,308 وکٹوں کے ساتھ انگلینڈ کے سب سے کامیاب ٹیسٹ بولرز رہے ہیں۔
رشبھ پنت نے کہا: ’ جب یہ دونوں (اینڈرسن اور براڈ) موجود نہیں ہوتے تو بہت اچھا لگتا ہے۔‘
تاہم انہوں نے مزید کہا: ’اس کے باوجود، انگلینڈ کے باؤلنگ لائن اپ میں کافی قوت باقی ہے۔ ہم کسی کو بھی ہلکا نہیں لینا چاہتے کیونکہ ہماری ٹیم بھی نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جو ابھی خود کو نکھارنے کے مراحل میں ہے۔‘
انگلینڈ کی خواہش تھی کہ جوفرا آرچر اور مارک ووڈ دونوں کو ایک ساتھ باؤلنگ اٹیک میں شامل کیا جائے، مگر ان فاسٹ باؤلرز کی بار بار کی انجری اس میں رکاوٹ بن گئی۔
ہیڈنگلے میں آرچر اور ووڈ دونوں دستیاب نہیں ہوں گے، جہاں ڈرہم کے پیسر برائیڈن کارس اپنے ہوم گراؤنڈ پر ڈیبیو کرنے جا رہے ہیں۔ اس اٹیک میں کرس ووکس سب سے تجربہ کار تیز گیندباز ہوں گے، جنہوں نے سیزن کے آغاز میں ٹخنے کی انجری کے باعث زیادہ تر میچز نہیں کھیلے۔
برائیڈن کارس نے کہا: ’اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کئی سالوں سے انگلینڈ کے لیے براڈ اور اینڈرسن مرکزی گیند باز رہے ہیں، تو اب ٹیم نسبتاً کم تجربہ کار دکھائی دیتی ہے۔‘
انتیس سالہ کارس نے مزید کہا: ’میرے خیال میں یہ کم تجربہ رکھنے والے چند نوجوان کھلاڑیوں کے لیے سیریز کے دوران اپنی صلاحیت منوانے کا اچھا موقع ہے۔‘
تاہم براڈ نے دی ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا:’انگلینڈ کو جتنی انجری مسائل کا سامنا ہے، ایسے میں وہ 20 وکٹیں کہاں سے لائیں گے؟‘