جنوبی افریقہ نے ہفتے کو دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا کو پانچ وکٹوں سے شکست دے کر ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیت لی۔
پروٹیز نے آج فائنل کے چوتھے دن کی صبح درکار آخری 69 رنز بآسانی مکمل کر لیے۔ یہ 27 سال بعد ان کا پہلا بڑا کرکٹ ٹائٹل ہے، جس پر لارڈز میں بھر پور جشن منایا گیا۔
انہوں نے گذشتہ روز کے 213 رنز دو کھلاڑی آؤٹ سے آج کھیل کا آغاز کیا اور تین وکٹیں مزید کھونے پر 282 رنز کا ہدف حاصل کر لیا۔
یہ لارڈز کی 141 سالہ ٹیسٹ تاریخ میں دوسرا سب سے بڑا کامیاب رن چیس ہے۔جنوبی افریقہ کی اس تاریخی فتح کے سب سے بڑے معمار ایڈن مارکرم تھے، جنھوں نے 282 رنز کے مشکل ہدف کے تعاقب میں حوصلہ، حکمت اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ناقابل فراموش اننگز کھیلی۔
ان کی جادوئی اننگز صرف جیت کا سبب نہیں بنی بلکہ اس نے ٹیسٹ کرکٹ کے حسن اور وقار کو بھی دوبالا کیا۔ وہ فارمیٹ جسے آج کئی ممالک میں نظر انداز کیا جا رہا ہے، جنوبی افریقہ نے اسے نئی زندگی بخشی۔
لارڈز میں ٹیسٹ کا جادو
لارڈز کے 32 ہزار نشستوں پر مشتمل سٹیڈیم میں ایک بھی سیٹ خالی نہ تھی اور باہر ٹکٹ بلیک میں فروخت ہو رہے تھے۔
سینٹ جانز ووڈ سٹیشن سے سٹیڈیم جاتے ہوئے ہم نے درجنوں لوگوں کو ٹکٹ کی تلاش میں بھاگتے دیکھا — حالانکہ یہ فائنل دو غیر مقامی ٹیموں کے درمیان تھا۔
لیکن کرکٹ شائقین جانتے تھے کہ وہ ایک تاریخی مقابلہ دیکھنے جا رہے ہیں اور چوتھے دن کے آغاز تک اسٹیڈیم کا ہر کونہ تماشائیوں سے بھر چکا تھا۔
میچ کا ماحول، پچ اور نتیجہ
یہ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے دیکھا۔ پہلی گیند سے آخری گیند تک میچ سنسنی خیز رہا۔
برسوں بعد لارڈز کی ایسی پچ دیکھنے کو ملی جس نے بولرز کو مدد دی۔ عام طور پر یہاں بلے باز نمایاں رہتے ہیں۔
مارکرم — ایک فاتح کی کہانی
مارکرم کو اکثر جنوبی افریقہ کا ’جو روٹ‘ کہا جاتا ہے۔ پہلی اننگز میں صفر پر آؤٹ ہونے والے مارکرم کے لیے دوسری اننگز آسان نہیں تھی۔
282 رنز کے ہدف اور آسٹریلیا کے خطرناک فاسٹ بولرز کے سامنے انھوں نے غیر معمولی اعتماد سے بیٹنگ کی۔
ریان رکیلٹن جلدی آؤٹ ہو گئے، مگر مارکرم نے ویان مولڈر کے ساتھ 61 اور کپتان ٹمبا باووما کے ساتھ 147 رنز کی شراکت قائم کر کے ٹیم کو فتح کے دہانے پر پہنچا دیا۔
وہ 136 رنز کی اننگز کھیل کر ہیزل ووڈ کی گیند پر آؤٹ ہوئے، مگر تب تک وہ اپنا کام کر چکے تھے۔ اس اننگز میں ان کے 14 چوکے شامل تھے۔
کگیسو ربادا کی شاندار بولنگ
پروٹیز کی کامیابی کی ایک اور بڑی وجہ ربادا کی تباہ کن بولنگ تھی۔ پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری میں چار وکٹیں لے کر انھوں نے آسٹریلوی بیٹنگ لائن کی کمر توڑ دی۔
ان کی لائن، لینتھ اور رفتار شاندار تھی اور ہر بار جب کپتان نے ان پر بھروسہ کیا، وہ وکٹ لے کر لوٹے۔
باووما کی خاموش قیادت
باووما نے خاموش لیکن مضبوط قیادت کی۔ بولنگ تبدیلیوں سے لے کر فیلڈ سیٹ اپ تک، ہر فیصلے میں ہوش مندی نظر آئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہلی اننگز میں جب ٹیم مشکلات میں تھی، انہوں نے ڈیوڈ بیڈنگھم کے ساتھ 90 رنز کی شراکت کر کے خسارہ کم کیا۔
دوسری اننگز میں ان کی 66 رنز کی اننگز کئی سنچریوں پر بھاری رہی۔
آسٹریلیا کی ناکامی کی وجوہات
اگرچہ آسٹریلیا نے سیزن بھر شاندار کارکردگی دکھائی مگر فائنل میں وہ بکھرے ہوئے نظر آئے۔ مستند اوپنرز کی عدم دستیابی، مارنس لابوشین کا غیر فطری اوپننگ پر آنا اور کیمرون گرین کی غیر معمولی ون ڈاؤن پوزیشن — یہ سب فیصلے غلط ثابت ہوئے۔
بولنگ میں بھی غلطیاں ہوئیں۔ جاش ہیزل ووڈ کی جگہ بولینڈ کو نہ کھلانا مہنگا پڑا، جبکہ نیتھن لائن بھی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔
اگر مچل سٹارک اور ایلکس کیری کچھ مزاحمت نہ کرتے تو میچ تیسرے دن ہی ختم ہو جاتا۔
اب کوئی ’چوکر‘ نہ کہے!
جنوبی افریقہ نے 100 سال سے زائد کی کرکٹ تاریخ میں پہلی بار آئی سی سی کا کوئی ایونٹ جیتا ہے۔ کئی بار وہ سیمی فائنل یا فائنل میں پہنچے لیکن جیت نہ سکے، جس کی وجہ سے انھیں ’چوکر‘ کہا جانے لگا۔
مگر اب مارکرم کے بلے، ربادا کی بولنگ اور باووما کی قیادت نے دنیا کو بتا دیا کہ وہ صرف اہل نہیں، بلکہ چیمپیئن ہیں۔
جنوبی افریقہ نے ثابت کر دیا ہے کہ جیت صبر، حکمت اور خود اعتمادی سے حاصل کی جاتی ہے۔