آیا صوفیہ کے بارے میں نئے حیران کن حقائق

 برطانوی اور چیک ماہرین آثار قدیمہ رومی قسطنطنیہ کے پیچیدہ اسرار سے پردہ اٹھاتے ہیں۔

پچھلے ڈیڑھ ہزار سالوں میں آیا صوفیہ یونانی آرتھوڈاکس چرچ، پھر کیتھولک چرچ، پھر عثمانی مسجد، پھر عجائب گھر اور ایک بار پھر مسجد بن گیا ہے (پکسا بے)

برطانوی اور کچھ دیگر محققین دنیا کی اہم ترین عمارات میں سے ایک کے طویل عرصے تک پوشیدہ رہنے والے حقائق سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ایک عشرے سے زیادہ کی مسلسل تحقیقات سے یورپ کی سب سے وسیع اور تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کی سب سے بڑی تاریخی عمارت استنبول کے سابقہ چرچ آیا صوفیہ کا اصل ڈیزائن اور زیر زمین آثار دریافت ہوئے ہیں۔

محققین نے پہلی بار چھٹی صدی والے اصل چرچ کے خد و خال، طویل مدت سے گم شدہ ایک کلومیٹر سے زیادہ لمبی سرنگ اور وسیع و عریض عمارت کے نیچے زیر زمین تہہ خانوں کے سلسلے سے پردہ اٹھایا ہے۔ نئی دریافتیں اس لیے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ آیا صوفیہ سیاسی، مذہبی اور فن تعمیر کے حوالے سے دنیا کی اہم ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔

بنیادی طور پر اس کی تعمیر کا مقصد اس سیاسی فلسفے کو عملی شکل دینا تھی جو آج بھی دنیا کے کئی خطوں میں غالب ہے، یعنی نظریاتی اور سیاسی طاقت کی آمیزش، چرچ اور ریاست کی یکجائی۔ آیا صوفیہ اسی سیاسی نظریے کی طاقتور علامت اور اس کے تعمیر کنندہ آخری رومی (ابتدائی بازنطینی ) بادشاہ جسٹینین کے طرز حکومت کا عکاس تھی۔

 عظیم ترین رومی بادشاہوں میں سے ایک جسٹینین نے آیا صوفیہ تعمیر کروایا اور رومی سلطنت کے مغربی یورپ میں انہدام کے محض دو نسلوں بعد اپنا مرکزیت اساس سیاسی نظام نافذ کیا جس کے بعد محض جنوب مشرقی یورپ اور مشرق وسطیٰ کے کچھ خطے شاہی اقتدار کے زیر حکومت رہ گئے تھے۔ نتیجتاً جسٹینین کے نئے طاقتور نظام حکومت نے آگے چل کر مشرقی یورپی تاریخ پر کچھ ایسے اثرات مرتب کیے جو مغربی یورپ میں نظر نہیں آتے جہاں چرچ اور ریاست الگ الگ حیثیت میں کام کرتے رہے، اس لیے وہاں سیاست مرکز پسندی کے بجائے آزادانہ روش پر چلتی ہوئی ترقی کے سفر پر گامزن رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آیا صوفیہ کے متعلق ہونے والے نئے انکشافات واضح کرتے ہیں کہ جسٹینین کا عظیم چرچ بازنطینی سلطنت کے دارالحکومت، جسے دوسرا روم بھی کہا جاتا ہے، قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں وسیع و عریض عمارتوں کا ایک حصہ تھا۔ اس تحقیق سے پہلے چرچ کے علاوہ اس مقام پر محض دو بڑی عمارتوں کا نشان ملتا تھا۔

تاہم برطانوی اور چیک ماہرین آثار قدیمہ نے آیا صوفیہ سمیت یہاں کم سے کم پانچ عظیم الشان عمارات کا انکشاف کیا ہے۔

نئی دریافت ہونی والی عمارات میں درج ذیل شامل ہیں: پر شکوہ محل جسے جسٹینین نے اپنی سلطنت میں پھیلے چرچوں کے اہم ترین حکومتی نمائندے قسطنطنیہ کے پادری کے لیے تعمیر کیا۔ عمدہ ساز و سامان سے آراستہ عظیم بتمسہ گاہ جہاں جسٹینین کے بعد آنے والے حکمرانوں کے بچوں (اکثر مستقبل کے بادشاہ کو) کو بتسمہ دیا جاتا تھا۔ مذہبی مشاورتی کونسل جہاں عیسائیت کے اہم ترین مذہبی اور دیگر معاملات کا فیصلہ کیا جاتا تھا (جن میں حضرت مریم کی مذہبی حیثیت میں اضافے کا بہت اہم تاریخی فیصلہ بھی شامل ہے)۔ اسی عمارت میں پادریوں کے لیے ایک بڑی لائبریری بھی قائم تھی۔

ماہرین آثار قدیمہ نے چھٹی صدی کی نو پینٹنگز اور چرچ کے غیر دریافت شدہ داخلی راستہ پر موجود دو پچی کاری سے آراستہ ٹکڑے بھی دریافت کیے ہیں۔ تحقیقی منصوبے کے شریک سربراہ اور ریڈنگ یونیورسٹی کے پروفیسر کن ڈارک نے اس حوالے سے کہا کہ ’طویل اور مفصل تحقیق نے کم و بیش پانچ صدیوں میں پہلی مرتبہ ٹھوس ثبوت پیش کیا ہے کہ آیا صوفیہ کیسے بازنطینی سلطنت کے مرکز میں قائم اہم ترین وسیع و عریض مذہبی عمارات کے سلسلے کا ایک حصہ تھا۔‘ اس عمارت پر ایک بنیادی کتاب آیا صوفیہ کا پس منظر کے شریک مصنف پروفیسر ڈارک کا کہنا تھا ’دراصل جسٹینین کا تعمیر کردہ عظیم چرچ اس کی سلطنت کے مذہبی اور سیاسی نظریات کی مادی شکل تھی۔‘

 آثار قدیمہ کی اس تحقیق نے پہلی بار یہ بھی واضح کیا کہ دراصل کس طرح ایک سیکیولر شاہی نظام آیا صوفیہ کی روحانی رسومات میں تبدیل ہو گیا۔ چرچ کے ایک حصے میں ویسے ہی گھومتے ہوئے ماہرین آثار قدیمہ کو اچانک 59 سینٹی میٹر قطر پر مشتمل ارغوانی سنگ مرمر کا دائرہ نظر آیا جہاں بادشاہ جسٹینین اور اس کے بعد میں آنے والے حکمران مذہبی رسومات کے اہم لمحات میں کھڑے ہوا کرتے تھے۔

اب گمان کیا جاتا ہے کہ پورے چرچ میں اہم ترین مقامات پر ایسے شاہی ارغوانی دائروں (سبھی ارغوانی ماربل سے بنے اور یہ ماربل شاہی سلطنت میں شامل مصر سے لائے جاتے تھے) کا ایک پورا سلسلہ تھا۔ لگتا ہے ایک باقاعدہ راستہ تھا جس پر حضرت عیسیٰ کے آخری اقدامات شاہی شکل میں دہراتے ہوئے اس پر یکے بعد دیگرے بادشاہ چلتے رہے اور پادری مذہبی رسومات ادا کرتے رہے۔

پہلی بار ان تحقیقات سے یہ بھی سامنے آیا کہ جسٹینین نے اپنے عظیم الشان چرچ کے باہر چمکتا ہوا سفید سنگِ مرمر لگایا تاکہ سورج کی شعاؤں میں اس کی تابناکی دوچند ہو جائے۔ رومی اور یونانی روایت میں سفید رنگ پاکیزگی کی علامت ہے۔ نئی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ واقعی آیا صوفیہ اس طرح بنایا گیا تھا کہ پوری سلطنت اس کی روشنی سے منور ہو گئی۔ چونکہ جسٹینین نے چرچ اور ریاست کو اکٹھا کر کے اپنا نیا سیاسی نظام قائم کیا اس لیے لگتا ہے اس نے رومی/ بازنطینی شاہی شناخت سلطنت کے مرکز میں چرچ کی صورت میں ایسے نصب کرنے کی ٹھانی جس کی یورپ کی سیاسی تاریخ میں کوئی مثال نہ ملتی ہو۔

نئی دریافتوں بالخصوص نقش و نگار کا تجزیاتی مطالعہ جاری ہے بالکل جیسے حالیہ عرصے میں دریافت ہونے والی چرچ کے کسی معمولی مزدور کی کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے لکھی تحریر کا تجزیاتی مطالعہ جاری ہے۔

برطانوی اور چیک ماہرین آثار قدیمہ کے علاوہ ترکی کے محققین یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ رومیوں نے کیسے سرنگوں اور زیر زمین تہہ خانوں کا جال بچھایا۔

 طویل عرصہ تک نامعلوم رہنے والا یہ زیر زمین سلسلہ اب پانی سے بھرا جا چکا ہے اور اس کی جانچ پڑتال کے لیے فن تیراکی سے واقف ماہرین کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی۔

اگرچہ ان میں سے زیادہ تر ابھی دریافت ہونا باقی ہیں لیکن اندازے کے مطابق آیا صوفیہ میں ہزار میٹر سے زیادہ لمبی سرنگیں اور پوشیدہ کمرے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ان میں سے کچھ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بطور حوض اور باقی ممکن ہے زیر زمین چھوٹی عبادت گاہوں اور تدفین کے لیے کام آتے ہوں۔

جسٹینین کے وسیع عمارات پر مشتمل چرچ کی روزمرہ کی ضروریات بالخصوص اس کے آراستہ باغات کی سیرابی اور شاندار فواروں کا تحرک برقرار رکھنے کے لیے پانی کی بہت اہمیت ہو گی۔

جسٹینین کا آیا صوفیہ چرچ ایک بڑے سیاسی بحران کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں بادشاہ کا تختہ بس الٹنے ہی والا تھا۔ اس کی تعمیر اپنی طاقت کو از سرنو ترتیب دینے کے عزم کی علامتی شکل تھی۔ رومی قسطنطنیہ میں رتھ بانوں والوں کی دو بنیادی ٹیموں کے حامیوں کے درمیان حریفانہ کشمکش بہت شدید اور اکثر تشدد آمیز ہوتی تھی جس کے مقابلے میں آج فٹبال کی ٹیموں کے مختلف حامیوں کا اختلاف کچھ بھی نہیں۔ مزید براں دو رتھ بان ٹیموں کے حامی سیاسی شناخت اور وابستگی بھی مختلف رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک نسبتاً اسٹیبلشمنٹ نواز تھا جب کہ دوسرا بہت کم ایسا رجحان رکھتا تھا۔

527 عیسوی میں اقتدار سنبھالنے کے تقریباً پانچ سال بعد اس چپقلش نے اچانک ایک انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی جس میں قسطنطنیہ (جس میں شہر کا چرچ بھی شامل تھا) کا بڑا حصہ جلا کر راکھ کر دیا گیا اور باغیوں کی طرف سے جسٹینین مخالف نئے بادشاہ کا دعویٰ کر کے تاج پوشی کی گئی۔

ابتدا میں دارالحکومت سے بھاگ نکلنے کی تیاری کے بعد جسٹینین نے (اپنی نامور بیوی تھیوڈورا کی حوصلہ افزائی پر) بے دردی سے بغاوت کچلنے کا فیصلہ کیا۔ کم و بیش 30 ہزار باغی اور دیگر افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے اور جسٹینین نے مزید آمرانہ طرز حکومت لاگو کرنے کے لیے چرچ اور ریاست کی باہم آمیزش کی اور غیر روایتی فن تعمیر کے اصولوں پر نئے عظیم الشان چرچ کی بنیاد رکھی۔ نیا آیا صوفیہ (مطلب ’خدائی دانش‘) کئی طرح سے قدیم تاریخ میں بننے والی کسی بھی عمارت سے بہت مختلف تھا۔ سب سے پہلے تو یہ تقریباً پونے دو لاکھ مربع میٹر کی غیر روایتی وسعت رکھتا تھا۔ دوسرا تب اور آج بھی یہ تقریباً 5200 مربع میٹر کا صحن رکھتا ہے۔

 اب پہلی مرتبہ ماہرین آثار قدیمہ کی دریافتوں سے محققین کو جسٹینین کے عظیم چرچ کے خد و خال دیکھنے اور اس کی سیاسی اہمیت سمجھنے کا موقع ملا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ