ٹیرر فنڈنگ، بھتے میں ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال بڑھ گیا: پاکستانی حکام

کراچی میں انجینیئرنگ کے ایک طالب علم کو شام میں عسکریت پسندوں کو بٹ کوائن سے عطیے بھیجنے پر گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق ملک میں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری میں بھی بٹ کوائن کا استعمال بڑھا ہے۔

پاکستان کے  سٹیٹ  بینک نے اپریل 2018 میں ایک سرکلر کے ذریعے مالیاتی اداروں، بینکوں اور ادائیگی کرنے والے اداروں کو ورچوئل کرنسی یا ٹوکنز میں پیسے منتقل کرنے، محفوظ رکھنے، تجارت کرنے یا استعمال کرنے سے منع کیا تھا (اے ایف پی)

پاکستانی پولیس حکام نے کہا ہے کہ بٹ کوائن سمیت دیگر ڈیجیٹل کرنسیز کا بین الااقوامی دہشت گردی کی فنڈنگ، بھتے اور تاوان جیسے جرائم میں استعمال میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق بٹ کوائن کرنسی، جس کا استعمال اب عام ہو رہا ہے، ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر کسی شناخت کے پیسہ منتقل کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور ایسا کرنے کے لیے کسی تھرڈ پارٹی ویریفیکیشن کی ضرورت نہیں۔

دنیا بھر میں موجود عسکریت پسند گروہ، جن میں داعش بھی شامل ہے، اور ان کے حمایتی ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے عطیات جمع کرنے کی سرگرمیوں میں اضافہ کر چکے ہیں۔

پاکستان نے حال ہی میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے معین کردہ اہداف کو پورا کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں چونکہ ٹیرر فنڈنگ کو نہ روکنے کے الزام میں پاکستان کو 2018 میں 'گرے لسٹ' پر ڈال دیا گیا تھا۔

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو فروری 2021 تک بین الااقوامی طور پر متفقہ ایکشن پلان پر عمل کرنے کا وقت دیا تھا۔ ٹاسک فورس کا اگلا اجلاس 22 سے 25 فروری کے درمیان ہو گا۔

سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ راجہ عمر خطاب نے عرب نیوز کو بتایا کہ 'جب سے ہم نے غیر قانونی فنڈنگ کے خلاف اقدامات اٹھائے ہیں ہم دنیا بھر میں بٹ کوائن کے جرائم میں استعمال کا رجحان دیکھ رہے ہیں۔'

گذشتہ مہینے انہوں نے حافظ محمد عمر بن خالد نامی انجینیئرنگ کے طالب علم کو گرفتار کیا تھا، ان پر شام میں موجود عسکریت پسندوں کو بٹ کوائن کے ذریعے رقوم بھیجنے کا الزام  ہے۔

محکمہ انسداد دہشت گردی کے نائب سربراہ عمر شاہد حامد کا گذشتہ مہینے صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ عمر بن خالد اپنی گرفتاری سے قبل 10 لاکھ روپے بھیج چکے تھے۔ مذکورہ طالب علم کو 2018 میں بھی افغانستان میں القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے لیے مالی مدد بھیجنے پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔

دسمبر 2019 میں عمر بن خالد کو ایک ٹیلی گرام اکاؤنٹ سے بھیجے گئے پیغام میں شام میں موجود داعش کے جنگجوؤں کی بیواؤں کے لیے مدد بھیجنے کا طریقہ کار موصول ہوا۔

ٹیلی گرام کے گروپ میں ایک صارف نے لکھا کہ ’بٹ کوائن کے ذریعے پیسے بھیج کر جہادیوں اور ان کے اہل خانہ کی مدد کریں۔‘ جس کے بعد عمر بن خالد بٹ کوائن والٹ کی تلاش میں لگ گئے جو انہیں حیدر آباد میں ان کے ساتھی ضیا شیخ ترک تک لے گئی۔ ترک نے رقم کو بٹ کوائن میں تبدیل کر کے اسے شام میں موجود ’جہادی دلہنوں‘ کو بھیج دیا۔

رپورٹ کے مطابق ایک عسکریت پسند کی پاکستانی بیوہ جن کی شناخت عمر بن خالد نے ام بلال کے نام سے کی ہے، نے انہیں موبائل والٹ اکاؤنٹ بنانے کا کہا۔

عمر خالد کا کہنا ہے کہ 'ام بلال نے مجھے ایزی پیسہ اکاؤنٹ بنانے کا کہا کیونکہ ان کے جاننے والے بٹ کوائن سے لاعلم تھے لیکن وہ ان کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ میں نے چار لاکھ پچاس ہزار روپے اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کیے اور اپنے پاس سے ایک لاکھ روپیہ اس میں جمع کرایا پھر اسے بٹ کوائن میں تبدیل کروا کے شامل بھیج دیا۔'

گذشتہ سال ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری زوبیہ شہناز کو بھی داعش کو ڈیڑھ لاکھ ڈالرز سے زائد رقم بھیجنے پر 13 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 27 سالہ شہناز نے داعش کے لیے پاکستان، ترکی اور چین میں موجود افراد کو یہ رقم بھیجنے کا اعتراف کیا تھا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے عرب نیوز کو بتایا کہ انہیں حالیہ مہینوں میں ایسی درجنوں شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں متاثرین کو بھتے یا تاوان کی رقم بٹ کوائن میں منتقل کرنے کا کہا گیا۔ اہلکار کے مطابق کرپٹو کرنسی بین الااقوامی اور مقامی کیسز میں استعمال ہو رہی ہے جن میں بھتہ، اغوا برائے تاوان، ہراسانی اور منی لانڈرنگ شامل ہیں کیونکہ اس کا کوئی مرکزی نظام موجود نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دسمبر میں کراچی کی ایک طالبہ سے بھی ایک نامعلوم شخص نے ان کی نجی تصاویر کو پورن ویب سائٹ پر ڈالنے اور انہیں ہٹانے کے لیے 30 لاکھ روپے کی بلیک میلنگ رقم بذریعہ بٹ کوائن طلب کی تھی۔ ایف آئی اے نے اس شخص کا سراغ لگاتے ہوئے معلوم کر لیا تھا کہ یہ افریقہ کے کسی ملک میں مقیم ہے اور اس نے متاثرہ لڑکی کے سنیپ چیٹ کے ذریعے ان کے فون کو ہیک کیا تھا۔

پاکستان کے مرکزی بینک نے اپریل 2018 میں ایک سرکلر کے ذریعے مالیاتی اداروں، بینکوں اور ادائیگی کرنے والے اداروں کو ورچوئل کرنسی یا ٹوکنز میں پیسے منتقل کرنے، محفوظ رکھنے، تجارت کرنے یا استعمال کرنے سے منع کیا تھا۔

ٹی وی میزبان وقار ذکا، جو پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی اجازت کے لیے مہم چلا رہے ہیں، نے گذشتہ جنوری میں ایف آئی اے کے خلاف لوگوں کو بٹ کوائن میں کاروبار کرنے پر گرفتار کرنے پر مقدمہ دائر کیا تھا۔ انہوں نے ورچوئل کرنسی میں کاروبار کرنے کو بنیادی انسانی حقوق قرار دیا تھا۔

وقار ذکا نے عرب نیوز سے گفتگو میں کہا تھا کہ 'کوئی بھی پابندی پاکستانیوں کو بڑا منافع کمانے سے روک دے گی۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک، جو ایف اے ٹی ایف میں موجود ہیں، انہیں کرپٹو کرنسی کی اجازت ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ انٹرنیٹ کے بغیر نہیں چل سکتا اور اس کا ڈیجیٹل پتہ موجود ہوتا ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت