لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب میں زمین و جائیداد پر قبضہ چھڑوانے کے لیے نافظ قانون پروٹیکشن آف اونرشپ آف اموویبل پراپرٹی آرڈیننس 2025 پیر کو معطل کر دیا تھا، جس کے بعد اس پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔
یہ قانون صوبے میں زمین اور جائیداد سے متعلق مقدمات کو 90 دن میں نمٹانے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا تاہم لاہور ہائی کورٹ نے آرڈیننس میں قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر عمل درآمد روکنے اور لارجر بینچ تشکیل دینے کا حکم دیا۔
آرڈیننس کی معطلی پر منگل کو وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے اپنے بیان میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون برسوں سے چلنے والے زمین و جائیداد کے تنازعات کے فوری حل کے لیے بنایا گیا تھا۔
ان کے مطابق عوام کی منتخب صوبائی اسمبلی نے یہ قانون اس لیے منظور کیا تھا کہ طاقتور لینڈمافیا کے چنگل سے عام شہریوں کو نجات مل سکے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس قانون کی معطلی سے قبضہ مافیا کو فائدہ پہنچے گا اور عوام اسے قبضہ گروہوں کی پشت پناہی تصور کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ زمینوں کے مقدمات میں دہائیوں تک سٹے آرڈرز چلتے رہتے ہیں، جس سے متاثرہ افراد انصاف سے محروم رہتے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب حکومت کے جاری کردہ پراپرٹی آرڈیننس سے قانونی تقاضے پورے نہیں ہو رہے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے قانون کے خلاف سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اگر اس آرڈیننس پر عمل جاری رہا تو آدھے گھنٹے میں رائیونڈ بھی خالی ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ حکومت آئین کو معطل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
عدالت میں چیف سیکریٹری پنجاب زائد زمان نے بھی تسلیم کیا کہ اس قانون میں بعض پیچیدگیاں موجود ہیں۔
یہ معاملہ منگل کو پنجاب اسمبلی میں بھی زیرِ بحث آیا۔ حکومتی اراکین نے آرڈیننس کی معطلی کو بلاجواز قرار دیا، جبکہ اپوزیشن نے عدالتی فیصلے کی حمایت کی۔
حکومتی رکن اسمبلی امجد علی جاوید اور فاطمہ بیگم نے اس قانون کو عوامی مفاد میں قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد عام شہریوں کو فوری انصاف فراہم کرنا ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن اراکین فرخ جاوید مون اور اعجاز شفیع کا کہنا تھا کہ حکومت عجلت میں قوانین منظور کر رہی ہے، جن میں سنگین قانونی خامیاں سامنے آ رہی ہیں۔ ان کے مطابق ایسے قوانین سے عوام کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔