میلوڈی، اسلام آباد کا پہلا سینیما جہاں نائٹ کلب اور شراب خانہ بھی تھا

اسلام آباد بظاہر پرسکون ہے مگر میلوڈی سینیما کی آگ اور دھویں سے خاکستر ہوئی دیواریں بتاتی ہیں کہ اسلام آباد میں ڈر اور خوف کا جو موسم 70 کی دہائی میں شروع ہوا تھا وہ ابھی ختم نہیں ہوا۔

اسلام آباد جی سکس مرکز میلوڈی سینیما کی نسبت سے میلوڈی مارکیٹ کے نام سے ہی مشہور ہو گیا    (بشکریہ سی ڈی اے آرکائیوز)

جب پاکستان کے نئے دارالحکومت کی بنیاد رکھی گئی تو یہاں کاروبار حکومت چلانے کے لیے کراچی سے آنے والے بابوؤں کے لیے جی سکس نامی جو سیکٹر سب سے پہلے آباد کیا گیا اس میں ایک سینیما بھی بنایا گیا، جسے سر سنگیت کی نسبت سے میلوڈی کا نام دیا گیا۔

بعد میں جی سکس مرکز، میلوڈی سینیما کی نسبت سے میلوڈی مارکیٹ کے نام سے ہی زبان زد عام ہو گیا۔ اسی سینیما سے متصل ایک اوپن تھیئٹر آج بھی موجود ہے جس کے بنانے والوں کا خیال تھا کہ یہاں موسیقار بیٹھ کر رباب پر تانیں چھیڑیں گے، طبلے کی لے پر دل دھڑکیں گے، ہارمونیم کے ساز پر روح وجد میں آئے گی اور  جب ڈھول کی تھاپ پر پوٹھوہار کا قدیم رقص سمی پیش کیا جائے گا تو پورا ماحول ہی محو رقص ہو جائے گا۔ مگر افسوس آج یہ تھیئٹر تو موجود ہے مگر یہاں کے باسی اس سے اسی طرح بے خبر ہیں جس طرح ٹیکسلا کے باسی یہ نہیں جانتے کہ کبھی یہاں گوتم بدھ کے چیلے آ کر امن، محبت اور رواداری کے گیت سنا کرتے تھے۔

میلوڈی اسلام آباد کا پہلا سینیما تھا جو کہ 1966 کے وسط میں مکمل ہوا تھا۔ اسے وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے بنایا تھا۔ جب یہ سینیما مکمل ہوا ہو گا تو اسلام آباد کے نئے باسیوں کو کیسا لگا ہو گا؟ اس کا جواب ہمیں راشدہ علوی کی کتاب ’بستے بستے بستی ہے‘ میں ملتا ہے: ’میلوڈی سینیما کی تکمیل پر سب سے زیادہ مزہ آیا۔ دیکھنے میں شاندار، ماڈرن، ایئر کنڈیشنڈ، سرخ مخملی کرسیاں اور پردے۔ نئے دبیز قالین جس پر جوتا چپکے بغیر آگے بڑھنے کو تیار، اوپر سے بڑی سکرین۔ فلم کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں بھی دیکھنے کی تھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سی ڈی اے نے اسے ایک سال خود چلایا اور پھر گلستان سینیما راولپنڈی کے مالک  اکرام اللہ خٹک کو لیز پر دے دیا، جنہوں نے اسلام آباد کے نئے باسیوں کو تفریح مہیا کرنے کے لیے اسے ہر سہولت سے مزین کر دیا۔ ان دنوں آبپارہ کے فلیٹ اور چھوٹے گھر جونیئر سٹاف کے لیے جبکہ جی سکس تھری کمشنڈ آفسران کے لیے مختص تھا۔ ان سب کے لیے میلوڈی سینیما ہی گوشۂ عافیت تھا جہاں وہ اپنے اپنے گھروں سے پیدل ہی سینیما تک جا سکتے تھے۔

ان دنوں یہاں نئی نئی فلمیں لگا کرتیں۔ میلوڈی سینیما کی رونقیں صرف اس کی فلموں کی وجہ سے ہی قائم نہیں تھیں بلکہ یہاں ایک بار اور نائٹ کلب بھی تھا۔

ڈاکٹر وحید رانا بحریہ یونیورسٹی میں میڈیا سٹڈیز کے استاد ہیں۔ وہ اس بارے میں بتاتے ہیں کہ میں اس وقت سکول میں پڑھتا تھا اور شام کو دوستوں کے ساتھ مل کر سینیما میں فلموں کے پوسٹر دیکھنے جایا کرتا تھا۔ فلم دیکھنے کے لیے والدین کی اجازت ضروری تھی جبکہ پوسٹر دیکھنے پر ایسی کوئی قدغن نہیں تھی جس کا پورا فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔

سینیما میں ریسٹورنٹ کے علاوہ ڈریم گرل نامی ایک نائٹ کلب بھی تھا جس کی ’شان شبانہ‘ نام کی ایک مشہور رقاصہ تھی جو سینیما کی عمارت میں ہی رہائش پذیر تھی۔ ایک اینگلو انڈین عورت بھی اس کلب میں گاہکوں کی خبر گیری کے لیے موجود ہوتی۔ سینیما میں ٹکٹ گھر کے ساتھ شراب کی ایک دکان تھی جس کا نام ’یاور وائن مرچنٹ‘ تھا جہاں سے لوگ شراب خریدتے بعض منچلے قریب ہی گول مارکیٹ کے بنچوں پر بیٹھ کر لطف اٹھاتے۔

پھر سقوطِ ڈھاکہ ہو گیا اور یحییٰ خان بھٹو کو اقتدار سونپ کر رخصت ہو گئے۔ بھٹو کے دور میں نفاذِ اسلام کی تحریکیں چلیں اور جلسے جلوس شروع ہو گئے۔ ایک جلوس راولپنڈی سے آبپارہ آیا تو اس نے سیدھا میلوڈی سینیما کا رخ کیا۔ سینیما میں داخل ہوتے ہی جلوس کے شرکا نے شراب کی دکان پر دھاوا بول دیا۔ کچھ نے بوتلیں اٹھا کر فرش پر پٹخ دیں تو کچھ نے ان کے ڈھکن کھول کر غٹا غٹ پینی شروع کر دیں۔ دکان کا مالک جان بچا کر بھاگ گیا۔ چند دن دکان بند رہی مگر حالات معمول پر نہ آ سکے۔ نائٹ کلب کی رقاصائیں جان کے خوف سے بھاگ گئیں اور شراب فروش بھی شہر چھوڑ گیا۔

سینیما میں فلمیں تو چلتی رہیں مگر میلوڈی کی پہلے والی رونقیں کھو گئیں۔ ڈر اور خوف کی جو فضا بھٹو دور میں شروع ہوئی تھی ضیا دور میں اس نے عروج دیکھا۔ ساتھ کی لال مسجد افغانستان جانے والے مجاہدین کا پڑاؤ بن گئی۔ جمعہ کے جمعہ یہاں سے فرقہ وارانہ تقریروں کی گھن گرج سینیما کی گیلریوں تک سنائی دیتی۔ اس دوران شہر میں تین اور سینیما بھی بن گئے تھے۔ دو نیف ڈیک کے اور ایک کوہسار مارکیٹ میں، جس کی وجہ سے لوگوں کی توجہ بٹ گئی اور اشرافیہ نیفڈیک میں جانے کو ترجیح دینے لگی۔

میلوڈی سینیما میں آخری فلم ’جناح‘ لگی تھی۔ یہ چھ اکتوبر 2003 کا دن تھا۔ لوگ شام کا شو دیکھ رہے تھے کہ ایک مشتعل ہجوم جس میں اکثریت قریبی مدرسے کے طلبہ کی تھی وہ سینیما میں گھس آیا۔ انہوں نے اعلان کیا لوگ جلدی سینیما خالی کر دیں ہم آگ لگانے والے ہیں۔ جس پر سینیما میں افراتفری مچ گئی۔ لوگ جانیں بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مشتعل مظاہرین نے سینیما جلا کر بھسم کر دیا۔

مظاہرین اسی روز قتل ہونے والے سپاہ صحابہ کے رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی اعظم طارق کے قتل پر احتجاج کر رہے تھے جنہیں اسلام آباد کے ٹول پلازے پرگولی مار دی گئی تھی۔ اس واقعے کو آج 17 سال گزر چکے ہیں مگر یہ سینیما ابھی تک بحال نہیں ہوا۔

جناح فلم میں دکھائے گئے تقسیم کے وقت کے فسادات کی ایک جھلک فلم کے ناظرین نے براہ راست دیکھ لی تھی۔ کل جو لوگ ایک دوسرے کو ہندو اور مسلمان سمجھ کر مار رہے تھے آج وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اس لیے بن گئے تھے کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر ہے۔ اس آتش زدگی میں میلوڈی سینیما کا ایک چوکیدار جو سو رہا تھا جل کر ہلاک ہو گیا۔ 2005 کے تباہ کن زلزلے میں سینیما کے مالک عتیق خٹک نے اپنی والدہ نفیسہ خٹک جو کہ اب  پی ٹی آئی کی ایم این اے ہیں، کے ساتھ مل کر یہاں پر معذور خواتین کی بحالی کا ایک مرکز بنایا تھا جہاں بیک وقت 50 سے زائد خواتین کے علاج معالجے کی سہولیات دستیاب تھیں۔

سینیما کے مالک عتیق خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہاں ساڑھے چھ سو سے زائد لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ تمام نشستیں پیچھے جھکنے والی تھیں۔ تزئین و آرائش جس پر ہم نے بھاری سرمایہ صرف کیا تھا اس کے بعد یہ پاکستان کا جدید ترین سینیما بن گیا تھا۔ مگر سب کچھ ایک ہی حملے میں خاکستر ہو گیا۔ ہم نے سینیما جلائے جانے کی ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ حکومت نے ہمارے نقصان کے ازالے کا وعدہ بھی کیا جو آج تک پورا نہیں ہوا۔

’کامران لاشاری جب سی ڈی اے کے چیئرمین تھے تو انہوں نے مجھے بلایا اور سینیما کی بحالی کا مطالبہ کیا مگر میں نے کہا کہ کیا آپ مجھے ضمانت دے سکتے ہیں کہ میرا سینیما دوبارہ جلایا نہیں جائے گا؟ جس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اچھا ہی ہوا کہ میں نے سینیما پر مزید پیسہ نہیں لگایا وگرنہ لال مسجد کے تنازعے میں اسے پھر جلا دیا جاتا کیونکہ ساتھ ہی آبپارہ میں سی ڈیز کی دکانیں جلائی گئی تھیں۔‘

ان سے پوچھا گیا کہ ’کیا آپ یہ سینیما بیچ رہے ہیں کیوں کہ پراپرٹی کی ایک ویب سائٹ پر سینیما برائے فروخت کا اشتہار موجود ہے؟‘

انہوں نے جواب دیا کہ ’میں نے حال ہی میں لیز کی توسیع کروائی ہے لیکن اب سٹینڈرڈ سینیما کا دور نہیں رہا۔ اب وہی سینیما چلتے ہیں جو مال کے اندر ہوں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہاں کوئی اور بزنس ماڈل اختیار کیا جائے لیکن سی ڈی اے کے قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے جس کی وجہ سے ہمیں ہر سال بھاری نقصان ہو رہا ہے پراپرٹی ٹیکس دینے پڑتے ہیں مگر کاروبار عرصے سے بند ہے۔‘

میلوڈی سینیما کے ارد گرد واقع سڑکیں لال مسجد کے تنازعے کی وجہ سے ایک عرصے سے بند پڑی ہیں۔ ایسے میں یہاں سینیما چلانے کا خطرہ کون مول لے گا؟

یہ جگہ وزیراعظم سیکرٹریٹ ، پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ اور غیر ملکی سفارت خانوں کے علاقے سے چند منٹ کے فاصلے پر ہے۔ وزیراعظم پاکستان ملک میں سیاحت کے فروغ کا خواب دیکھتے ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا، گذشتہ صدی کی آخری دہائی کے ابتدائی سالوں تک آبپارہ سے میلوڈی تک غیر ملکی سیاحوں کا تانتا بندھا ہوتا تھا، مگر اب وہ راستے اپنے شہریوں کے لیے بھی بند پڑے ہیں۔

اسلام آباد بظاہر پرسکون ہے مگر میلوڈی سینیما کی آگ اور دھویں سے خاکستر ہوئی دیواریں بتاتی ہیں کہ اسلام آباد میں ڈر اور خوف کا جو موسم 70 کی دہائی میں شروع ہوا تھا وہ ابھی ختم نہیں ہوا۔

پانچویں صدی کے وسط میں شمال سے آنے والے سفید ہنوں نے ٹیکسلا میں سارے ناٹک زمین بوس کر دیے تھے اسی طرح آج انتہا پسندی کی وجہ سے میلوڈی سینیما ہی نہیں امن و آشتی سے وابستہ اسلام آبادکی ایک تاریخ زمین بوس ہونے کو ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم