راولپنڈی سازش کیس، ’پوچھے بغیر جنگ بندی قبول کر لی گئی‘: II

حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں افواج پاکستان کے ایک درجن سے زائد اہم افسران کو گرفتار کر کے ان پر خصوصی عدالت کے ’بند کمرے‘ میں مقدمہ چلا لیکن اس کی کارروائی آج تک خفیہ رکھی گئی۔ خصوصی تحریر کا دوسرا حصہ۔

(پبلک ڈومین)

اس تحریر کا پہلا حصہ یہاں ملاحظہ فرمائیے


حکومت کے ساتھ کیا اختلاف تھا؟

میجر جنرل اکبر خان کہتے تھے کہ نیا ملک تو بنا تھا لیکن کشمیر کے سلسلے میں اختلافات ہو گئے تھے۔ انگریزوں سے مسلمانوں کو نفرت تھی، انگریزوں کے ساتھ پٹھان قبائلی علاقوں میں لڑ رہے تھے۔ یہ لڑائی سو سال سے جاری تھی، صوبہ سرحد میں کئی قبائل ہیں جو انگریزوں کے جانے کے بعد ہمارے ساتھ شامل ہوگئے، یہ ہی قبائل کشمیر کے محاذ پر بھارتی فوجوں سے پاکستان افواج کے شانہ بہ شانہ لڑے، کیونکہ ہم نے کشمیر جا کر لڑائی لڑی تھی، وہاں محاذ آرائی کی تھی، مختلف قبائل کو جمع کر کے ان کی رہنمائی کی تھی اور پھر ہم سے پوچھے بغیر جنگ بندی قبول کر لی گئی اور ایسی شرائط پر جو کہ ہمارے لیے سازگار نہیں تھیں۔

’اس وجہ سے ہمارے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میں لیاقت علی خان کا مخالف ہو گیا تھا کہ انہوں نے آئین سازی میں بہت تاخیر کر دی تھی۔ اس موضوع پر لیاقت علی خان سے کبھی روبرو بات نہیں ہوئی تھی البتہ کشمیر کے مسئلہ پر ہوئی تھی۔ آئین سازی کے مسئلہ پر کبھی گفتگو نہیں ہوئی۔

’لیاقت علی چاہتے تھے کہ انہوں نے جو قرارداد مقاصد پاس کی تھی وہ میرا لیاقت علی خان کے ساتھ ذاتی اختلاف تھا کہ انہوں نے کشمیر کے سلسلے میں کوئی موزوں کارروائی نہیں کی تھی جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔

’لیاقت علی خان کی میں ذاتی طور پر عزت کرتا تھا، لیکن آئین کے مسئلے پر میری ان سے مخالفت ہو گئی تھی۔ وہ آئین کی تیاری کے سلسلے میں تاخیر کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک قرارداد مقاصد پاس کر لی تھی، اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ امیر بن جائیں۔

’مجھے نہیں معلوم کہ وہ امیر المومنین بننا چاہتے تھے لیکن دستور ساز اسمبلی پر ان کی گرفت مضبوط تھی اور انہیں اکثریت کی حمایت حاصل تھی جس کو میں نے پسند نہیں کیا، آپ کو معلوم ہوگا کہ کیپٹن ظفر اللہ پوشتی بھی اس بات کے مخالف تھے، حالانکہ وہ صرف کیپٹن کے عہدے پر فائز تھے۔

’میری اس وقت آئین سازی میں تاخیر کے سلسلے میں مخالفت تھی، میں چاہتا تھا کہ آئین ساز اسمبلی جلد از جلد اپنا کام کرے، عام انتخابات ہوں اور ملک میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہوجائے۔ لوگ خود میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے شکایت کرتے تھے کہ حکومت کے خلاف کارروائی کروں اور میں فوج کی قیادت کروں۔

’میں نے ترکی کے مصطفی کمال پاشا کی تاریخ پڑھی تھی۔ اس کے اقدمات میرے سامنے تھے۔ انہوں نے اپنے ملک کو جدید خطوط پر استوار کیا تھا، ملک میں اسلامی آئین کی بجائے پارلیمانی آئین بنایا تھا اور پارلیمانی طرز حکومت قائم کی تھی، میں ان کے ان اقدامات سے متاثر تھا۔

’میں حکومت پر کنٹرول کرنا چاہتا تھا، اس طرح کہ گورنر جنرل تو برقرار رہیں اور لیاقت علی خان کو وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کر دیا جائے۔ ایک موقع پر میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اب حکومت کے خلاف کچھ نہیں کریں، ہماری ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں سازش میں شریک تمام conspirators (یہ لفظ انہوں نے استعمال کیا) موجود تھے، جس میں فیصلہ کیا تھا کہ اب حکومت کے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہیے۔

’یہ میٹنگ فروری 1951 میں ہوئی تھی، مارچ 1951 میں مجھے گرفتار کر لیا گیا تھا، حکومت نے وہ قانون بھی تبدیل کر دیا تھا جس کے تحت ہمارا ٹرائل ہو رہا تھا۔

’تبدیلی یہ کی گئی کہ ثبوت ایکٹ کو بدل دیا اور اعلان کیا گیا کہ جو لوگ اس سازش کے سلسلے میں جو بھی بیان دیں گے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی۔ ایکٹ میں ترمیم کے بعد ساٹھ کے قریب افراد میرے خلاف گواہی دینے آگئے اور انہوں نے میرے حق میں کچھ باتیں کیں۔

’دوسرے یہ کہ جس شخص نے اس سازش کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی، اس کو بھی پیش نہیں کیا گیا، جس وقت مجھے گرفتار کیا گیا تھا اور جو احکامات دیئے گئے تھے ان پر درج تھا کہ گورنر جنرل نے انڈین آرمی ایکٹ کے سیکشن 13 کے تحت فوج سے میری برخاستگی کا حکم جاری کیا ہے۔

’میں نے اسی کاغذ پر لکھ دیا کہ گورنر جنرل کو مجھے ملازمت سے برخاست کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔ میرا کورٹ مارشل ہونا چاہیے، اس کے باوجود انہوں نے مجھے گرفتار کر لیا۔ ایک سپیشل ٹریبونل میں ہمارا مقدمہ شروع ہوا۔

’اسکندر مرزا مخبر سے پوچھ گچھ میں مصروف تھے۔ جلد ہی ہم پر عیاں ہو گیا کہ سچ مچ بغاوت کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ سازشیوں میں ایک شخص برگیڈیئر صدیق خان بھی تھا، جو کبھی میرے یونٹ میں کام کر چکا تھا، اور اب بنوں میں ایک برگیڈ کی کمان کر رہا تھا۔

’وہ کسی قدر غیر مستقل مزاج، جذباتی اور بے دھڑک قسم کا انسان تھا۔ میں نے اس کو لانے کے لیے ہوائی جہاز بھیجا۔ جب وہ آیا تو میں نے اس سے کہا کہ ”صدیق تم مجھے سچ سچ بتا دو، نہیں تو میں تمہیں الٹا لٹکا دوں گا۔

’صدیق نے قطعی لاعلمی ظاہر کی اور کہا کہ رپورٹ بالکل جھوٹی ہے۔ ہم نے صدیق کو واپس بنوں جانے کی اجازت دے دی۔ اس نے وہاں پہنچ کر کرنل ارباب کو تھل کے مقام پر ٹیلی فون کیا۔ کرنل ارباب بھی جیسا بعد میں ظاہر ہوا، سازشیوں میں سے تھا۔ صدیق سے اسے بتایا کہ بھانڈا پھوٹ گیا۔ اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے زبر دست سازش کی جا رہی تھی۔

’اس وقت تک ہمیں کافی معلومات حاصل ہو چکی تھیں۔ چنانچہ ہم نے واپس آ کر وزیر اعظم کو ان سے مطلع کر دیا۔ انہوں نے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا۔ قربان علی کان انسپکٹر جنرل پولیس کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ اور وہ تمام فوجی افسر اور شہری جن کا اس سازش سے تعلو تھا، راتوں رات اپنے اپنے ٹھکانوں سے گرفتار کر لیے گئے۔

’میرا خیال تھا کہ یہ مقدمہ فوجی عدالت میں پیش ہونا چاہیے۔ لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ اس میں بعض شہری بھی شامل تھے۔ چنانچہ وزیر آعظم نے فیصلہ کیا کہ ایک سپیشل سول ٹریبیونل مقرر کیا جائے اور مقدمہ کی کارروائی بند کمرے مٰں ہو تاکہ سرکاری راز افشا نہ ہونے پائیں۔‘

وعدہ معاف گواہ

’ان کی سازشوں میں دو افراد بھی شریک تھے۔ ایک لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ اور دوسرے میجر یوسف سیٹھی۔ انہیں حکومت نے معافی کا وعدہ دے کر سلطانی گواہ بنا لیا تھا ۔ یہ دونوں افراد عدالت میں استغاثہ کی جانب سے ملزموں کے خاف پیش ہوئے۔‘

مقدمے کی سماعت شروع ہوتی ہے

ظفر اللہ پوشنی نے اپنی کتاب ’زنداں دلی زندگی ہے‘ میں لکھا ہے ’15 جون، 1951 کو صبح آٹھ بجے حیدرآباد جیل کی خفیہ عدالت میں راولپنڈی سازش کیس کی سماعت شروع ہوئی۔ عدالت کے تینوں جج اونچی اونچی گدوں والی کرسیوں پر براجمان تھے۔

یہ تھے فیڈرل کورٹ کے جج مسٹر جسٹس عبالرحمان (سربراہ ٹربیونل)، پنجاب ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس محمد شریف اور ڈھاکہ ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس امیرالدین۔ بریگیڈیئر لطیف کی جانب سے سہروردی (حسین شہید سہروردی، بعد میں پاکستان کے ایک وزیر اعظم) اور جنرل اکبر خان کی طرف سے زیڈ ایچ لاری (کراچی کے اس دور کے نامور وکیل تھے) پیش ہو رہے تھے اور دیگر کئی وکلا شامل تھے۔

بعد میں کئی وکلا اپنے موکلوں کی بڑھتی ہوئی مالی بدحالی کے باعث ایک ایک کرکے حیدرآباد سے رخصت ہو گئے البتہ سہروردی نے آخر دم تک یاروں کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ انہوں نے روپے پیسے کی مطلق پرواہ نہ کی اور ڈیڑھ برس تک عدالت میں ہماری طرف سے پیش ہوتے رہے۔

ٹربیونل میں سجاد ظہیر کا سوال

’جسٹس شریف جب تمام کاغذات پر دستخط کر چکے تو فرمایا، ’کوئی سوال پوچھنا ہو تو پو چھیے۔‘ سجاد ظہیر نے کھڑے ہو کر کہا کہ ’میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘ جسٹس نے کہا، ’فرمائیے۔‘

سجاد ظہیر نے گلا صاف کیا، پھر کہنے لگے، ’اول تو مجھے علم نہیں ہے کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ یہ سب لوگ یہاں کیوں جمع ہیں اور آپ کون صاحب ہیں۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ مجھے تقریباً ایک ماہ پہلے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گہا تھا، تب سے میں لاہور سنٹرل جیل میں بند ہوں، مجھے دوسرے نظر بندوں سے الگ قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

’خوراک بہت خراب ہے۔ میں اپنے خرچ سے سگریٹ تک حاصل نہیں کر سکتا۔ مختصر یہ کہ جیل والے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔ آج جھے یکایک پکڑ کر آپ کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ مجھے کچھ علم نہیں کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ اگر آپ کوئی بڑے افسر ہیں تو میں درخواست کرتا ہوں کہ مہربانی فرما کر میری تکلیف کے ازالے کی کوشش کیجیے۔ نیز آپ کی نوازش ہوگی، اگر مجھے یہ بتائیں کی میں یہاں آپ کے روبرو کیوں لایا گیا ہوں؟‘

مقدمے کی کارروائی خفیہ

ظفر اللہ پوشنی لکھتے ہیں، ’میں اس کتاب میں مقدمے کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا کیوں کہ اس کی تمام کارروائی خفیہ تھی۔ اب اگر اس کے بابت کچھ لکھوں تو اندیشہ ہے کہ قانون کی رو سے دوبارہ دھر لیا جاؤں۔‘

راقم الحروف جب 2000 کی ابتدا میں اسلام آباد میں آرکائیوز کے دفتر میں گیا اور اس مقدمہ کے کاغذات دیکھنا چاہے تو بتایا گیا کہ حکومت نے کاغذات کو ابھی تک خفیہ رکھا ہوا ہے اور وہ سب کچھ سر بمہر ہے۔

لیاقت علی خان کا قتل

’16 اکتوبر، 1951 کی ذکر ہے۔ شام کے تقریبا چھ بجے تھے۔ اس وقت ہم تمام ساتھی کھیل کود سے فارغ ہو کر بی کلاس وارڈ کے صحن میں کرسیوں پر بیٹھے پسینہ خشک ہونے کا انتظار کر رہے تھے کہ ہمارے وارڈ کا ایک مشقتی اول خان نہایت بدحواسی کے عالم میں ہال کمرے سے ڈورتا ہوا باہر نکلا۔ وہ زور زور سے چیخ رہا تھا، ’مارا گیا، مارا گیا۔‘

’ہم سب حیرت سے اسے دیکھنے لگے لیکن وہ ہماری پروا کیے بغیر سیدھا باورچی خانے کی طرف بھاگا۔ اس کے پیچھے کرنل ضیاء الدین سخت تذبذب کی حالت میں باہر نکلے اور تیز تیز قدم آٹھاتے ہوئے ہمارے قریب آ کر دھیمے لہجے میں بولے، ’میرے رفیقو، وزیر اعظم مسٹر لیاقت علی خان کو کسی شخص نے راولپنڈی میں قتل کر دیا ہے۔‘

ضیاء الدین نے نہایت متیین اور پر سکون لہجے میں کہا، ’جب راولپنڈی سازش کیس کے ملزم گرفتار ہوئے تھے تو ہمارے ’کرم فرما‘ نے بڑی رعونت سے اعلان کیا تھا کہ مجھے ہزاروں خط موصول ہوئے ہیں جن میں لکھا ہے کہ ان ’غداروں‘ پر مقدمہ چلائے بغیر انہیں گولی سے اڑا دو۔ تاہم میں ان پر کرم کر رہا ہوں اور انہیں عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنے کی اجازت دے رہا ہوں۔ آج معلوم ہوا کہ مقدمہ چلائے بغیر گولی مار دینا کیا معنی رکھتا ہے۔‘

راولپنڈی مقدمہ سازش کا فیصلہ

(1) سابق میجر جنرل اکبر خان ……12برس قید سخت

(2) ایئر کموڈور محمدخان جنجوعہ اور بریگیڈ محمد صدیق خان……سات برس قید بامشقت اور 500 روپے جرمانہ یا عدم ادائیگی کی صورت میں مزید ایک برس قید بامشقت، نیز ملازمت سے برطرفی

(3) سابق بریگیڈیئر لطیف خان ……پانچ برس قید بامشقت اور 500 روپے جرمانہ یا اس کی عدم ادائیگی کی صورت میں مزید ایک برس قید بامشقت

(4) لیفٹنٹ کرنل ضیاء الدین اور لیفٹیننٹ کرنل نیاز محمد ارباب …… پانچ برس قید بامشقت 250 روپے جرمانہ یا عدم ادائیگی کی صورت میں مزید چھ مہینے قید بامشقت، نیز ملازمت سے برطرفی

(5) فیض احمد فیض، سید سجاد ظہیر اور محمد حسین عطا…… چار برس قید بامشقت اور 500 روپے جرمانہ یا ایک برس قید بامشقت

(6) میجر حسن خان، میجر اسحق محمد، کیپٹن خضر حیات، کیپٹن ظفر اللہ پوشنی ……چار برس قید بامشقت اور250 روپے جرمانہ یا اس کی عدم ادائیگی کی صورت میں مزید چھ مہینے قید بامشقت، نیز ملازمت سے برطرفی

(7) میجر جنرل نذیر احمد …… قید تا برخاست عدالت اور ملازمت سے برطرفی

 (8) بیگم نسیم اختر خان …… بری

ظفر اللہ پوشنی نے لکھا ہے کہ ’پانچ جنوری کا تمام دن ہم نے مستقب کے متعلق قیاس آرائیوں اور ان کی کوششوں میں صرف کردیا کہ چہروں پر ملال طاری نہ ہونے پائے، اس کے علاوہ سب دوستوں نے اپنے اپنے عزیزوں کی ڈھارس بندھانے کے لیے حوصلہ افزا خطوط لکھے اور تار بھیجے، ہم نے دن کے 12 بجے ریڈیو پر اپنی سزاؤں کا نشری اعلان بھی سن لیا، جس وقت ریڈیو پر یہ اعلان ہو رہا تھا میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت لاہور میں میری والدہ بھی یہی منحوس خبر سن رہی ہوں گی، ان کو کس قدر رنج ہو رہا ہو گا، یہ تصور میرے لیے سزا سے کہیں زیادہ اذیت ناک تھا۔‘

’عدالت نے ہم لوگوں کو فیصلے کی دستاویزات کا مطالعہ کرنے کیلیے 30دن کی مہلت دی تھی، فیصلہ بہت طویل یعنی تقریباً 14سو صفحات پر مبنی تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹریبونل کے ایک جج مسٹر جسٹس محمد شریف نے اپنا الگ فیصلہ لکھا تھا، وہ ہمیں نہیں دکھایا گیا، میں نے گورنر جنرل کی خدمت میں ایک درخواست بھی بھیجی کہ حضور تیسرے جج کا فیصلہ بھی ہمیں دیکھنے کیلیے دیا جائے لیکن یہ درخواست فوراً رد کردی گئی۔

’ہر روز صبح کے وقت عدالت کے دو کلرک ”فیصلے“ کی بہت سی کاپیاں اٹھائے ’خانقاہ‘ اور ’سرائے‘ میں آ جاتے تھے اور 12 بجے تک ہمارے پاس رہتے، اس دوران میں ہم وقتاً فوقتاً فیصلے کا مطالعہ کرتے تھے تاکہ اس کی بنیاد پر سزا کی تحفیف یا معافی کے لیے گورنر جنرل کے نام درخواست لکھی جاسکے، راولپنڈی سازش کے سپیشل ایکٹ کے مطابق ہمیں کسی بالاتر عدالت میں اپیل کرنے کا حق حاصل نہیں تھا، ہم صرف گورنر جنرل سے اپیل کر سکتے تھے۔

چنانچہ ہم لوگوں نے چند ہی مہینوں کے اندر گورنر جنرل کے نام اپنی اپنی اپیلیں لکھ کر روانہ کردیں، میں نے تو اپیل کے مسودے میں اپنا پورا مقدمہ باتفصیل اور قانونی نقطۂ نظر سے پیش کیا تھا اور یہ دکھانے کی کوشش کی تھی کہ میرے خلاف الزامات پوری طرح سے ثابت نہیں ہوئے۔

لیکن کئی دوستوں نے قانونی پیچیدگیوں میں پڑنے کے بجائے سیدھی سادی چند سطر کی عرضیاں لکھ بھیجیں۔ خاص نکتہ یہی تھا کہ تم نے ہمارے خلاف ایک غلط اور غیر اخلاقی قانون کے تحت مقدمہ چلایا ہے اور عام ملزموں کو اپنی مدافعت کے جو حقوق حاصل ہوتے ہیں وہ بھی ہمیں نہیں دیے، لہٰذا گورنر جنرل صاحب بہادر، انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ آپ مہربانی فرما کر ہمیں رہا کر دیں، یہ درخواست ڈیڑھ برس تک گورنر جنرل بہادر کے زیر غور ہیں کہتے ہیں کہ سج پکے سو میٹھا۔‘

 قید میں وقت گزارنے کے لیے تمام لوگ مطالعہ، بحث و مباحثہ سمیت کسی نہ کسی سرگرمی میں رہتے تھے۔ درج ذیل ترانہ جسے فیض احمد فیض نے حیدرآباد جیل میں ہی تحریر کیا تھا:

دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے کچھ اپنے جزا لے جائیں گے

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھول کے اٹھے ہوں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے

اے ظلم کے ماتو، لب کھولو، چپ رہنے والو، چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا، کچھ دور تو نالے جائیں گے

ظفر اللہ پوشنی لکھتے ہیں، ’اس ترانے کو ہم سب مل کر گاتے تھے، میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہم میں مختلف سیاسی خیالات کے لوگ موجود تھے لیکن میری رائے یہ ہے کہ ہر شخص اس گیت کو گاتے وقت اپنے آپ میں ایک نیا ولولہ، ایک نیا جوش اور ایک نئی امنگ محسوس کرتا تھا، ایسی والہانہ امنگ جسے زنداں کی اونچی دیواریں اور آہنی سلاخیں بھی دبانے میں کامیاب نہ ہو سکتی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سجاد ظہیر کے کمرے میں چھٹی کے دن منعقد ہونے والی ان محفلوں نے یقیناً ہمارا حوصلہ بلند رکھنے میں خاصی مدد کی۔

لیاقت علی خان کی رحلت سے پہلے ان یا اس انگیز اور ناسازگار دنوں میں بھی جب سارے ملک میں یہ افواہیں گرم تھیں کہ ان ’غداروں‘ کو یقینا گولی سے اڑا دیا جائے گا، ہم نے کبھی اپنے ماتھے پر شکن نہ آنے دی اور ایک لمحے کے لیے بھی اداسی اور سراسمیگی کو اپنے پاس بھٹکنے نہ دیا، وکیلوں نے معاملے کی نزاکت کو سمجھایا، جیلروں نے بھی اونچ نیچ دکھایا، پولیس والوں نے ڈرایا، حتیٰ کہ رشتہ داروں نے بھی کہا کہ یہ کیس بہت سنگین ہے، تم لوگوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی، کوئی نہیں بچ سکے گا، وغیرہ و غیرہ لیکن ہم نے ہنس کر ان سب کو ٹال دیا۔

ہم نے کہا، ’ارے جاؤ اس مقدمے میں دھرا ہی کیا ہے، سب بکواس ہے، کوئی ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا،‘ ہم مسکراتے رہے، گاتے رہے، شعر لکھتے رہے، ہمیں معلوم تھا کہ ’یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق، نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی، یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول، نہ ان کی ہار نئی ہے، نہ اپنی جیت نئی ہے۔‘

 آئین ساز اسمبلی

 ظفر اللہ پوشنی کے مطابق ’خفیہ عدالت کے ایک جج جسٹس شریف نہ کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ آئین ساز اسمبلی نے اس مقدمہ کے سلسلے میں جو ایکٹ پاس کیا ہے اس کی رو سے مقدمے کی سماعت بند کمرے میں ہو گی اور عدالت کی تمام کارروائی خفیہ رکھی جائے گی۔ میں (ظفر اللہ) نے ارباب کے کان میں چپکے سے کہا، ’ہماری آئین ساز اسمبلی نے بھی آخر کچھ کام تو کر ہی ڈالا۔‘

ارباب نے کہا، ’آئین ساز اسمبلی کا کام ملک کا آئین بنانا ہے یا 13، 14 آدمیوں کے مقدمے کے لیے خاص قانون مرتب کرنا۔ یہ مقدمہ سازش راولپنڈی کا سپیشل ایکٹ آئین سازی کے زمرے میں کیسے آگیا۔ میں نے جواب دیا ”میرے دوست، یہ بات تم ان بزرگوں سے جاکر پوچھو جو آئین ساز اسمبلی کے رکن ہیں۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ آئین ساز اسمبلی کو اختیار کامل حاصل ہے وہ چاہیں تو دن کا رات اور رات کو دن کہہ سکتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ