افغانستان: پرتشدد ماحول کے باوجود ماڈلنگ انڈسٹری کا فروغ

افغانستان میں سکیورٹی خدشات ہونے کے باوجود ماڈلنگ سے وابستہ افراد فیشن صنعت کے قدم جمانے کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہے ہیں۔

(ماڈلستان)

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے کارتہ چھار علاقے کے ایک کیفے میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں افغانستان کے روایتی ملبوسات زیب تن کیے انتظار میں ہیں۔ یہ لڑکے اور لڑکیاں ماڈلنگ کے مقابلے میں حصہ لینے کے لیے جمع ہیں جس میں مسٹر اور مس 2021 کا انتخاب کیا جائے گا۔

رواں سال جنوری میں ہونے والے اس مقابلے میں 50 سے زائد نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے حصہ لیا۔ ماڈلنگ کو اپنا کریئر بنانے کے خواب آنکھوں میں سجائے سٹیج پر جگمگ روشنیوں میں، کیمروں کی فلیش میں اور ججوں کی تنقیدی نظروں کا سامنا کرتے سٹیج پر آئے۔

یہی مقابلہ کسی اور ملک میں ہوتا تو ایک عام بات ہوتی لیکن افغانستان میں نہیں۔ وہ ملک جہاں کبھی روس تو کبھی خانہ جنگی، پھر طالبان کا دورِ حکومت تو پھر امریکی فوج کا قبضہ کے باعث گذشتہ 40 سال سے حالت جنگ میں ہے۔ وہ افغانستان جہاں طالبان نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں موسیقی، لڑکیوں کی تعلیم اور کام کرنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔

کابل سمیت پورے ملک میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے روز کا معمول بن کر رہ گیا ہے۔ حالیہ عرصے میں شدت پسند ترقی پسند افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں جن میں سماجی کارکن، جج اور صحافی شامل ہیں۔

اس خونریزی کے باوجود افغانستان میں اور خاص طور پر کابل میں فیشن کی صنعت پھل پھول رہی ہے۔

افغانستان باالخصوص کابل 60 اور 70 کی دہائیوں میں فیشن کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ماڈلز بکرے کی کھال سے بنے کوٹ، کم لمبائی والے ڈریس اور دلکش زیورات پہنے ملک کے تاریخی مقامات کے سامنے تصاویر بنواتیں۔ اس وقت کو افغان عوام اور خاص طور پر افغانستان کے آج کل کے فیشن ڈیزائنرز اور ماڈلز فیشن کے ’گولڈن ایج‘ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ یہ وہی وقت تھا جب زہرہ یوسف داؤد 1972 میں افغانستان کی پہلی اور واحد مس افغانستان بنیں۔

دریا ہمدرد افغانستان کی ایک معروف ماڈل ہیں اور جنوری میں ہونے والے مقابلے میں مس 2021 کا ٹائٹل جیتا۔ وہ نوجوان نسل کو ماڈلنگ سکھانا چاہتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان اس شعبے میں قدم رکھیں اور ملک کی فیشن صنعت کو بڑھاوا ملے۔ تاہم ان کو نوجوانوں خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی خادشات ہیں اور وہ نہیں چاہتیں کہ وہ اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں۔

دریا کا کہنا ہے کہ ملک میں کمسن فیشن اور ماڈلنگ کے شعبے کو خوف ہے کہ کہیں طالبان واپس نہ آ جائیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر وہی قدغنیں اور پھر وہی پالیسیاں اور ایسے میں جانوں کو خطرے میں ڈال کر حاصل کیا گین ہے وہ سب ضائع ہو جائے گا۔

’مجھے خوشی ہے کہ نوجوان نسل فیشن کی فیلڈ میں اتنی دلچسپی لے رہے ہیں۔ ہم سب مل کر افغانستان کے فیشن کو فروغ دیں گے۔ لیکن ہمارا ملک حالتِ جنگ میں ہے اور روزانہ کی بنیاد پر خونریزی ہو رہی ہے۔ اسی لیے ہمیں اپنی جان کا خطرہ بھی لاحق ہے۔‘

دریا کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک میں فیشن کی صنعت کی ترقی کے لیے امن کا ہونا بہت ضروری ہے۔

’افغانستان میں سکیورٹی خدشات ہونے کے باوجود اس صنعت سے وابستہ افراد فیشن کی صنعت کے قدم جمانے کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ہمیں طالبان سے بہت خوف ہے کیونکہ وہ تو لڑکیوں کی تعلیم کے بھی خلاف ہیں تو فیشن اور ماڈلنگ تو بہت دور کی بات ہے۔‘

طالبان نے دسمبر میں منعقد ہونے والے ایک فیشن شو کے بعد ایک بیان میں کہا کہ وہ ملک میں تمام مذہبی اور قومی ثقافتی اقدار کا دفاع کریں گے۔ انھوں نے فیشن شو کو ’فحش مغربی ثقافت‘ قرار دیا جس کا مقصد ’مذہبی اور افغان اقدار کو پامال‘ کرنا ہے۔

حامد ولی افغانستان میں ’مدلستان‘ کے نام سے ایک ماڈلنگ ایجنسی چلا رہے ہیں اور انھوں نے گذشتہ سال دسمبر میں ریڈ کارپٹ کے نام سے فیشن مقابلے کا انعقاد کیا تھا۔ اس مقابلے میں مسٹر اور مس بیوٹی 2020 کا انتخاب کیا گیا۔

حامد کے اسی مقابلے کے بعد طالبان نے بیان جاری کیا اور کہا ’ماڈلنگ کے حامیوں اور ناظرین کی خواہشات کو تباہ کر دیا جائے گا۔‘ تاہم حامد اپنے ایونٹ کو مزید بڑا بنانے کے خواہشمند ہے جہاں نہ صرف افغان نوجوان مالز حصہ لیں بلکہ غیر ملکی ماڈلز بھی افغانستان آئیں۔

’میں افغانستان ہی میں پیدا ہوا اور جوان ہوتے تک میں نے جنگ اور خونریزی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ لیکن اب بھی میں فیشن کی صنعت کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق گذشتہ سال ہونے والے ریڈ کارپٹ ایونٹ کو بہت سراہا گیا۔ فیشن شو منعقد کرانے کا مقصد نوجوان ماڈلز اور فیشن ڈیزائنرز کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا جہاں وہ اپنے کام اور صلاحیت کو عوام کے سامنے لائیں۔

’صاف بات ہے کہ افغانستان کے سکیورٹی حالات ایسے ہیں کہ ملک میں ماڈلنگ کرنے کا اس سے بدترین وقت کوئی اور نہیں ہو گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ دوہا میں جاری افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کا کیا نتیجہ نکلے گا لیکن ہم امید ہی کر سکتے ہیں کہ دونوں میں ملک میں مکمل طور پر امن کا معاہدہ طے پا جائے اور ہمیں ملک میں آزادانہ طور پر ماڈلنگ کرنے دی جائے۔‘

افغانستان میں گذشتہ ایک دو سالوں میں فیشن شوز منعقد کیے جا رہے ہیں۔ گذشتہ سال جنوری میں پہلی بار کابل میں سٹریٹ فیشن شو کا انعقاد کیا گیا جس میں نوجوان ماڈلز کے علاوہ بچوں نے بھی حصہ لیا اور افغان روایتی ملبوسات کی نمائش کی۔

مشہور افغان ماڈل محمد منیب ابراہیمی کا کہنا ہے کہ فیشن اور ماڈلنگ کے فروغ کے لیے امن کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ افغان عوام کو آزادی ہو کہ وہ اپنے پسند کا کیریئر چنیں اور ان پر کسی قسم کی قدغن نہ لگائی جائے۔

’فیشن کی صنعت سے منسلک افراد کو طالبان سے جانوں کا خطرہ ہے۔ مجھے کئی بار جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا چکی ہیں جبکہ میں اپنے ملبوست کے ذریعے صرف افغان ثقافت کو فروغ دیتا ہوں اور افغانستان نیشنل آرمی کی حمایت کرتا ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن