زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں کیوں بن رہی ہیں؟

قانون کسی کو اس کی اپنی زمین سے درخت کاٹنے سے نہیں روک سکتا، روکنا ہے تو ان وجوہات کو تلاش کیجیے جو کسان کو مجبور کر دیتی ہیں

ملتان میں آموں کے باغات پر سوسائٹیاں بننے کی خبروں کے بعد سوشل میڈیا پر زبردست بحث جاری ہے (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کریں

 

ملتان میں آم کے درختوں کو کاٹا جا رہا ہے اور سرگودھا میں کینو کے پودوں پر آری چل رہی ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں زرعی زمینوں کو چاٹتی جا رہی ہیں۔ درختوں کی کٹائی پر سماج نوحہ کناں ہے۔ سچ مگر یہ ہے کہ معاشرے کو ان درختوں سے پہلے اپنے تضادات اور دورنگی کو رونا چاہیے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں کینو اور آم کے باغات پر بنیں یا لہلہاتی فصلوں پر، وہ زمینیں خرید کر بنائی جاتی ہیں، قبضے کر کے نہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمارا کسان اپنی زمینیں کیوں بیچ رہا ہے؟ اگر ہم اس سوال پر غور نہیں کر کر سکتے تو سوشل میڈیا پر فیشن کے طور پر کی گئی آہ و زاری ہماری اجتماعی دورنگی کے سوا کچھ نہیں۔

ہم نے ’رورل اکانومی‘ کو ہمیشہ غیر اہم اور نچلے درجے کی چیز سمجھا۔ معاشرے میں ’پینڈو‘ کا لفظ آج بھی دوسروں کے لیے طعنے اور حقارت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ ’پینڈو لوگ‘ بھی اب ڈیجیٹلائز ہونے کے لیے زمینیں بیچ رہے ہیں تو ’بابو لوگ‘ سوشل میڈیا پر دہائی دینا شروع ہو گئے ہیں کہ ہائے ہمارے درخت۔ درختوں کو نہیں صاحب، اپنی دورنگی کو روئیے جس نے کسان کو اس حال تک لا پہنچایا کہ اب اس کے لیے زراعت اور زمینوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔

اپنی ’رورل اکانومی‘ کا حجم دیکھیے اور پھر اپنا رویہ دیکھیے۔ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور بعض روایات کے مطابق پاکستان کے 70 فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہیں لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ ہمارے اجتماعی بیانیے میں زراعت پر کتنی بات ہوتی ہے؟ اخبارات و جرائد اور ٹی وی شوز اور حتیٰ کہ پارلیمان میں زراعت کے حوالے سے ہونے والی گفتگو کا تناسب کتنا ہے؟

روز یہاں سینکڑوں کالم شائع ہوتے ہیں جن میں ایران و توران کے مسائل پر بات ہوتی ہے۔ ان میں سے کتنے کالم ہوتے ہیں جن میں زرعی مسائل اور امکانات کو موضوع بنایا گیا ہو؟ آج تک کتنے ٹاک شوز میں کسی کسان کو بلا کر پوچھا گیا کہ تمہارے مسائل کیا ہیں؟

ہماری جی ڈی پی کا 11 فیصد لائیو سٹاک پر مشتمل ہے۔ ہمارے ہاں 2.4 کروڑ گائیں، 2.6 کروڑ بھینسیں، 2.4 کروڑ بھیڑیں اور 5.6 کروڑ بکریاں ہیں۔ کیا کسی حکومت نے آج تک ایسی کوئی کوشش کی کہ اس شعبے کو باقاعدہ شکل دیتے ہوئے کوئی ٹھوس کوشش کی جائے کہ حج کے موقعے پر کچھ لائیو سٹاک پاکستان سے فراہم کیا جا سکے تاکہ مقامی مارکیٹ میں امکانات بڑھیں اور یہ مزید مستحکم ہو؟

ہم ہر سال تین کروڑ ٹن دودھ پیدا کرتے ہیں لیکن یہ ناکافی ہے۔ طلب موجود ہے لیکن رسد پر کوئی پالیسی دے کر خالص دودھ کی فراہمی یقینی بنانے کی بجائے یہاں اہتمام سے ڈاکٹر حضرات سے یہ قیمتی مشورے دلوائے جاتے ہیں کہ عزیز ہم وطنو چونکہ کھلے دودھ میں ملاوٹ ہوتی ہے اس لیے کھلا دودھ پینا بند کر دو اور بازار سے خریدے گئے ’وائٹنر‘ کو دودھ سمجھ کر پی جاؤ۔

کسان کی فصل تیار ہوتی ہے تو قیمت کم کر دی جاتی ہے۔ کسان پر پابندی ہے وہ اپنی جنس کو ذخیرہ نہیں کر سکتا۔ سرکاری نرخ پر جب اسے پابند کر کے اس سے گندم خرید لی جاتی ہے اور وہ گوداموں میں پہنچ جاتی ہے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ سرمایہ دار مزے کرتے ہیں لیکن کسان کے حصے میں کچھ نہیں آتا۔ وہ ایک بار پھر باردانہ کے حصول کے لیے دھکے کھا رہا ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کہنے کو ہم ایک زرعی ملک ہیں لیکن کوئی زرعی پالیسی نہیں۔ کسان کے لیے کوئی سہولت نہیں۔ جدید آلات منگوا کر اسے سستے داموں فراہمی کا کہیں کوئی منصوبہ نہیں۔ چنانچہ ہم بہت پیچھے رہ گئے۔ فرانس کی فی ایکڑ گندم کی پیداوار ہم سے قریباً تین گنا زیادہ ہے۔ چین میں فی ایکڑ کپاس کی پیداوار پاکستان سے قریباً دگنی ہے۔ کسانوں کا استحصال ہر سطح پر ہوتا ہے۔ بھارت کے کسان احتجاج کریں تو ہمیں اچھا لگتا ہے لیکن اپنے کسان احتجاج کریں تو ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔

ملک میں زراعت کی ترقی کے لیے زرعی یونیورسٹیاں بنائی گئیں لیکن انہوں نے زراعت کے علاوہ باقی تمام شعبوں میں گھوڑے دوڑانا شروع کر دیے۔ راولپنڈی کی بارانی یونیورسٹی نے ایل ایل بی کرانا شروع کر دیا اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں کمپیوٹر سائنس پڑھائی جا رہی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی میڈیکل کالج ایل ایل اور کمپیوٹر سائنس کی ڈگریاں دینا شروع کر دے؟ یہ انوکھا کام زرعی یونیورسٹیوں میں ہی کیوں ہوتا ہے؟ یہ اپنے اصل میدان میں جوہر دکھانے کی بجائے ادھر ادھر کیوں جا نکلتی ہیں؟

زراعت نہ یہاں کسی کی ترجیح ہے نہ اس میدان میں کوئی ڈھنگ کی تحقیق ہو رہی ہے۔ کوئی منصوبہ بندی کہییں نظر نہیں آتی۔ کسان کے حالات بہت خراب ہو چکے۔ زمینوں کی آمدن برائے نام ہے۔ چنانچہ جب کہیں کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی ان کے کھیتوں کھلیانوں میں دستک دیتی ہے تو وہ اپنے باغات برباد کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ کیونکہ زمینیں بیچ کر انہیں جو دولت ملتی ہے زمینیں سینچ کر ان کی نسلیں اس کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔

پینڈو لوگ جب زمینیں اور باغات بیچ کر بابو لوگ بننا چاہتے ہیں تو بابو لوگ شور مچاتے ہیں کہ یہ درخت کیوں کٹ گئے اس پر قانون سازی ہونی چاہیے۔ بابو لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے قانون کسی ’پینڈو لوگ‘ کو اس کی اپنی زمین سے درخت کاٹنے سے نہیں روک سکتا۔ روکنا ہے تو ان وجوہات کو تلاش کیجیے جو کسان کو اتنا مجبور کر دیتی ہیں کہ کھیت کھلیان اور باغات فروخت کردیتا ہے۔

یہ سلسلہ صرف ملتان تک محدود نہیں۔ بلوچستان کے کان مہتر کا علاقہ جو کبھی سیبوں کے باغات کے لیے مشہور ہوتا تھا اب ٹمبر کی سب سے بڑی مارکیٹ بن چکا۔ ایکڑوں پر پھیلے سیب کے باغات ان کے مالکوں نے کاٹ کر پھینک دیے۔ کیا کسی نے اس وقت ان سے جا کر پوچھا وہ اپنے باغات کیوں کاٹ رہے ہیں؟

کسان کو عزت دیجیے۔ اس کا بہت استحصال ہو چکا۔ زراعت اور اس سے جڑی صنعت کو فروغ دینے کے لیے ہمیں ایک مربوط زرعی پالیسی کی ضرورت ہے تا کہ زراعت میں لوگوں کو امکانات نظر آتے رہیں اور وہ زمینیں فروخت کرنے کی بجائے انہیں کاشت کرتے رہیں۔ ورنہ یہاں ہاؤسنگ سوسائٹیاں تو بنتی جائیں گی لیکن کھانے کو کچھ نہیں ہو گا۔

پھر ٹوئٹر پر لنچ، انسٹا گرام پر برنچ اور فیس بک پر ڈنر کیجیے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ