کیا برطانیہ بادشاہت سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے؟

مستقبل میں شاہی خاندان کی معزولی کا امکان محض اس لیے رد نہیں کیا جا سکتا کہ ابھی ایسا ناممکن نظر آتا ہے۔

اس کی ضمانت کوئی بھی نہیں دے سکتا لیکن شہنشاہیت سو فیصد محفوظ ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

بریگزٹ اور عالمی وبا کے مسائل کل تک پائیداری کی علامت سمجھی جانی والی برطانوی قوم کو از سر نو جائزے پر مجبور کر رہے ہیں۔ مستقبل میں برطانیہ کے ٹوٹنے کے امکانات، نیشنل ہیلتھ سروس کی جانچ پڑتال اور چار (یا پانچ) مدتی تعلیمی سال پر غور و فکر، برطانیہ کی دنیا میں حیثیت کے جامع جائزے سمیت یہ گنجلک مسائل کے بارے میں سوچنے کا وقت ہے۔ یہ کوئی بری بات بھی نہیں ہے۔

تو آئیے ایک اور دستی بم پھینکتے ہیں۔ ہیری اور میگن کے اوپرا ونفری کو دیے گئے دھماکہ خیز انٹرویو نے برطانوی عوام کی رائے کو تقریباً برابر دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ بکنگھم پیلس اپنی یادداشتوں میں اسے چاہے واقعی بہت معمولی اہمیت دے لیکن اس نے نسلی تقسیم کے ساتھ ایک نہایت اہم سوال کھڑا کر دیا ہے: کیا ایسا وقت آ سکتا ہے جب برطانیہ بادشاہت سے چھٹکارا حاصل کرلے؟

ایک بات واضح ہے کہ فی الحال تو نہیں۔ ہم 1936 میں تخت سے دستبرداری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کو دوبارہ ہوتے نہیں دیکھ رہے۔ میگن مارکل اور والس سمپسن کے درمیان مماثلتوں کے باوجود تب بادشاہ بھی اس کا حصہ تھا جبکہ یہاں محض ایک وارث ہے جو تخت کی دوڑ میں چھٹے نمبر پر ہے۔ بادشاہت کا مستقبل تین نسلوں تک تو محفوظ ہے، قطع نظر اس سے کہ ہیری اور میگن اپنی زندگیوں کے لیے کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔

انہی وجوہات کی بنا پر یہ ایسا لمحہ نہیں جو محل کو بری طرح ہلا کر رکھ دے۔ اوپرا ونفری کو دیا گیا یہ انٹرویو ویسا نقصان دہ نہیں جیسا بادشاہ اور ملکہ بننے کے منتظر چارلز اور ڈیانا کا ٹی وی انٹرویو تھا۔ یہ ڈیانا کی موت کے بعد عوامی موڈ سمجھنے میں شاہی محل کی ناکامی جتنا ضرر رساں بھی نہیں۔ یہ وہ دن تھے جب کینسنگٹن گارڈنز میں پھولوں کے ڈھیر لگ گئے تھے لیکن خاموشی کی چادر تانے محل نے ایک جھنڈا تک سرنگوں نہ کیا اور یہ شائستہ ترین الفاظ میں بھی شہنشاہیت کے بودے پن کی مثال تھی۔

اب ایسا معاملہ نہیں ہے۔ ملکہ سکون سے اپنے محل میں ہیں۔ وہ اور پرنس فلپ عام طور پر نسلی تعصب سے مستثنیٰ رہے اور انہوں نے اپنی بر وقت تقریروں، کیپٹن ٹام مور کو سر کا خطاب دینے کے حوصلہ افزا قدم اور ویکسین کی جلد تیاری پر زور دیتے ہوئے وبا کے دوران موثر کردار ادا کیا ہے۔ ممکن ہے میگن اور ہیری کو جدیدیت کے علمبرداروں کے طور پر قبول کرنے کا افسوسناک موقع گنوا دیا گیا ہو لیکن کھلے تنازعے سے کم از کم ایک بات تو واضح ہو گئی ہے۔

اس کی ضمانت کوئی بھی نہیں دے سکتا لیکن شہنشاہیت سو فیصد محفوظ ہے۔ چارلز کی تخت نشینی پہلا امتحان ہوگی۔ ملکہ کے احساس ذمہ داری اور بزرگی نے انہیں جو مقبولیت دی ہے ان کے بیٹے کے لیے برقرار رکھنا مشکل ہو گا۔ ماحولیات اور جمالیاتی فن تعمیر سے متعلق چارلز کی فکرمندی اپنے وقت سے آگے کی چیز تھی، جس پر انہیں بہت کم سراہا گیا۔ وہ کوئی ایسے شخص یا شہزادے نہیں جن کے لیے بڑی تعداد گرم جوشی کے جذبات رکھتی ہو اور دوسری طرف اپنی تاج پوشی کے لیے انہیں اتنا طویل انتظار کرنا پڑا کہ بطور بادشاہ ان کے دن محض گنتی کے ہوں گے۔

کیا برطانوی شاہی خاندان کامیابی سے مشکلات کا سامنا کر پائے گا؟ کیا وہ ڈچ یا سکینڈینیوین ہم منصبوں کے خطوط پر اپنے ادارے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکے گا؟ جس ادارے کی وہ نمائندگی کرتے ہیں یا بذات خود وہ، کتنے عرصے تک متنوع اور پہلے کی نسبت کم مودبانہ نئی برطانوی نسلوں کے لیے قابل قبول ہوں گے؟ کیا آج سے 50 برس بعد بھی برطانیہ میں شاہی نظام برقرار ہوگا؟

ایسے منظر نامے کی تصوراتی تشکیل ممکن ہے جب شاہی خاندان بلکہ خود بادشاہ کا روز مرہ زندگی سے موجودہ تعلق مزید واجبی ہو کر رہ جائے۔ ملکہ کے ہاتھوں پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب، برسراقتدار وزیراعظم کو ’نصیحت‘ یا ’انتباہ‘ کی روایت اور دولت مشترکہ کے سربراہ کے عہدے جیسے سیاسی اختیارات مزید سکڑ کر رہ جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے نتیجے میں شہری معاملات بھی سوالات کی زد میں آئیں گے، جیسے ٹیکس ادا کرنے والوں کی رقم کا پارلیمنٹ کی منظوری سے شاہی خاندان کے لیے استعمال۔ اگر پارلیمنٹ نے جائیداد سے ہونے والی آمدنی پر انحصار کا مطالبہ کرتے ہوئے شاہی خاندان کے لیے فنڈز جاری کرنے سے انکار کر دیا تو عوام اور بادشاہت کے درمیان تعلقات کا آخری رشتہ بھی ٹوٹ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں یا تو شہنشاہیت سب کچھ کھو دینے کے باوجود برائے نام اپنی جگہ پر موجود رہے گی یا پارلیمنٹ اور ملکہ حقیقت پسندانہ انداز میں برطانیہ کو بطور صدارتی جمہوریت تسلیم کر لیں گے۔

یہ سب سے بہترین طریقہ ہوگا، لیکن شہنشاہیت کو پرامن یا پرتشدد طریقے سے اتار پھینکنے کا امکان محض اس لیے رد نہیں کیا جا سکتا کہ ابھی ایسا ناقابل تصور ہے۔ عسکری شکست کی طرح عالمی وبائیں بھی موجودہ نظام کو تہس نہس کر سکتی ہیں جو ضروری نہیں کہ یکلخت ہو بلکہ رفتہ رفتہ بھی ایسا ممکن ہے اگر لوگ سوچنے لگیں کہ ادارے ناکام ہو گئے۔

نوجوانوں کی شدید جذباتی ہنگامی خیزی کے نتیجے میں پرتشدد تبدیلی کا امکان رد کرنا غیر دانشمندانہ ہو گا، تاہم ممکن ہے باہر سے دیکھنے والے غیر برطانوی دوسرے الزبیتھن عہد کا سایہ ہمارے سروں پر مستقل دیکھتے ہوں۔

اب تیسرا امکان یہ ہو سکتا ہے: اگر برطانیہ ٹوٹ جاتا ہے تو کیا شہنشاہیت کم و بیش محفوظ رہے گی؟ جیسا کہ 2015 کے سکاٹش ریفرنڈم کے نتائج کے بعد سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے بلاواسطہ ملکہ پر انحصار سے واضح تھا کہ یونین کا شیزاہ بکھرنے کے اثرات شاہی نظام پر بھی مرتب ہوں گے۔ متحدہ آئرلینڈ میں شمالی علاقہ بھی اسی کا حصہ ہوگا۔

کیا خودمختار سکاٹ لینڈ ملکہ کو بطور سربراہ مملکت برقرار رکھے گا (کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرز پر) یا ممکن ہے یہ جمہوری سلطنت بننے کو ترجیح دے۔ یا ممکن ہے یہ کسی خالص سکاٹش نسل سے تعلق رکھنے والی شاہی خاندان کی لڑی کو پسند کرے؟ انگلینڈ تنہا یا ویلز کے ساتھ مل کر ممکن ہے کہ شاہی خاندان سے چھٹکارا حاصل کر لے یا ممکن ہے یہ شہنشاہیت میں قدیم انگلینڈ کی جھلک دیکھے اور ماضی سے بھی زیادہ شاہ پسند ہو جائے؟

1960 میں چارلز دوم کی تخت پر واپسی کے بعد ابھی تک مرضی سے تخت چھوڑنے کی استثنائی مثالوں کے سوا کبھی کوئی سنجیدہ خطرہ پیش نہیں آیا۔ حملوں، قبضوں اور انقلابات (مرکزی برطانوی شہروں میں) برپا نہ ہونے کی وجہ سے انگلینڈ اور برطانیہ ایسے ہنگامہ انگیز واقعات سے محروم رہے جنہوں نے باقی دنیا میں کامیاب انقلابات کو فروغ دیا ہو۔ اپنا اپنا نقطۂ نظر ہے لیکن اس کے نتیجے میں صدیوں کا سیاسی استحکام جس کی سربراہی ارتقا پذیر بے ضرر شہنشاہیت یا پختہ اشرافیہ کے ہاتھوں میں رہی، جسے جدید عہد کے مطابق ڈھالنے کا وقت ہے اور ترجیحی بنیادوں پر اس کی جگہ فرانسیسی یا امریکی طرز پر براہ راست صدارتی انتخابات کی ضرورت ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ دنیا بھر میں سیاسی نظام واضح کثرت سے شہنشاہیت کی نسبت صدارتی پارلیمانی نظام کی طرف بڑھے ہیں۔ آزادی حاصل کرتے ہی نوآبادیاتی ریاستوں نے محض بادشاہوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے اداروں کو بھی خیر آباد کہہ دیا ہے۔ سپین ان چند گنے چنے ملکوں میں سے ایک ہے جہاں شہنشاہیت کی واپسی ہوئی اور وہ اس میں پھنس کے رہ گیا۔

شہنشاہِ ایران بحالی کے بعد 25 سال تک چلتا رہا اور پھر معزول کر دیا گیا اور اس کی جگہ مذہبی حکومت آ گئی۔ بلغاریہ، رومانیہ بلکہ روس تک کمیونزم کی ناکامی کے بعد شاہی نظام کی بحالی سے وقتی طور پر گزرے لیکن پھر صدارتی نظام کا انتخاب کیا۔ سول وار کے خاتمے کے لیے 2001 میں عمر رسیدہ بادشاہ ظاہر شاہ کو واپس لانے کے لیے کوششیں ہوئیں لیکن ایسا نہ ہو سکا اور بادشاہ 2007 میں جلاوطنی کی حالت میں فوت ہو گیا۔

اگرچہ تاریخ کا سفر ایک سمت کو جاری ہے تاہم یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ شمال مغربی یورپ کے اس خطے میں واقع ہے جہاں شہنشاہیت ابھی تک فروغ پا رہی ہے۔

اس لحاظ سے برطانوی شاہی خاندان مسائل کے باوجود کامیابی سے اپنا تخت برقرار رکھ سکتا ہے۔ کامیابی اور ناکامی سے قطع نظر بہرحال ڈچ اور سیکینڈینیوین طرز پر نظام استوار کیے بغیر یہ ڈانواں ڈول رہے گا۔

ہیری اور میگن کا محل ترک کرتے ہوئے الگ ہونا دونوں طرح سے اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ایک طرف یہ لڑکھڑاتے شاہی نظام کے زوال کو تیز تر کر سکتا ہے تو دوسری طرف یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ برطانوی شہنشاہیت تبدیلی کے خلاف شدید ترین مزاحمتی رویہ اختیار کرلے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا